تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     28-12-2022

پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا

گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کی ایڈوائس بھی جاری کر دی‘ لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کی ایڈوائس کو قانونی ماننے سے انکار کر دیا۔ سپیکر کا مؤقف یہ تھا کہ اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی جاری ہے‘ جاری اجلاس کے دوران نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ بہرحال مقررہ وقت تک اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکنے پر گورنر پنجاب نے 22 دسمبر کی رات آئین کے آرٹیکل (7) 130 کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ اس برخاستگی کے خلاف چودھری پرویز الٰہی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا جس پر چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر لاہور ہائیکورٹ نے ان کی برخاستگی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ جب اسمبلی کی تحلیل کا ذکر آیا تو وزیراعلیٰ کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت برخاستگی کا نوٹیفکیشن معطل کر کے خود ہی اس حوالے سے کوئی ڈائریکشن دیدے۔ جس پر معزز عدالت کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد معاملے کو بیلنس کرنا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا سلسلہ ہو کہ چیزیں ٹھیک چلیں۔ یہ یقین دہانی نہیں کرائی جا رہی تو پھر عبوری ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ عبوری ریلیف دیں تو کوئی اس کا غلط استعمال نہ کرے۔ ہم کابینہ کو بحال کرتے ہیں مگر ہمیں یقین دہانی تو کرائی جائے۔ ہم آپ کو مزید وقت دے دیتے ہیں‘ لیکن ہم کیسے اسمبلی کی تحلیل کے آئینی عمل کو روک سکتے ہیں؟ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔ اس پر چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد اُنہیں اُن کے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔
یہ فیصلہ آنے کے بعد اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عوامی سطح پر یہ مؤقف اختیار کیاکہ وہ چودھری پرویز الٰہی کی انڈر ٹیکنگ سے اتفاق نہیں کرتے، گویا بین السطور میں انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی یقین دہانی پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ سے چودھری پرویز الٰہی کے فرمودات کو ویسے بھی عمران خان نظر انداز ہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے سے عمران خان کی دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی حکمت عملی بظاہر ناکام ہو چکی ہے اور چودھری پرویز الٰہی نے خوبصورتی سے اپنے کارڈ کھیلتے ہوئے عمران خان کو سیاسی طور پر بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے‘ لیکن ساتھ ہی شاید چودھری پرویز الٰہی کو احساس ہو چکا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینا ان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہو گا کیونکہ حالات یہی بتا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پرویز الٰہی کو 173 اراکین کی حمایت حاصل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق وہ اکثریت سے محروم ہو سکتے ہیں اور چودھری شجاعت حسین بھی اس حوالے سے بہت زیادہ سرگرم اور فعال ہیں؛ چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے تحت اور گورنر کے فرمان کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا تو وہ اکثریت ثابت نہیں کر سکیں گے۔ اگر ملک کو درپیش سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ملک قبل از وقت انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے ہیں‘ نئے انتخابات کا پُرامن انعقاد ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر اس وقت فوری انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو معاشی و سیاسی بحران کے پیش نظر نگران حکومت کے لیے امورِ مملکت انجام دینا بھی آسان نہ ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کردیے ہیں۔یہ فیصلہ اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن میں اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت کے بعد کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے اس کیس کی سماعت کی۔دورانِ سماعت حکومتی وکیل کادلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کی سفارش کی ہے‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو آبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیے جبکہ پی ٹی آئی کے وکلا نے دلائل دیے کہ اسلام آباد میں حلقہ بندیوں میں اضافے کے پارلیمنٹ کے بل پر صدر کے دستخط نہیں ہیں لہٰذا یہ قانون ابھی موجود نہیں ہے اور یہ کہ آئین کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق الیکشن کا انعقاد کرے۔چونکہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کر چکا ہے اور اس حوالے سے اعتراضات بھی سن چکا ہے‘ جبکہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو قانون کے مطابق نئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کرانے کی پوری ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے‘ اس میں وفاقی حکومت کی دخل اندازی کا مطلب الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے 31 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے۔
خیال رہے کہ 20 دسمبر کو وزارتِ داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا خدشہ بڑھ گیا تھا؛ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کے بہانے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے اقدام کے ایک روز بعد 21 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور 23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔مقامی حکومتوں کے انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔
اُدھرلاہور ہائیکورٹ نے ڈسکہ ضمنی الیکشن میں بے ضابطگی میں ملوث افسران کیخلاف الیکشن کمیشن کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مِس کنڈکٹ پر متعلقہ محکمے کارروائی کر سکتے تھے‘ الیکشن کمیشن نہیں۔واضح رہے کہ19 فروری2021ء کو حلقہ این اے 75 میں ضمنی انتخاب کے دوران شدید بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی‘ جہاں مشتعل افراد کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے‘جبکہ الیکشن کمیشن کے عملے نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں بھی غفلت کا مظاہرہ کیا تھا جس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے اُس وقت کے ڈی سی سیالکوٹ اور دیگر کے خلاف ضابطہ اخلاق کی کارروائی شروع کی گئی تھی تاہم سابق ڈی سی سیالکوٹ اور دیگر نے الیکشن کمیشن کی کارروائی کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اب عدالت نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سمیت دیگر کے خلاف جاری کارروائی کو کالعدم قرار دے دیااورالیکشن کمیشن کی کارروائی کے خلاف دائر تمام درخواستیں منظور کرلی ہیں۔وفاقی حکومت نے بھی ڈسکہ ضمنی انتخابات میں مبینہ بدعنوانی پر ملوث افراد کے خلاف انکوائری کا عندیہ تھا لیکن شاید وفاقی حکومت کے اندرونی مفادات کے پیش نظر یہ انکوائری کمیٹی تشکیل نہ پا سکی۔
بہر حال آئندہ انتخابات کیلئے حکومت اگرانتخابی اصلاحات میں مؤثر ترامیم کرنا چاہتی ہے تو اُسے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 218 اور 232 کے تحت مکمل اختیارات دینا ہوں گے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کو ریفرنس بھجوا یا جائے تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کا تعین کیا جاسکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved