گزشتہ سال کابل پر طالبان کے قبضے اور رواں سال اگست کے بعد سے ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعا ت میں اضافے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سکیورٹی کے ضمن میں افغانستان کی عبور ی حکومت نے جو وعدے کیے ہیں‘ وہ ان پر پورا اترے گی۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے یہ بیان اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اخباری نمائندوں کے سوالات کے جواب میں دیا۔ اس بیان کو دیکھ کر ذہن میں فوراً خیال آتا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے اس قسم کی یقین دہانیاں تو پہلے بھی کرائی گئی تھیں مگر ان سے کوئی فرق پڑا؟ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان سے سرحد پار کرکے ملک کے شمالی علاقوں میں پولیس اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں اور شہریوں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اُس جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں جو امریکی افغانستان میں چھوڑ گئے تھے۔
دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان امریکہ اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان کو دیگر ملکوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے بطور اڈہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ لیکن سوات‘ مالا کنڈ اور شمالی وزیرستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں جنگ بند ہونے اور کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو‘ جو 2014ء کے بعد فوجی آپریشنز کی وجہ سے افغانستان بھاگ گئے تھے اور طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر غیرملکی اور افغان فوجوں کے خلاف جنگ میں شریک تھے‘ اپنے ہتھیاروں سمیت پاکستان کے شمالی علاقوں میں واپس آنا شروع ہو گئے اور آتے ہی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے۔ جب پاکستان نے کابل میں افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے اس بنا پر کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو اُن کے شانہ بشانہ امریکیوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں‘ کہا کہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے البتہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سابقہ حکومت نے طالبان کی اس پیشکش کو قبول کرکے گزشتہ سال اکتوبر میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا اور کابل میں اس بات چیت کے متعدد دور ہوئے‘ لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ ٹی ٹی پی نے مصالحت کے لیے ایسی شرائط رکھیں جو ریاستِ پاکستان کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہ تھیں۔ دوسری طرف افغان طالبان ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس طرح پاکستان کی اس مسئلے پر پالیسی کنفیوژن کا شکار رہی‘ جس کا ٹی ٹی پی نے فائدہ اٹھایا‘ سابقہ قبائلی علاقوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا اور بھتہ طلب کرنے کی کارروائیوں کا دائرہ پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں تک پھیلا دیا۔ جب پاکستان نے افغان طالبان انتظامیہ سے رابطہ پیدا کرکے انہیں ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈانے کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان میں نہیں ہیں‘ اس لیے ان کی طرف سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسی دوران ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے آپریشنز افغانستان سے لانچ نہیں کر رہی کیونکہ پاکستان کے شمالی علاقوں کا ایک بڑا حصہ ان کے زیر کنٹرول ہے اور کے پی کے علاوہ پاکستان کے دیگر حصوں میں اس کی دہشت گردی کی کارروائیاں افغانستان سے نہیں بلکہ پاکستان کی دھرتی سے کی جا رہی ہیں۔ افغان اور پاکستانی طالبان‘ دہشت گردوں کے حملوں میں افغان سرزمین کے استعمال کے الزام کے بارے میں اتنے حساس ہیں کہ بنوں کے کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر میں قید ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے یرغمال بنائے جانے والے حکام کی رہائی کے بدلے پہلے افغانستان کے لیے محفوظ راستے کی شرط رکھی‘ لیکن جب اس شرط کے مضمرات ان پر آشکار ہوئے تو انہوں نے فوراً افغانستان کے بجائے شمالی وزیرستان جانے کے لیے محفوظ راستے کا مطالبہ کر دیا۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے ان بیانات سے پاکستان پر اب یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ انہوں نے کابل کے نئے حکمرانوں سے کراس بارڈر دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
بنوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی نئی عسکری قیادت بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ٹی ٹی پی دہشت گردی کی نئی لہر کو بلا تاخیر پوری قوت سے کچل دینے کی ضرورت ہے اور اس کام میں پاکستان کو اپنے ہی وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ مگر اس مقصد کے حصول کیلئے افغانستان کا تعاون بھی ضروری ہے کیونکہ ماضی کی طرح ملٹری آپریشنز کی صورت میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد سرحد پار افغانستان کے علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ وزارتِ خارجہ اور واشنگٹن میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی سے انکار پر مایوس ہو کر پاکستان اب کابل کی طالبان انتظامیہ سے صرف یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی جنگجو پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو انہیں پناہ نہیں دی جائے گی۔
بنوں آپریشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی اُس اپروچ کی ناکامی کے بعد عمل میں آئی ہے جس کے تحت فرض کر لیا گیا تھا کہ افغانستان میں 'فتح‘ کے بعد کابل کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو سرحد پار پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ مگر جو ہوا‘ وہ اس کے برعکس تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی سرحدی چوکیوں اور ملک کے اندر ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ معلوم یہ ہوا کہ اشرف غنی کی سابقہ افغان حکومت نے پاکستان کے مطالبے پر افغانستان بھاگ آنے والے ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوؤں کو قید کر رکھا تھا۔ ان میں ان کا سربراہ اور پاکستان میں متعدد افراد کے قتل اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مطلوب مولوی فقیر محمد بھی شامل تھا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ٹی ٹی پی کے سب جنگجوؤں‘ جن کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے‘ کو ا ن کے رہنما سمیت رہا کر دیا گیا۔ رہا ہونے والے ٹی ٹی پی کے جنگجو جدید ترین ہتھیاروں سمیت افغانستان سے پاکستان آ چکے ہیں اورسوات‘ باجوڑ‘ شمالی وزیرستان اور مالا کنڈ‘ جو 2015ء سے پہلے ان کے گڑھ تھے‘ ان کی تازہ کارروائیوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ افغانستان سے ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں اپنے پرانے ٹھکانوں پر اسی عرصہ میں آئے ہیں جب افغان طالبان کی وساطت سے پاکستانی حکام ان سے مصالحت پر بات چیت کر رہے تھے۔ ٹی ٹی پی نے اس بات چیت کی آڑ میں نہ صرف افغانستان سے اپنے جنگجوؤں کو پاکستان میں داخل کیا بلکہ اپنی پوزیشن بھی مستحکم کر لی۔ ٹی ٹی پی کے ذریعے افغانستان سے امریکیوں کا چھوڑا ہوا انتہائی مہلک اور جدید ترین اسلحہ بھی پاکستان میں پہنچ چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved