تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     29-12-2022

نیا سال اورعمران خان

ایک اور سال رخصت ہونے کو ہے۔ ایسا سال جو قومی اور انفرادی زندگی میں مشکلات اور آزمائش کا سال رہا اور خوف یہ ہے کہ اس سال پیدا ہونے والے سیاسی بھونچال‘ معاشی عدم استحکام اور لاقانونیت جیسے مسائل نئے برس میں بھی قومی افق پر چھائے رہیں گے۔
تحریک انصاف کی آئینی و قانونی طریقہ کار سے ہٹائی گئی حکومت اور اس کے بعد ہونے والی رسہ کشی نے سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا‘ یہاں تک کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خوف نے ہمیں جکڑ لیا۔ ایک نامکمل پارلیمنٹ‘ سڑکوں پر جاری احتجاج‘ بیانیے کی جنگ‘ مہنگائی‘ بدترین سیلاب اور معاشی و سیاسی عدم استحکام سال 2022ء کے اہم خدو خال ثابت ہوئے۔ اگر سیاسی طور پر اس سال کا تجزیہ کریں تو تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ بہت سے مسائل کی جڑ ثابت ہوا۔ قومی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک منتخب وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا جو اس لحاظ سے نہایت اہم تھا کہ وطنِ عزیر کی 75سالہ تاریخ میں وزرائے اعظم یا تو عدالتوں کے ہاتھوں گھر بھیجے گئے یا مارشل لاء کے ذریعے۔ بلاشبہ‘ یہ پاکستانی سیاست کے پختہ ہونے کا ایک اہم ثبوت تھا جس سے محسوس ہوا کہ اب جمہوری کلچر مزید پروان چڑھے گا اور سیاست‘ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں رہے گی لیکن عمران خان نے اس جمہوری تبدیلی پر جس طرح کا رویہ اپنایا‘ اس نے ملک میں عدم استحکام کو نئی راہیں فراہم کیں۔ اپنی حکومت جاتے اور شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت آتے دیکھ کر تحریک انصاف کی قیادت اور معاشی ٹیم کی طرف سے ملکی معیشت میں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں تاکہ آنے والی حکومت ڈوبتی معیشت کو سہارا نہ دے سکے اور فیل ہو جائے۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے کیے گئے سخت ترین معاہدے کے باوجود ڈیزل‘ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا۔ کووِڈ اور عمران خان حکومت کی پالیسیوں کے سبب تباہ حال معیشت اس جھٹکے کو سنبھال نہ سکی‘ جس کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور ملکی معیشت کا استحکام مسلسل خطرے سے دوچار ہے۔
قومی مسائل میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ ہے لیکن ان مسائل کے ذمہ دار عمران خان ہی ہیں جنہوں نے گورننس میں اناڑی ہونے اور بیانیہ سازی میں چیمپئن ہونے کا بدرجہ اتم ثبوت دیا۔ اس لیے اگر کہا جائے کہ عمران خان حکومت موجودہ قومی مسائل کی بنیاد رکھ کر گئی تو بے جا نہ ہوگا۔ سائفر پر بیانیہ بنانا ہو یا میر جعفر و صادق کا پروپیگنڈا کرنا ہو‘ تحریک انصاف کی قیادت نے ان بیانیوں سے ملکی سیاست کو ایسے پاتال میں گرایا کہ اس کو دوبارہ اٹھانا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ گوکہ بعد میں ان کے بیانیوں کے پول کھل گئے کہ کس طرح امریکہ سے معافی تلافی کرکے کپتان نے سائفر والے بیانیے کو خود ہی جھوٹا ثابت کیا‘ پھر باجوہ صاحب کو تاحیات توسیع دینے کی پیشکش کرکے موصوف نے اپنے ہی بیانیے کی حقیقت بھی عیاں کردی۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس دوران جتنی نفرت و بے اعتمادی عوام میں پھیلی‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان اپنی غلطیوں پر‘ اپنی خامیوں سے بھرپور گورننس کا محاسبہ کرتے۔ بیساکھیوں کی مدد سے دوبارہ اقتدار میں آنے سے توبہ کرتے اور پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات اور احتساب کے قوانین میں مؤثر تبدیلی لاتے۔ لیکن انہیں لوگوں کو چور‘ ڈاکو کہنے سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سنگین کیسز کی ایک طویل قطار ان کا انتظار کر رہی ہے۔ اُدھر آڈیو لیکس کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے عمران خان کی حقیقت آشکار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔قدرت کا قانون ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ بی بی شہید کی برسی کے موقع پر وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے عمران خان صاحب کو بہترین مشورہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ سے اجنبیت ختم کریں‘ واپس آئیں اور اپنا جمہوری کردار ادا کریں‘ ورنہ وہ سب سہنے کو تیار ہوجائیں جو آپ اپنی حکومت میں مخالفین کے ساتھ کرتے تھے۔
عمران خان کا سب سے بڑا خوف یہی ہے کہ کہیں وہ اپنے کیسز کی وجہ سے نااہل نہ ہوجائیں۔ جہاں عمران خان پرامید اور خوش گمانی کا شکار ہیں کہ بدتر معاشی حالت مارچ اپریل میں الیکشن کی وجہ بن جائے گی اور وہ اپنے بیانیوں‘ پروپیگنڈوں اور معیشت میں لگائی بارودی سرنگوں کی مدد سے دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پر جلوہ گر ہوجائیں گے‘ وہیں توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس ان کے عزائم میں بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں‘ جبکہ ٹیریان وائٹ کیس بھی جنوری میں سنا جائے گا۔ گوکہ یہ کیس 1996ء سے عمران خان کا پیچھا کررہا ہے لیکن ہماری عدالتیں معاملہ کیلیفورنیا کی عدالت میں ہونے کے سبب اسے اپنے دائرہ کار سے باہر قرار دیتی رہیں۔ لیکن اس دفعہ پہلی بار اس کیس کی شہادت کے ساتھ عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ پاکستان سے جاری کردہ ایک بیان حلفی شامل کیا گیا ہے۔ 2004ء میں امریکی عدالت کو بھیجے گئے اس بیان میں عمران خان نے ٹیریان وائٹ کو اُس کی والدہ سیتا وائٹ کی وفات کے بعد خالہ کے زیرکفالت دینے کی اجازت دی۔ انہی کیسز کی بدولت عمران خان اس وقت خود کو محاصرے میں محسوس کررہے ہیں اور ان کی جانب سے حالیہ دنوں معاشی تباہ حالی کا ذکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت ڈوبنے کے خوف سے پی ڈی ایم حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کیا جائے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھانے کے لئے وہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے درپے ہیں تاکہ قومی معاشی بحران مزید سنگین ہو اور ان کی اقتدار میں واپسی ممکن ہوسکے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس حوالے سے بھی عمران خان ایک بنیادی غلطی کررہے ہیں۔ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر مسلسل تنقید سے وہ مقتدرہ کو خود سے متنفر کررہے ہیں۔ خان صاحب کہتے تو یہ ہیں کہ وہ سابق چیف پر تنقید کررہے ہیں‘ موجودہ ملٹری قیادت کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن دراصل عمران خان صاحب باجوہ صاحب پر تنقید کرکے مقتدرہ کو دباؤمیں لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر انہوں نے عمران خان کی بات نہ مانی تو ان کی توپوں کا رخ اس جانب بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عمران خان آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لئے مہم چلا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ادارے بھی محتاط ہیں کہ عمران خان کو پہلے کی طرح غیر مشروط حمایت دینے کی غلطی نہیں کرنی جس کا انجام عمران خان کی جانب سے الزامات اور گالم گلوچ کی صورت میں ہوا۔ دوسرا یہ ہے کہ اداروں نے پروجیکٹ عمران خان کو اس لیے بند کیا کیونکہ انہوں نے عمران خان کی نااہلی اور غیر معیاری گورننس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔
اب وقت ہے کہ سیاستدانوں کو اپنی امیچور حرکتوں سے باز آجانا چاہیے کیونکہ ملک نہایت گمبھیر مسائل کا شکار ہے۔ معاشی بدحالی کے علاوہ دہشتگردی کا خطرہ بھی لوٹ آیا ہے‘ اور ہم ان بھیانک مسائل کے ساتھ نئے سال میں داخل ہورہے ہیں۔ خدارا! اپنی ذات سے بالا تر ہوکر سوچیں اور بیٹھ کرمنصوبہ بندی کریں تاکہ جب اگلے سال کا اختتام ہورہا ہو تو یہ مسائل بہت حد تک حل ہوچکے ہوں‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved