جیسے جیسے کراچی میں قیام ِ امن کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس مقصد کے لیے نواز شریف اتفاق ِ رائے پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ کراچی کے مسئلے کا کوئی فوری حل ممکن نہیںہے۔ مسئلہ صرف کراچی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سندھ کے زیادہ ترحصوں میں حکومت نامی کوئی چیز نہیںہے۔ بدعنوانی، جرائم اور بدانتظامی نے صوبے میں حکومتی نظم کو معطل کر رکھا ہے۔ میں نے ایک کالم میں پی پی پی کی بحالی کی امیدکرتے ہوئے لکھا تھا کہ اسے موجودہ مافیا نما رہنمائوں کے قبضے سے چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اس پر بہت سے قارئین نے رد ِ عمل کا اظہارکیا۔ گزشتہ ہفتے کا میرا کالم ’’زندگی کی سب سے بڑی لاٹری‘‘ بھی سندھ کی سماجی اور معاشی پسماندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ضمن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک دوست بزنس مین فرحان مائوجی کا تبصرہ پیش ِ خدمت ہے: ’’جہاں تک میرے بیوپاری ذہن کا تعلق ہے‘ میرا خیال ہے کہ پی پی پی کے پاس طاقت اور وسائل کی کمی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو سیاسی میدان میں اس جماعت کا کوئی حریف نہیں ہے؛ تاہم ہم سب جانتے ہیںکہ ایسا کچھ نہیںہوگا اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ جب وہ اقتدار میں تھے اور مختلف بہانوںسے اپنی ذمہ داریوںسے پہلو تہی کرنے کی بجائے اگر وہ کام کرتے تو آج ان کے لیے حالات بہت مختلف ہوتے‘‘۔ ایک اور دوست نے‘ جو سندھ میں ایک این جی او چلاتے ہیں، قدرے دوٹوک لہجے میں کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار اس طرح کیا: ’’بہتر ہے کہ آپ کسی اور جماعت کی تلاش شروع کر دیں کیونکہ 2018ء تک اندرونِ سندھ اور کراچی تک محدود پی پی پی کاصفایا ہو چکا ہوگا۔ ‘‘ایک پرائمری سکول میں پڑھانے والے ٹیچر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پربتایا کہ اندرون ِ سندھ میں صورت ِ حال کس قدر خوفناک ہے۔ میں اس کا اقتباس بغیر کسی رد و بدل کے پیش کررہا ہوں: ’’کیا آپ جانتے ہیںکہ حکومت طلبہ کو کتابیں مفت فراہم کرتی ہے لیکن ہر ہیڈ ماسٹر بیس روپے فی کتاب وصول کرتا ہے۔ ہر سکول میں ٹیچرز ہیڈماسٹر کو ایک ہزار فی کس ادا کرتے ہیں اور اس کے عوض وہ ایک مہینے میں جتنی چاہے چھٹیاں کر سکتے ہیں۔ سکولوں پر خرچ کرنے کے لیے مختص کی جانے والی رقم کا ایک روپیہ بھی سکولوں پر خرچ نہیں کیا جاتا، اس کی بجائے یہ رقم ہیڈ ماسٹروں اور نگرانوںکی جیب میں چلی جاتی ہے۔ہمارے گائوں میں گورنمنٹ مڈل سکول پر پولیس نے قبضہ کرکے اسے تھانے میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ علاقے میں موجودہ محکمہ ٔصحت کے کوارٹرز پر بھی مقامی ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پی کا قبضہ ہے۔ ہمارے ہائی سکول میں بیس ٹیچر ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی سکول میں حاضری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر ہر ٹیچر سے غیر حاضر رہنے کے عوض تین سے پانچ ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ ہائی سکول میں تعلیم دینے کے لیے مڈل پاس چار لڑکے رکھے گئے ہیں… یہ ہے یہاں تعلیم کی حالت۔‘‘ اتنے خراب حالات یقینا راتوں رات نہیںہوئے۔ اس ’’منزل ‘‘ تک پہنچنے کے لیے عشروں کی بدانتظامی اور مجرمانہ غفلت درکار تھی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے کہ سیاست دان وزارت ِتعلیم کا قلمدان لینے کے لیے کیوں جدوجہدکرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھاری رقم کے عوض سکول ٹیچروںکو ملازمت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ محکمۂ تعلیم کے لیے رکھے گئے فنڈز اور علیم کے لیے بیرونی ممالک سے آنے والی امداد بھی ان کی جیبوں میںجاتی ہے۔ اس طرح اس محکمے میں وزیر سے لے کر ہیڈماسٹر اور سکول ٹیچرزتک، سب اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ اگرکسی کا بھلا نہیںہوتا تو وہ صرف بے چارے طلبہ ہی ہیں۔ جب معاملات اس حدخراب ہیں تو اس میںکسی کو حیرت نہیںہونی چاہیے کہ برٹش کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سکول جانے والے طلبہ میںسے نصف کے قریب ایک لائن بھی نہیں پڑھ سکتے۔ پچیس ملین بچے پرائمری تعلیم حاصل نہیںکرپاتے اور پاکستان کے ایک تہائی بچے سکول میں دو سال گزار کر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ تیس ہزار سکولو ں کی عمارتیں اتنی مخدوش حالت میں ہیں کہ انہیں خطرناک قراردیا گیا ہے جبکہ اکیس ہزار سکول ایسے ہیں جن کی کوئی عمارت سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ اعداد وشمار قومی سطح کے ہیں، ان سے اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ اندرون ِ سندھ، جہاں مقامی وڈیرے اور جاگیر دار سکول کی عمارتوںپر قبضہ کرکے انہیںاپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، تعلیم کا کیاحال ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو منتخب ہوکرقومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب واپس پی پی پی اور اس کی نااہلی کے موضوع پر آتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بات کی کوئی امید دکھائی نہیںدیتی کہ یہ جماعت اپنی ترجیحات درست کرکے بہتر کارکردگی دکھائے گی۔ اس کی صفوںمیں بدعنوانی اس طرح سرایت کرچکی ہے اور اسے ختم کرنا اتنا دشوار ہے جتنا کسی چیتے کے نشانات مٹانا۔ بدترین بات یہ ہے کہ سندھ کے سرکاری محکموںمیں بدعنوانی کا عنصر دوسرے صوبوںسے زیادہ ہے۔ تین عشروںتک سرکاری ملازمت کرنے کے بعد میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ سندھ مالی بے ضابطگیوںمیں ملک کے دیگر حصوںسے آگے ہے۔ یہاں سیاست دان ہوں یا سرکاری افسر، اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر مال بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے رہن سہن کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان کی تنخواہ ایسی زندگی کے لیے کافی نہیںہے۔ ہمارے زیادہ تر مسائل کا تعلق وسائل کی کمی سے نہیں بلکہ ان کی وجہ سیاسی قوت ِ اردای کی کمی ہے۔ ایک تو ہمارے ہاں تعلیم کے لیے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے اور و ہ بھی سرکاری افسران کی نااہلی اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتی ہے۔ ایک مالی سال کے اختتام پر مختص کیے گئے فنڈز استعمال نہیںکیے جاتے۔ اگر پی پی پی کی حکومت اگلے پانچ سال میں کچھ بہتر ی لانا چاہتی ہے تو اسے اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اسے تعلیم کا محکمہ کسی ایماندار شخص کو سونپنا چاہیے۔ اس شخص کو ایماندار سرکاری افسران کا چنائو کرنا ہوگاتاکہ تعلیم کے معاملات کو درست کیا جاسکے۔ کم از اکم اس محکمے کو سیاسی دبائو اور مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔ پھر احساس ہوتا ہے کہ میری زندگی میں تو ایسا ہوتا دکھائی نہیںدیتا۔ دنیا کے دیگر ممالک نے‘ جو پاکستان سے بھی غریب ہیں، صورت ِ حال میں بہتری پیدا کرلی ہے ۔ اب ان کے سکول جانے والے بچوںکی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے۔ اگر پی پی پی باقی کام چھوڑکر سندھ میں صرف تعلیمی انقلاب ہی لے آئے تو ملک بھر میں اس جماعت کا احیا ہوجائے گا، لیکن کیا یہ خواہش ایسی ہی نہیں جیسا ایک شاعر نے کہا تھا: ’’کھیلن کو مانگے چاند‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved