تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     30-12-2022

صدرِ مملکت کا بیان، پنجاب اور بلدیاتی الیکشن

چند روز قبل صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے منسوب یہ بیان گردش کر تا رہا کہ قمر جاوید باجوہ صاحب اور اُن کی ٹیم نے سینیٹ اور عام انتخابات میں عمران خان کی مدد کی تھی۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق صدر عارف علوی نے یہ بیان کراچی میں ایک عشائیے میں بات چیت کے دوران دیا تھا۔ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق صدر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اُس دور میں نیب کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی‘ ملک میں کسی کو بھی صرف الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈالنا بہت آسان تھا۔ نئی شروعات کے لیے ماضی کو بھولنا اور معاف کرنا ہوگا۔ آڈیوز اور وڈیوز کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے اور یہ کہ انہوں نے آڈیوز اور وڈیوز کے کھیل کے حوالے سے نئے آرمی چیف سے بات کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق صدر عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ اداروں کی غیرجانبداری کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔ صدر سے منسوب یہ بیان وائرل ہونے کے بعد صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس بیان کی تردید کردی۔ اس حوالے سے ایوانِ صدر سے ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے غلط طور پر خود سے منسوب بیان کا نوٹس لیا ہے۔ صدر سے منسوب اس بیان کی صداقت سے قطع نظر‘ جب اس بیان کے حوالے سے خبر منظر عام پر آئی تو پی ٹی آئی کی حریف جماعتوں کی طرف سے پی ٹی آئی اور عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی اورچودھری مونس الٰہی بھی اس سے قبل باجوہ صاحب کو عمران خان کا محسن قرار دے چکے ہیں لیکن دوسری طرف خان صاحب ہیں جو نہ صرف ان الزامات کو یکسر مسترد کر چکے ہیں بلکہ باجوہ صاحب کے حوالے سے جارحانہ رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
صدرِ مملکت سے منسوب اس بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال سے قطع نظر‘ اگر پنجاب کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو قانونی طور پر چودھری پرویز الٰہی کو اب اعتماد کا ووٹ لینا ہی پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری اس حوالے سے عندیہ دے چکے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی 2جنوری کو اجلاس بلائے گی جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو 11جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے یا نہیں۔ دوسری طرف صوبائی حکومت کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ 11جنوری سے پیشتر چودھری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیں گے اور اس کے فوری بعد وہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دیں گے۔ خیال رہے کہ 11جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کو ہٹانے کے حکم کے خلاف حکومتِ پنجاب کی درخواست پر اگلی سماعت ہو گی لیکن قانون کے مطابق وزیراعلیٰ کو 11 جنوری سے پہلے یا بعد میں اعتماد کا ووٹ لینا ہی ہے اور اعتماد کے ووٹ میں چودھری پرویز الٰہی کو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکینِ پنجاب اسمبلی کی بڑی تعداد یہ دعویٰ کرتی نظر آتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اراکینِ اسمبلی کی اکثریت کی حمایت کھو چکے ہیں۔ بعض آئینی ماہرین کا یہ بھی مؤقف ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے 186 ووٹ درکار نہیں ہیں لیکن میری رائے میں اُن کا یہ موقف آئین کے آرٹیکل (7)130 کی روح کے بالکل منافی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو صوبائی اسمبلی کے 371 اراکین میں سے 186 ووٹ حاصل کرنا ہی ہوں گے اور قانون کی رُو سے یہی سادہ اکثریت کہلاتی ہے۔ اعتماد کے ووٹ میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے ایوان کے نصف اراکین کا ووٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔
مارچ 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی حکمران جماعت کے امیدوار‘ اس وقت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو شکست دے کر سینیٹر منتخب ہوئے تو اپوزیشن نے کہا کہ عمران خان اپنے ہی اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں‘ اس لیے انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ جس پر عمران خان نے رضاکارانہ طور پر پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس وقت قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کی قوی امید تھی کہ عمران خان آسانی کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ عمران خان نہ صرف پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ 2018ء کے مقابلے میں عمران خان کو دو ووٹ زیادہ ملے۔ اعتماد کا ووٹ لے کر عمران خان نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر دی۔ اب پنجاب میں بھی یہی ہونا چاہیے تھا۔ جب گورنر پنجاب نے چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ایڈوائس جاری کی تھی تو انہیں اس ضمن میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور سپیکر صوبائی اسمبلی کو بھی آئین کے ابہام کی آڑ نہیں لینی چاہیے تھی۔ مقررہ وقت میں اعتماد کا ووٹ نہ لے سکنے کے بعد گورنر پنجاب نے پرویز الٰہی کو وزراتِ اعلیٰ کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کر دیا لیکن پرویز الٰہی کی جانب سے یہ معاملہ عدالت میں چیلنج کر دیا گیا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے اُنہیں مشروط طور پر بحال کر دیا۔ یہ معاملہ اب بھی لاہور ہائی کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے اور سماعت مکمل ہونے تک وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بارے میں گورنر پنجاب کو ایڈوائس نہیں بھیجیں گے کیونکہ وہ اپنے وکیل کی وساطت سے عدالت میں اس حوالے سے اپنا بیانِ حلفی جمع کرا چکے ہیں۔ اسی طرح اگر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوتی ہے تو اس ضمن میں نمبر گیم بہت دلچسپ ہو گی۔ شنید ہے کہ اس ووٹنگ میں جنوبی پنجاب کے اراکینِ صوبائی اسمبلی کا فیصلہ پنجاب حکومت کی منشا کے مطابق نہیں ہو گا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے اراکینِ صوبائی اسمبلی پرویز الٰہی کے حق میں بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے‘ ممکن ہے کہ وہ ووٹنگ والے دن اسمبلی کا رُخ ہی نہ کریں۔ ان اراکینِ صوبائی اسمبلی کی تعداد پندرہ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال پیش آتی ہے تو چودھری پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہو سکتے ہیں۔
اب کچھ بات اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کی‘ جسے اگلے روز الیکشن کمیشن ملتوی کر چکا ہے۔ اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ملتوی ہونے سے عوام میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت یہ انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی۔ ان انتخابات سے متعلق مختلف سرویز کی رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں تحریک انصاف کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے امکانات تھے لہٰذا وفاقی حکومت نے اس پسپائی سے بچنے کی راہ بلدیاتی انتخابات کے التوا کی صورت میں تلاش کی۔ اس التوا کیلئے نئی حلقہ بندیوں کو جواز بنایا گیا لیکن الیکشن کمیشن بظاہر حلقہ بندیوں کے معاملے پر یوٹرن لیتے ہوئے اپنے تفصیلی حکم نامے میں کہہ چکا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد بڑھانا حکومت کا اختیار ہے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن ہی نے یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافے کے فیصلے پر نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کیا تھا۔ قبل ازیں کراچی میں بھی مقامی حکومتوں کے الیکشن ملتوی کرائے جا چکے ہیں جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کیلئے سنجیدہ نہیں۔ ان معروضی حالات کو مدنظر رکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ اگلے عام انتخابات سے قبل مقامی حکومتوں کے الیکشن یونہی لٹکائے جاتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved