تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     30-12-2022

نیلسن منڈیلا کے دیس میں

فارن سروس میں خدمات سرانجام دینے کے باوجود میرا افریقہ سے تعلق کم ہی رہا۔ ایک سال مصر میں عربی سیکھنے کی غرض سے قیام رہا اور چند ماہ فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری برائے مڈل ایسٹ اور افریقہ رہا۔ افریقی صحارا کے زیریں ممالک تو بالکل نہیں دیکھے تھے۔ پچھلے سال میرے بھتیجے تیمور کو جنوبی افریقہ میں جاب ملی تو وہاں جانے کا سبب نکل آیا۔ جب میں ایتھنز میں سفیر تھا تو نیلسن منڈیلا یونانی حکومت کی دعوت پر وہاں آئے تھے۔ ایک بڑے ہال میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تمام سفرا بھی مدعو تھے۔ اُن دنوں وہ تمام دنیا کی توجہ کا مرکز تھے اور اب بھی اُن کے دیس میں اِس عظیم لیڈر کے لیے محبت اور احترام کم نہیں ہوا۔
جنوبی افریقہ کے ویزہ کے لیے اپلائی کر رہا تھا تو ایک تجربہ کار دوست نے مشورہ دیا کہ نام کے ساتھ سابق سفیر ضرور لکھیں اور تمام بینک کھاتوں کی سٹیٹمنٹ ساتھ لگائیں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو پتا چلا کہ جنوبی افریقہ والے ہر پاکستانی ویزہ درخواست کو بڑے غور اور ہر زاویے سے دیکھتے ہیں۔ میں نے اپنے حالیہ سبز پاسپورٹ کے ساتھ ایک پرانا سرخ رنگ کا سفارتی پاسپورٹ بھی لگا دیا۔ تین ہفتے میں ویزہ لگ کر آ گیا۔
میں چونکہ دبئی سے کیپ ٹاؤن روانہ ہوا تھا‘ دبئی ایئر پورٹ کے ٹرمینل 3سے جب میں اماراتی ایئر لائن کے کاؤنٹر پر سامان چیک اِن کرا رہا تھا تو سامان پر ٹیگ لگانے اور بورڈنگ کارڈ ایشو کرنے سے پہلے ڈیوٹی پر مامور اماراتی خاتون نے میرا پاسپورٹ مانگا۔ پاسپورٹ دیکھ کر بولی کہ سکیورٹی چیک ضروری ہے‘ آئیے سکیورٹی والوں کے پاس چلتے ہیں۔ راستے میں اُس سے عربی میں بات ہوتی رہی۔ خاتون کا رویہ خاصا معذرت خواہانہ تھا‘ وہ کہنے لگی کہ ہمیں ہدایات پر من و عن عمل کرنا ہوتا ہے۔ خیر سکیورٹی کا مرحلہ بھی عبور ہو گیا اور میں کیپ ٹاؤن کی پونے دس گھنٹے لمبی فلائٹ پر سوار ہوا۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ساؤتھ افریقی شخص خاصا خوش مزاج اور باتونی نکلا۔ وہ کابل میں جاپانی سفارت خانے کا سکیورٹی آفیسر تھا۔ اس وجہ سے بات چیت اور دلچسپ ہو گئی اور سفر کی بوریت خاصی کم ہو گئی۔ مجھے ہوائی جہاز کے سفر میں نیند نہیں آتی۔ تھوڑی دیر میں میرا ہمسایہ خراٹے لے رہا تھا۔ میں نے طارق محمود کی خود نوشت دامِ خیال کھول لی۔ کتاب دلچسپ ہے۔ وقت گزرتا گیا۔ منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوتے رہے اور ہم براعظم افریقہ کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ جنوب کی جانب محوِ پرواز رہے۔ کیپ ٹاؤن اترے تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ تیمور ایئر پورٹ پر میرا منتظر تھا۔
خلیجی ممالک میں امیگریشن والے عمومی طور پر سنجیدہ سے لوگ ہوتے ہیں مگر کیپ ٹاؤن والے پاسپورٹ بھی دیکھ رہے تھے اور آپس میں گپیں بھی لگا رہے تھے۔ کیپ ٹاؤن میں ہزاروں سیاح روزانہ آتے ہیں لہٰذا امیگریشن کے درجن بھر کاؤنٹر ساتھ ساتھ ہیں۔ مجھے آتے ہی یہ خوشگوار احساس ہوا کہ اس ملک میں ہنسنا منع نہیں۔ مجھے جنوبی افریقہ جانے سے پہلے کئی لوگوں نے وارننگ دی تھی کہ وہاں جرائم عام ہیں‘ اس لیے اکیلے باہر نہ نکلنا‘ خاص طور پر غروبِ آفتاب کے بعد مگر بادی النظر میں مجھے ماحول پُرامن اور پُرسکون لگا۔ ہم ایئر پورٹ سے گھر کی جانب روانہ تھے تو میں نے تیمور سے پوچھا کہ یہاں کی سڑکیں تو جرائم سے خالی لگتی ہیں‘ کہیں پر لڑائی نہیں ہو رہی‘ لوگ خوش و خرم نظر آ رہے ہیں۔ تیمور کا جواب تھا کہ جرائم کی شرح چند بستیوں میں زیادہ ہے جہاں زیادہ آبادی غریب سیاہ فام لوگوں کی ہے۔ دیگر پبلک مقامات میں امن و امان کی صورت حال ٹھیک ہے‘ ویسے بھی ٹورسٹ سیزن شروع ہو چکا ہے اور اس سیزن میں حکومت اضافی ٹورسٹ پولیس لگا دیتی ہے۔ گھر جاتے ہوئے ہمیں دو غریب بستیاں نظر آئیں۔ ہمارے ہاں غریب بستیاں عمومی طور پر کچے مکانوں یا جھگیوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں یہ جستی چادر کے بنے ہوئے ایک یا دو کمروں کے مختصر سے گھر ہوتے ہیں مگر ہر گھر کے اوپر ڈش انٹینا ضرور لگا ہوا تھا۔ جنوبی افریقہ کی فی کس آمدنی پاکستان کی نسبت چار گنا ہے۔ ملک معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ رقبہ پاکستان سے زیادہ ہے اور آبادی صرف ساٹھ ملین ہے۔ ظاہر ہے کہ دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ کہیں کہیں کچھ لوگ فٹ پاتھ پر بستر سمیت نظر آئے۔
میرے دل میں بار بار سوال یہ اٹھتا رہا کہ یہ لوگ پاکستانیوں کو ویزہ دینے میں اتنے محتاط کیوں ہیں؟ تیمور سے پوچھا تو جواب ملا کہ میں تو ابھی نووارد ہوں‘ آپ کو اپنے پاکستانی اور انڈین دوستوں سے ملاؤں گا‘ وہ اس سوال کا تفصیلی جواب دے سکیں گے۔ پاکستان سے 1990ء کی دہائی میں بڑی تعداد میں لوگ جنوبی افریقہ گئے۔ جب شہری سندھ کی ایک سیاسی جماعت پر گھیرا تنگ ہوا تو جماعت کی قیادت نے جن ممالک کا رخ کیا اُن میں سے ایک ملک جنوبی افریقہ بھی تھا۔ وہاں پارٹی کے چند ممبران نے سیاسی پناہ کے لیے بھی اپلائی کیا‘ جنہیں پناہ مل گئی اور وہ اب وہاں کے شہری ہیں۔ جب جنوبی افریقہ میں ویزہ لازمی ہوا تو ہمارے کچھ لوگ زمبابوے کے راستے سے غیرقانونی طور پر وہاں جانے لگے کیونکہ دونوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں اور زمبابوے کے عوام کے لیے جنوبی افریقہ کا ویزہ لینا لازمی نہیں تھا۔ عزیزوں کو ملنے کے لیے وزٹ ویزہ اب بھی مل جاتا ہے اور بہت سارے لوگ وزٹ ویزہ پر جا کر وہاں کام شروع کر دیتے ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔
کیپ ٹاؤن میں ہم ایک ڈنر پر مدعو تھے جہاں میرے علاوہ باقی سب لوگ تقریباً تیس سے چالیس سال کے پیٹے میں تھے اور سب پروفیشنل تھے۔ وہاں ایک بھارتی شہری سے ملاقات ہوئی جو مسلمان ہے اور کیپ ٹاؤن میں جاب کرتا ہے۔ اس کی بیگم پاکستانی ہیں۔ وہ بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا رونا رو رہا تھا۔ ساتھ ہی یہ مشکل بھی بیان کی کہ اُس کے لیے پاکستانی ویزہ کا حصول مشکل ہے جبکہ اس کی بیوی کو بھارتی ویزہ ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ اُس کے اس سوال پر کہ اگر میں پاکستانی شہریت کے لیے اپلائی کروں تو کیا کامیاب ہو پاؤں گا؟ پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب بولے‘ انڈین پاسپورٹ کی ویلیو پاکستانی پاسپورٹ سے زیادہ ہے لہٰذا تمہارے لیے انڈین پاسپورٹ رکھنا بہتر ہے۔ بات مدّلل تھی لہٰذا اسے رد کرنا یا اس کی مخالفت مشکل تھی۔لیکن میرا خون اندر سے کھول رہا تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے ایک وزیر داخلہ نے کئی تجارت پیشہ لوگوں کو نیلے رنگ کے آفیشل پاسپورٹ دے دیے تھے‘ ہمارے ہاں تو سزا یافتہ لوگوں کو بھی سفارتی پاسپورٹ مل جاتا ہے تو اپنے پاسپورٹ کو ڈاؤن گریڈ کرنے والے ہم خود ہیں۔
جنوبی افریقہ 1948ء سے لے کر 1994ء تک سخت نسلی امتیاز کی زد میں رہا۔ سیاہ فام اور گورے علیحدہ علیحدہ علاقوں میں رہتے تھے۔ سیاہ فام سفید فام سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں ہر وقت اپنا شناختی کارڈ ساتھ رکھنا پڑتا تھا۔ سیاہ فام یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔ دن کے وقت سیاہ فام کیپ ٹاؤن کے شہر میں محنت مزدوری کی غرض سے آ سکتے تھے لیکن شام ہوتے ہی انہیں اپنی بستیوں میں واپس جانا پڑتا تھا۔ سیاہ اور سفید فام بستیوں کے درمیان ایک غیر آباد پٹی چھوڑ دی جاتی تھی جسے No Man's Land کہا جاتا تھا۔نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف اَن تھک جدوجہد کی۔ اپنی زندگی کا تقریباً ایک تہائی حصہ جیل میں گزارا۔ میں نے وہ جیل بھی دیکھی لیکن اس سے بڑھ کر نیلسن منڈیلا کا کمال یہ تھا کہ اُنہوں نے سیاہ فام عوام کو بدلہ لینے پر نہیں اکسایا۔ منڈیلا نے برداشت اور یک جہتی کا درس دیا اور یہی اُن کی عظمت ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved