شبِ رفتہ‘ کھانے کی میز پر بچوں نے مجھ سے سوال کیا: آنے والے سال میں آپ کے عزائم کیا ہیں؟
یہ اب رواج ہو چلا ہے کہ لوگ سال کے اختتام پر مستقل کے لیے کچھ ارادے باندھتے ہیں۔ آنے والے سال میں اپنے لیے کوئی ہدف متعین کرتے ہیں۔ کوئی اس ارادے کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اپنا وزن کم کرے گا۔ کوئی تعلیمی مقصد طے کرتا ہے۔ کوئی بہتر مستقبل کے کسی خواب کی تعبیر چاہتا ہے۔ ہر کوئی اپنی قوتِ پرواز کو دیکھتے ہوئے اپنے لیے اُفق تلاش کرتا ہے۔ حافظ کے الفاظ میں 'فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست‘۔
یہ سوال کم و بیش ہر سال ہی پوچھا جاتا ہے۔ گزارے برسوں میں مَیں پورا کر سکا یا نہیں‘ میرے سامنے ایک نہ ایک عزم ہوتا تھا۔ اس بار میرے دامنِ خیال میں کچھ نہ تھا۔ میں نے جب مستقبل کے پردے میں جھانکا تو اندیشوں کی دھند تاحدِ نظر پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا۔ میرے لیے یہ بتانا ممکن نہ تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ میں کوئی جواب دیے بغیر حیلے بہانے سے اُٹھ گیا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ خاموشی جوان بچوں سے اپنی مایوسی کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
سماج یا ریاست کا کسی بحران میں مبتلا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ زندگی ہنگاموں اور نشیب و فراز سے عبارت ہوتی ہے۔ امریکہ میں بسنے والوں کو اس سے مفر ہے نہ چین میں رہنے والوں کو۔ کورونا ان دنوں چین پر حملہ آور ہے۔ یہ وبا ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ہسپتال تنگ دامنی کا گلہ کر رہے ہیں۔ قبرستانوں کی وسعتیں بھی سمٹ رہی ہیں۔ یہ 'کووڈ19‘ سے بڑا حملہ ہے۔ اس کے باوجود دنیا یا چین کے شہریوں کو اس سوال کا سامنا نہیں ہے کہ کل اس ملک کا کیا ہو گا؟ مرض کے پھیلنے کا خوف ہے جو فطری ہے۔ اس خوف کا تعلق اچانک آنے والی ایک آ فت سے ہے‘ ریاستی یا سماجی بندوبست سے نہیں۔ شہریوں میں یہ اُمید موجود ہے کہ چین اس چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے۔ دنیا کو بھی یہ پریشانی لاحق نہیں کہ چین کل ڈیفالٹ کر جائے گا۔
ایسا کیوں ہے؟ چین میں کوئی ہے جو سنبھال سکتا ہے۔ ریاستی ادارے قائم ہیں۔ وسائل موجود ہیں۔ ایک حکومت ہے جو قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔ بہت کچھ ہے جو مشکل وقت کے لیے پس انداز کیا گیا ہے۔ مرض کا خوف تو ہے‘ ریاست کی کم مائیگی‘ نااہلی اور بے حسی کا نہیں۔ یہ خوف نہیں کہ علاج نہیں ہو سکے گا یا بے روزگاری زندگی اجیرن بنا دے گی۔
میں اگر مستقبل کے بارے میں اندیشوں میں گھرا ہوں تو اس کا تعلق ریاستی بندوبست سے ہے۔ میں اس نظام سے اب یہ امید نہیں باندھ سکتا کہ یہ مشکل وقت میں میری داد رسی کرے گا۔ اہلِ سیاست سے یہ امید دم توڑ چکی کہ وہ شخصی اور گروہی مفادات سے بلندتر ہو کر میرے اندیشوں کو دور کریں گے۔ ریاستی اداروں سے میں یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ اقتدار کے کھیل سے دور رہ کر اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں گے اور میں اپنے دفاع یا انصاف کے لیے‘ ان پر اعتماد کر سکوں گا۔
دہشت گردی میرے فوجیوں کے درپے ہے اور مہنگائی میرے سویلین کے۔ یہ سطور لکھتے وقت آج کے اخبارات سامنے رکھے ہیں۔ انگریزی اخبار کی خبر ہے کہ کُرم میں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں میرے تین جوانوں کی جان چلی گئی۔ رونامہ ''دنیا‘‘ کی شہ سرخی ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز میں چینی انیس اورگھی پچھتر روپے فی کلو گرام مہنگا ہوگیا۔ آٹے کے تھیلے کی قیمت 495روپے بڑھ گئی۔ میں کہیں کسی ایسی پالیسی کے آثار نہیں دیکھ رہا جو میرے جوانوں اور سویلین کو محفوظ رکھ سکے۔ میرے دامن میں آج کیا ہے؟ بے یقینی‘ عدم استحکام‘ اندیشے‘ اداروں سے مایوسی۔
حکومت کو معاشی بحران سے نکلنے کا صرف اور صرف ایک راستہ دکھائی دے رہا ہے: مزید قرض۔ اس سے ڈیفالٹ کا فوری خطرہ ٹل جائے گا مگر میرے کندھے پر قرض کا بوجھ اور بڑھ جائے گا۔ پھر یہ خطرہ بھی کتنے دن کے لیے ٹلے گا؟ چند ماہ؟ ایک سال؟ کسی سیاسی جماعت‘ کسی ماہرِ معیشت‘ کسی مفکر‘ کسی مذہبی رہنما کے پاس بیمار معیشت کا کوئی علاج موجود نہیں۔ انتخابات اس مسئلے کا حل ہیں نہ حکومتی استمرار۔ خرابی کو ہم نے وہاں پہنچا دیا ہے جہاں نظام کی باگ ہمارے ہاتھ سے نکل چکی۔
پوری قوم آج بے بسی کی تصویر ہے۔ جماعت اسلامی نے انسدادِ سود کے موضوع پر ایک سیمینار میں معیشت و مذہب کی نمائندہ شخصیات کو جمع کیا۔ میں وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ جس معیشت کا وجود ہی مشتبہ ہے‘ اس کے سودی اور غیر سودی ہونے کی بحث کتنی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے؟ شرکاء کی تقاریر سے اندازہ ہوا کہ حل ان کے پاس بھی نہیں۔ جو بات کل خادم حسین رضوی مرحوم فرمارہے تھے‘ آج مولانا زاہد الراشدی جیسے بالغ نظر عالم کی زبان پر بھی تھی۔ رضوی صاحب کا کہنا تھا کہ غیر ملکی قرضے ادا کرنے سے انکار کر دینا چاہیے کہ اصل زر تو ہم کب کا دے چکے۔
تاجروں کی ایک نمائندہ شخصیت کا فرمان تھا کہ ڈیفالٹ ہو جانے سے کیا ہوتا ہے؟ ہو جانے دیں۔ اس وقت دنیا میں کئی ملک ڈیفالٹ کر چکے مگر چل رہے ہیں۔ یہ بات انہیں ذاتی کاروبار کے بارے میں کبھی نہیں سوجھی ہوگی کہ ہماری شخصی اور ملی سوچ کبھی ایک نہیں رہی۔ یہ باتیں وہ مریض کرتا ہے جو جانتا ہے کہ جان کنی کے عالم میں ہے اور اب اس پر کوئی دوا اثر نہیں کرنے والی۔ اب ہو جانے دو جو ہوتا ہے۔
یہ بحث اب بے معنی ہو چکی کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام کو صرف ایک بات قدرے اطمینان دلا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ حکمران طبقہ بھی اس بھوک اور افلاس میں عوام کے ساتھ ہے۔ جہاں کابینہ 76افراد پر مشتمل ہو‘ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ اور گورنر ہیلی کاپٹر کے استعمال پر باہم دست و گریباں ہوں‘ وہاں عوام اربابِ اقتدار سے بد دل ہوتے اور یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہو سکتے کہ ان کے حکمران ان کے خیر خواہ اور ہم درد ہیں۔ اس وقت سب جماعتیں اقتدار میں بیٹھی ہیں۔ گورنر ایک کا نمائندہ ہے تو وزیراعلیٰ دوسری کا۔ اس لیے یہاں کسی سیاسی جماعت کو استثنا نہیں دیا جا سکتا۔
آخری چیز جو ہمیں بچا سکتی ہے وہ سماج کا اخلاقی ڈھانچہ ہے۔ لوگ اگر دکھ درد میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تو بھی امید باقی رہتی ہے۔ اگر حکمران طبقہ عوام کی بھوک میں شریک نہیں ہوتا تو صاحبانِ وسائل کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ معاشرہ اہلِ خیر سے خالی نہیں ہے لیکن اس وقت جو خیر بروئے کار ہے‘ وہ سماج کی ضرورت کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ شاید ایک اور سو کی نسبت ہو۔ فی الجملہ سماجی ڈھانچہ ادھڑ چکا۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جن پر اللہ تعالیٰ کا بے پناہ کرم ہے۔ اس نے ایک دن مجھے بھوکا نہیں رکھا اور کوئی رات میں نے بے سائبان نہیں گزاری۔ ان بُرے حالات میں بھی میں جب دیکھتا ہوں کہ لوگ جی رہے ہیں تو اس بات پر میرا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ ہی رازق ہے۔ اس دنیا کے لیے لیکن اس کی ایک سنت اور قانون ہے۔ یہ نظام‘ قانونِ آزمائش پر کھڑا ہے۔ ریاست اور معاشرہ آزمائش پر پورا نہیں اتر رہے ہیں اور یہی میری مایوسی کا سبب ہے۔
کاش مجھے کہیں کوئی روشنی دکھائی دیتی اور میں آپ کو اس کی خبر دے سکتا۔ میں اپنے بچوں کو اس مایوسی سے بچا سکتا۔ آنے والے سال کے بارے میں انہوں نے میرے ارادوں کا پوچھا تو میں کوئی جواب دے سکتا۔ کاش!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved