کہنے کو تو ہم اپنے آپ کو جنوبی ایشیا کا حصہ سمجھتے ہیں مگر خطے میں ہماری دلچسپی اور معلومات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے نزدیک جنوبی ایشیا سے مراد صرف بھارت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری پالیسیوں کا محور بھارت ہے۔ کسی حد تک یہ بلا جواز نہیں کیونکہ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے اور رقبے‘ آبادی‘ وسائل اور معیشت کے لحاظ سے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں اس کو نمایاں جگہ دینا پڑتی ہے لیکن جنوبی ایشیا میں صرف بھارت ہی نہیں‘ پاکستان‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ جیسے اہم ممالک بھی ہیں۔ یہ ممالک اپنے رقبے‘ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن اپنے محلِ وقوع اور مخصوص ثقافتی رنگوں کی وجہ سے نہ صرف خطے کے بڑے ممالک‘ بھارت اور پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں‘ لیکن باہر سے ہر کوئی جنوبی ایشیا کو بھارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہی بات پاکستان کی علاقائی پالیسی کے بارے میں کہی جاتی ہے حالانکہ جنوبی ایشیا کے ان تمام چھوٹے ممالک میں عوامی سطح پر پاکستان کے لیے گہری خیر سگالی پائی جاتی ہے۔
ان ممالک میں ہمالیائی سلسلے کی گود میں واقع نیپال بھی شامل ہے۔ نیپال کی تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں 85فیصد لوگ ہندو ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نیپال کی آبادی کی اکثریت پاکستان کو اپنا دوست اور پاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتی ہے‘ جبکہ ہر نیپالی بھارت کے ہر شہری کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے 80فیصد سے زائد لوگ ہم مذہب ہیں۔ دونوں کے مندر ایک دوسرے کے لیے مقدس ہیں‘دونوں ملکوں کے درمیان 1800کلومیٹر طویل سرحد دنیا کا سب سے زیادہ سافٹ بارڈر ہے جسے عبور کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے شہریوں کو کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔ جغرافیائی اتصال کے علاوہ نیپال اور بھارت خصوصاً نیپال کے ساتھ ملنے والی بھارتی ریاستوں بہار‘ اُتر پردیش اور اترا کھنڈ کے لوگ نہ صرف ثقافتی اور نسلی لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ہاں رشتہ داریاں بھی کرتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے نیپال کے بھارت پر انحصار کا یہ عالم ہے کہ اس کی دو تہائی درآمدی اور برآمدی تجارت بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ذریعے ہوتی ہے کیونکہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں اور موسم سرما میں برف باری سے چین کیساتھ ملانے والے راستے اور سڑکیں بند ہو جانے کی وجہ سے نیپال کی چین کے ساتھ تجارت بہت ہی کم ہے۔ معاشی اور سماجی شعبوں میں بھارت اور نیپال کے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے سے متاثر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ سری لنکا کی طرح نیپال میں بھی جدید جمہوری تحریک‘ بھارت کی قوم پرست تحریک سے متاثر ہو کر شروع کی گئی تھی۔ اسی لیے نیپال میں عوامی نمائندگی کی بنیاد پر جمہوری نظامِ حکومت کے قیام کے لیے جس پارٹی نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا‘ اس کا نام نیپالی کانگرس ہے۔ نیپالی کانگرس اب بھی ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔
حال ہی میں سابق گوریلا لیڈر اور ماؤ نواز سیاسی پارٹی کے سربراہ پشپا کمال دہل پراچند کے بطور وزیراعظم حلف لینے سے قبل شیر بہادر دیوبا کی سرکردگی میں نیپالی کانگرس کی ہی حکومت تھی۔ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بھی نیپالی کانگرس نے پارلیمنٹ کی 275 میں سے 89 نشستیں جیت کر اول پوزیشن حاصل کی تھی مگر حکومت ماؤ نواز پارٹی اور یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی کے اتحاد پر مبنی وزیر اعظم پراچند کی قیادت میں بنی حالانکہ دونوں پارٹیوں نے بالترتیب 32اور 78پارلیمانی نشستیں حاصل کی تھیں۔ پراچند سابق حکومت میں کانگرس پارٹی کے وزیراعظم شیر بہادر دیوبا کے اتحادی تھے لیکن دیوبا حکومت کے بھارت نواز رجحانات کی وجہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ نیپالی کانگرس کو ملک میں گرینڈ اولڈ پارٹی کی حیثیت حاصل ہے اور 1950ء میں رانا خاندان کے موروثی وزرائے اعظم کے آمرانہ نظام کے خلاف کامیاب جدوجہد اور پارلیمانی جمہوریت کے قیام کے بعد بیشتر برسوں پر اسی کا دورِ اقتدار محیط رہا۔ مگر 1990ء کی دہائی کے بعد اسے نئی سیاسی قوتوں کی طرف سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں نیپال کی کمیونسٹ پارٹی یو ایم ایل اور پراچند کی ماؤ نواز پارٹی شامل ہے۔ ان کے ساتھ دیگر چھوٹی پارٹیوں اور گروپوں کی طرف سے نیپالی کانگرس کی مخالفت کی وجہ نیپالی کانگرس کا بھارت کی طرف جھکاؤ ہے جبکہ کمیونسٹ پارٹی یو ایم ایل اور ماؤ نواز پراچند چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی ہیں۔ نیپال کی سرحدیں چین اور بھارت دونوں سے ملتی ہیں اور دونوں ملکوں کے حریفانہ تعلقات کی وجہ سے نیپال کی اندرونی سیاست متاثر ہوتی ہے کیونکہ نیپال کے اہم جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بھارت ملک میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے جبکہ دیگر سیاسی پارٹیاں جنہیں نیپال کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے‘ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کیلئے چین کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار کرنا چاہتی ہیں۔ بھارت کی مخالفت اور ناراضی کے باوجود چین اور نیپال کے درمیان گزشتہ چند برسوں کے درمیان تجارت‘ آمدو رفت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ دو طرفہ تجارت میں اضافہ کرنے کیلئے چین اور نیپال کو ایک دوسرے سے ایسی سڑکوں اور راستوں سے جوڑ دیا گیا ہے جو سارا سال کھلے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو اور تبت کے دارالخلافہ راہسا کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ اس سے نیپال کا تجارت کے لیے بھارت پر انحصار کم ہو جائے گا۔
نیپال چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبے میں شامل ہے اور اس کے تحت چین نے نیپال میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے متعدد منصوبوں کی تعمیر کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ نیپال کی مختلف حکومتوں نے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کی باہمی کشمکش سے اپنے قومی مفاد کو بچانے کیلئے قابلِ ستائش مہارت‘ دانش مندی اور دور اندیشی سے کام لیا ہے۔ نیپال میں کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار آئے‘ بھارت کے ساتھ جغرافیائی‘ ثقافتی اور معاشی عوامل کی وجہ سے صدیوں سے جو سپیشل تعلقات چلے آ رہے ہیں‘ ان میں رخنہ نہیں پڑتا۔ دونوں ملکوں کے باشندوں کو اب بھی نیپال اور بھارت کے درمیان سرحد کو بلا روک ٹوک عبور کرنے کی اجازت ہے۔ نیپال کی پولیٹکل کمیونٹی اور بیوروکریسی کے بیشتر لوگ بھارت کی یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ ہیں لیکن نیپال کی کسی حکومت نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور قومی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا۔ بھارت کی ناراضی کے باوجود نیپال نے نہ صرف چین بلکہ امریکہ اور جاپان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کیے ہیں۔ نیپال کی اس آزاد اور قومی مفاد کے عین مطابق خارجہ پالیسی کی کامیابی میں چین کے رویے کا بھی بڑا کردار ہے‘ جس نے نیپال کی معیشت کو بڑا سہارا دینے کے باوجود کبھی اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا ہمسایہ ملک بھارت کیساتھ اس کے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ 2008ء میں ایک طویل گوریلا جنگ کے نتیجے میں نیپال میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت قائم کر دی گئی تھی۔ دوسری بڑی تبدیلی وفاقی نظام کا نفاذ ہے۔ اگرچہ سیاسی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور متعدد چیلنج اب بھی موجود ہیں مگر نیپال کے عوام اور سیاسی پارٹیوں نے جمہوریت کیساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں محاذوں پر پُر امن ترقی کا جو مظاہرہ کیا ہے‘ اس نے دنیا میں نیپال کی پروفائل کو بلندکیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved