سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وزارت سے فارغ ہونے یا اسحاق ڈار کے ہاتھوں فارغ کرائے جانے کے بعد اخبار یا ٹی وی چینلز پروگرامز میں مشورے دیتے پائے جاتے ہیں کہ ملک کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے اورکہاں کہاں خرابیاں ہیں۔ یقینا میں اور آپ مفتاح اسماعیل جیسا علم یا قابلیت نہیں رکھتے۔ان کا تیس دسمبر کو شائع ہونے والا مضمون پڑھ رہا تھا جس میں نجکاری کے ایشو پر لکھا ہے۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو یقین کریں مجھے لگا کہ یہ باتیں تو میں نے 1998ء میں بھی پڑھی تھیں جب ملتان سے ٹرانسفر ہوکر اسلام آبادآیا تھا۔آرٹیکل ختم کر چکا توسوچا اس میں ایسی کیا نئی چیز تھی جو میں نے پہلے نہیں پڑھ رکھی؟ حفیظ پاشا سے سرتاج عزیز‘اسحاق ڈار ‘ شوکت عزیز‘شوکت ترین ‘حفیظ شیخ اور اب مفتاح اسماعیل سے یہی باتیں سنی اور پڑھی ہیں جو اس کالم میں مفتاح اسماعیل نے 2022ء میں پھر لکھ دی ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ ان سب کے نام کے ساتھ نجکاری (Privatization)لکھ کر گوگل کر کے دیکھ لیں۔ ایک ہی تقریر ایک ہی جواز اور ایک ہی حل سب نے پیش کیا۔ وہی چار پانچ ادارے جو اِن سب کا خیال ہے ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں جو گھاٹے میں چل رہے ہیں۔ اگر انہیں کسی طرح بیچ دیا جائے تو حکومت کے سر سے بہت بڑا بوجھ ہٹ جائے گا۔سات‘ آٹھ سو ارب روپے صرف ان چند اداروں پر خرچ ہورہا ہے اور یہ سفید ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں پی آئی اے‘ ریلوے‘ واپڈا‘ پی ایس او‘ ائیرپورٹس شامل ہیں جو اِن کے بقول حکومت کو کچھ کما کر نہیں دے رہے بلکہ بہت بڑا بوجھ ہیں۔اگر ان اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں نہیں ہزاروں لوگ بوجھ ہیں جو کچھ پیدا نہیں کررہے تو پھر مفتاح اسماعیل اور ان جیسے معاشی دانشوروں کا اپنے بارے کیا خیال ہے کہ انہوں نے کیا پروڈیوس کیا ہے کہ آج ملک ڈیفالٹ کے کنارے لگ چکا ہے؟
جو تنخواہیں ان اداروں میں بیٹھے لوگ لے رہے ہیں تو وہی تنخواہ‘ مراعات اور پروٹوکول تومفتاح جیسے حکمران بھی لے رہے ہیں۔ اگر ان اداروں میں افسران اور اہلکاروں نے ملک کو ڈبو دیا ہے تو مفتاح کا اپنے جیسوں بارے کیا خیال ہے ؟خود مفتاح سے شروع کر لیتے ہیں انہوں نے 2014ء میں شاہدخاقان عباسی کے ساتھ مل کر کیا کھیل کھیلے؟ شاہد خاقان عباسی نے ہی ایل این جی ٹرمینل جو چند ارب روپے میں لگنا تھا وہ کراچی کے ایک بڑے سیٹھ کو حیران کن شرائط پر دیا کہ 13 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے عوض انہیں پندرہ سال میں دو ارب ڈالرز منافع ملے گا اور ادائیگی ڈالر میں ہوگی۔ وہ ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو‘ روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز اسے ملیں گے۔ اور پاکستان قرضہ لے کر آج بھی اس سیٹھ کو روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز دے رہا ہے۔اس پر بس نہیں کی گئی بلکہ ایک اور ٹرمینل بھی لگوایا گیا جسے روزانہ کے دو لاکھ چوبیس ہزار ڈالر دیے گئے‘ چاہے وہ چلے یا نہ چلے۔یہ دونوں کمپنیاں پاکستانی تھیں لیکن روپے کے بجائے ڈالر میں ادائیگی کے معاہدے کیے گئے اور مفتاح اسماعیل اس وقت شاہد خاقان عباسی کا دایاں بازو تھے جب ڈالروں کی یہ ریوڑیاں بانٹی جارہی تھیں۔مفتاح اسماعیل اس مضمون میں بینکوں کی کامیاب نجکاری کی مثال دیتے ہیں۔ موصوف بھول گئے کہ ابھی چند ماہ پہلے جب وہ وزیرخزانہ تھے تو بینکوں نے رج کر عوام کو لوٹا۔ مفتاح اسماعیل کہاں تھے اور کہاں تھا ان کا ریگولیٹر؟ جب بینک ڈالر کو اوپر کی طرف کک مار رہے تھے تو اس وقت مفتاح اسماعیل ٹی وی پر پریس کانفرنس کر کے مگرمچھ کے آنسو بہارہے تھے کہ میں نے اپنے بچوں کو ایک لڑکے کو بازار میں کچھ چیزیں فروخت کرتے دیکھ کر کہا کہ آپ بھی ان کی جگہ ہوسکتے تھے۔ یہ تھا آپ کے ملک کا وزیرخزانہ جس کے پاس رونے دھونے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ آپ حکمرانوں نے سب کچھ بیچ دینا ہے اور خود بیٹھ کر اس پیسے کو کھانا پینا اور عیاشی کرنی ہے تو عوام کا کیا قصور ہے؟ آپ کو تو فنانس منسٹر اس لیے لگایا گیا تھا کہ آپ فرماتے ہیں آپ بہت قابل ہیں‘ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لی ہیں تو مسائل حل کر کے دکھائیں نہ کہ ٹی وی پر ٹسوے بہائیں؟ہمارے مالی دانشور پاکستان کو چونا لگانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ یہ ہر بات میں بتائیں گے کہ امریکہ‘ یورپ یا دیگر ملکوں میں تو ایسے ہوتا ہے ہمارے ہاں کیوں نہیں ہوتا۔ اس ملک کی تباہی ہوئی ہے کہ ہمارے یہ ٹیکنوکریٹس باہر سے پڑھ کر یورپین ماڈلز پاکستان جیسے ملک پر اپلائی کرتے ہیں اور منہ کے بل گرتے ہیں۔ کیا یورپ یا امریکہ میں مفتاح اسماعیل‘ اسحاق ڈار یا شوکت ترین جیسے لوگ ملک چلانے کے لیے اہل ہوسکتے ہیں جن پر منی لانڈرنگ‘ فراڈ اور دیگر سنگین مالی بدعنوانیوں کے الزامات ہوں؟ ان سب کو تو جیلوں میں ہونا چاہئے تھا جو اس ملک کے خزانے کے انچارج بنا دیے گئے۔یہ سب بیرونی ملکوں کی مثالیں دیتے وقت وہاں کے ریگولیٹرز کی بہادری کی داستانیں سناتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کا وزیرخزانہ یا وزیراعظم نہ بینکوں کا مالک ہے نہ وہ فیکٹریاں چلاتا ہے ‘نہ ہی اس پر منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں‘ نہ ہی وہ نیب اور ایف آئی اے یا عدالتوں سے ضمانتیں کراتا پھرتا ہے۔ وہ conflict of interestکاشکار نہیں ہوتا۔ وہ ذاتی کاروبار نہیں چلاتا۔ اسلئے ان ملکوں کے ریگولیٹر بغیر کسی کی پروا کیے سب کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔ وہ عوام کا مفاد دیکھتے ہیں کیونکہ وزیرخزانہ یا وزیراعظم کسی سکینڈل میں ملوث نہیں ہوتا اور اگر ملوث پایا جائے تو نہ صرف برطرف ہوتا ہے بلکہ اسے مستعفی ہوکر انکوائری کے بعد جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ان ملکوں میں ریگولیٹر تگڑے ہیں لہٰذا وہاں نجی شعبہ اس طرح اندھا دھند لٹ مار نہیں مچا سکتا جیسے ہمارے ہاں مچاتا ہے کیونکہ مفتاح اسماعیل جیسے لوگوں خود فیکٹریوں کے مالک ہیں یا شاہد خاقان عباسی کبھی خود ایئرلائن چلاتے تھے یا شوکت ترین بینکوں کے مالک تھے یا ڈار منی لانڈرنگ میں ملوث رہے۔کس ریگولیٹر میں جرأت ہے وہ مفتاح اسماعیل کی فیکٹری پر چھاپہ مار کر بسکٹ کا معیار چیک کر لے ‘جرمانہ تو دور کی بات ہے۔ کونسا ریگولیٹر اتنی جرأت کرے گا کہ شوکت ترین کے بینک کو جرمانہ کرے جو ملک کا وزیرخزانہ رہا ہے‘ وہ الٹا آئی ایم ایف کو خط لکھوا رہا تھا کہ پاکستان کو پیسے مت دینا۔ شوکت ترین پاکستان کو ڈیفالٹ کرارہا تھا اور اندازہ کیجئے کسی نے اسے جھولے پر نہیں بٹھایا کہ تم ملک سے کتنی بڑی دشمنی کررہے تھے۔
زرا اب پاکستانی ایکسپورٹرز کا دھندہ دیکھیں۔ انہیں ایکسپورٹس کے ڈالرز چھ ماہ تک باہر رکھنے کی اجازت ہے۔ اندازہ کریں‘ پاکستان ڈالروں کی بھیک مانگ رہاہے اور ہمارا ایکسپورٹر ڈالرز باہر رکھ کر بیٹھا ہے کہ بینک ریٹ 225 اور مارکیٹ ریٹ 235 ہے۔وہ انتظار کررہا ہے جب بینک ریٹ مارکیٹ کے برابر ہو پھر لائے جائیں۔ یہ وہ ایکسپورٹرز ہیں جنہیں عوام کی جیب سے سستی گیس‘ سستی بجلی‘ ٹیکس فری ایکسپورٹ‘ ٹیکس ریفنڈ سب ملتا ہے۔ ہم دنیا بھر سے انہیں ٹیکس رعایتیں لے کر دیتے ہیں۔ آج ملک کو ضرورت ہے تو ایکسپورٹر ڈالرز باہر رکھ کر بیٹھے ہیں کہ ریٹ بڑھے گا تو لائیں گے۔ ملک ڈوب جائے انہیں کوئی پروا نہیں‘ انہیں دس روپے مزید چاہئیں۔ان کی حرص کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔
کہاں ہے مفتاح اسماعیل کا فیورٹ ریگولیٹر‘جب یہ ملک کیساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے؟ ویسے خود مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ تھے جب ان کے دوست ڈالر کے ساتھ کھلواڑ کر کے ساٹھ ارب روپے کما کر لے گئے‘ جس کی انکوائری اسمبلی کی فنانس کمیٹی کررہی ہے۔ مفتاح اسماعیل شکر کریں وہ پاکستان کے وزیرخزانہ تھے ورنہ جن ملکوں کے ماڈلز کا وہ پرچار کرتے ہیں وہاں اس قسم کے سکینڈلز کے بعد اب تک وہ دوبارہ جیل کی ہوا کھا چکے ہوتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved