نئے سال کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ اس دھندلکے کو چیرتا ہوا اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ ناامیدی کے اس موسم میں بھی امید کی جوت جگا رہا ہے ‘ ہمیں بتا رہا ہے کہ گھپ اندھیرے سے بھری سرنگ کے آخر میں روشنی کا اشارہ موجود ہے۔ بطور قوم ہم اس وقت جن معاشی ‘سیاسی اور لاقانونیت کے مسائل سے دوچار ہیں وہ مسائل وقتی ہیں۔ ہم پہلے بھی ان سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں اور بطورِ قوم دوبارہ بھی ان سے نکلنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہاں رابندر ناتھ ٹیگور سے منسوب ایک فقرہ یادآجاتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ اسی طرح گزشتہ برس کا پلٹتا صفحہ اور نئے سال کی آمد بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا ہمیں بہتر ہونے کا مزید وقت دے رہا ہے ‘اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ گوکہ بطور پاکستانی یہی دل کرتا ہے کہ کاش گزشتہ سال ہماری قومی زندگی میں آیا ہی نہ ہوتا۔ سال 2022ء سیاسی ‘ سماجی اور معاشی اتار چڑھاؤ کے حوالے سے بدترین رہا‘ لیکن جیسے ہر عروج کو زوال ہے ویسے ہی نااہلی کی انتہا کو بھی زوال آنا ہے۔ ہمارے سیاسی و قومی اداروں نے جس ہائبرڈ نظام حکومت کا ڈول ڈال رکھا ہے اس کا بھی انجام ہونا ہے ‘ جس نے معیشت کا ایسے بیڑہ غرق کر دیا ہے اور معاشرے کو اس تقسیم اور افراتفری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ نااہلی اور لاپروائی دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے جس کا خمیازہ ہمیں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اس نئے سال میں بھی‘ امکان یہی ہے کہ ہم غلطیاں کریں اور بے شمار کریں گے ‘ لیکن خدارا کیا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اس نئے سال میں ہم ان غلطیوں سے جان چھڑوالیں جو گزشتہ 75 برس سے کئے جارہے ہیں۔ اس سال ہم یہ تہیہ کریں کہ ہم اپنی ذات سے بلند ہوں گے اور ملک کو ترجیح دیں گے۔ عوام کی منشا ‘ مقدم رکھیں گے اور جعلی اورآرٹیفشل نظام حکومت کے ذریعے ان کے سر وں پر نیا نظام تھوپنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ 1973ء کاآئین مقدس ہے کیونکہ یہ ملک کی واحد دستاویز ہے جس پر قوم کا اتفاق بھی ہے اور اس کے ذریعے تمام صوبوں نے وفاق سے اپنی منشا پر مبنی سوشل کنٹریکٹ کررکھا ہے۔ اسی لیے آئین پر بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے کام کریں ‘ آئین میں جہاں ضروری ہے ترامیم بھی کریں ‘ مگر اس کا حلیہ بگاڑنے سے اجتناب کریں۔آئین کی ٹوپی سے کبھی صدارتی نظام تو کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت کا کبوتر نکالنے سے باز رہیں۔ ہم ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کی صورت میں صدارتی نظام بھگت چکے ہیں جن میں ٹیکنوکریٹس ان کے ہمنوا تھے‘ لیکن ہوا کیا‘ ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ تو یہی ادوار تھے۔ کیااب دوبارہ انہیں مسلط کرنا چاہتے ہیں؟سابقہ ادوار کی باقیات مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور افغان جہاد سے پاکستانی معاشرے کے فیبرک کو پہنچنے والے نقصان کی صورت میں موجود ہے ‘ کیا ان باقیات میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں؟ اسی طرح عمران خان کی صورت میں ہائبرڈ نظام کا جو تجربہ کیا گیا اس سے جمہوری نظام فسطائیت کی عملی صورت بن کر رہ گیا۔ بہتر ہوتی معیشت کے سامنے نااہلی کے سپیڈ بریکر بچھا دیے گئے جبکہ سی پیک جیسے منصوبے کی بریک لگادی گئی۔ اب اس منصوبے کی تمامتر تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور اس میں ملوث کردار بے نقاب ہورہے ہیں۔ عمران خان کو کیسے حکومت ملی ‘ کون کون مرضی کی حکومت بنواتا رہا‘ سب بے نقاب ہوچکا ہے۔ جس طرح جہانگیر ترین کو بیلنسنگ ایکٹ کے تحت صرف اس لئے نااہل کردیا گیا تاکہ عمران خان کو سروسز نامی آف شور کمپنی چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے کے حوالے سے نااہل ہونے سے بچایا جائے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے مل کر عمران خان کو این آر او دیا اورآئین و قانون کو پامال کیا۔ عمران خان کو جعلی طور پر صادق اور امین ڈکلیئر کرنے کی جو کوشش کی گئی وہی پوری ریاست کے گلے پڑگئی۔ دوسری جانب میاں نوازشریف کو جس انداز سے نااہل کیا گیا تھا اس پر (ن) لیگ کے حامی و مخالف بیشتر قانون دان بھی متفق ہیں کہ وہ ریاست کی جانب سے زیادتی کی گئی تھی۔ وہ پانامہ لیکس جس میں نوازشریف کا نام تک نہیں تھا‘ جس میں ساڑھے چار سو پاکستانیوں کے نام شامل تھے ‘ اس میں نشانہ نوازشریف کو بنایا گیا۔ اب وہی عمران خان جوپہلے باجوہ صاحب سے ملتے رہے ‘ فیور لیتے رہے‘ احسانات لیتے رہے اب جس طرح قومی اداروں کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ بھی احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔
جہاں تک ملکی معیشت کا معاملہ ہے تو رواں سال اس میں کسی بھی انقلابی تبدیلی کی امید نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے اپنی معیشت کو ایسے چلایا ہے کہ اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ جو اکانومی ابھی تک اپنے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طریقے سے قابو کرنے کی جستجو میں ہوگی ‘ وہ میکرو اور مائیکرو اکنامکس کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی؟ معیشت کے میدان میں ہی ہم نے شوکت عزیز سے لے کر اسحاق ڈار جیسے ٹیکنوکریٹس آزما کر دیکھ لیے اورآج ہم جس کرائسس میں گھرے ہوئے ہیں وہ بھی انہی کی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔ کیا کبھی ان معاشی سورماؤں نے پاکستان کو خود انحصاری کی جانب لیجانے کی کوشش کی‘جیسے من موہن سنگھ نے بطور وزیرخزانہ بھارت میں نوازشریف کی پہلی حکومت کی اوپن مارکیٹ پالیسیوں کی تقلید کی اور بھارتی معیشت کو ٹیک آف کروا دیا اور ہم وہیں کے وہیں رہ گئے۔ نجانے پاکستان میں اوپن مارکیٹ اور خودانحصاری جیسے بنیادی معاشی اہداف کا حاصل کرنا اتنا مشکل کیوں بنادیا گیا ہے اور ہم کب اپنا کشکول توڑنے میں کامیاب ہوں گے۔
اس سال ہماری تین بڑی ترجیحات ہونی چاہئیں: صاف اور شفاف انتخابات ‘ معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنا اور دہشتگردی کی عفریت کو کچلنا۔ یہ مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر سارے فریق ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے تو مسائل کا حل ناممکن نہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اگلے برس بھی ہم یہی رونا رو رہے ہوں گے۔ فرق صرف یہی ہوگا کہ تب تک ہم مزید مواقع ضائع کرچکے ہوں گے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved