پہلی نظر میں ہی ایسا لگا جیسے کوئی فن کار مغل زمانوں اور مغل تصاویر سے نکل کر ہمارے سامنے آبیٹھا ہو۔کھلتا ہوا روشن چہرہ ‘جس پر تازگی او رنرمی۔ ترشی ترشائی چھوٹی داڑھی ۔داڑھی کا رخسار پر گولائی میں خوبصورت خط بنا ہوا ۔گلے پر بھی قوس کی شکل میں یہ صاف ستھرا خط ترشا ہوا ۔سر کے پیچھے گردن سے اوپر بال پٹوں کی خوبصورت شکل میں بل کھا کر اوپر اٹھے ہوئے ۔بال زیادہ تر سیاہ جن میں کہیں کہیں چاندی کی لکیریں بھی جھلک اٹھتی تھیں ۔سر پر چھوٹی سی ٹوپی جس کی جگہ دستار پہنا دو تو مکمل مغل شہزادہ۔روشن چمکیلی آنکھیں ۔ایک اونچے سے تخت پر بیٹھے ہوئے ۔کمر کے پیچھے ٹیک کے لیے ایک لکڑی کا تختہ۔دائیں ہاتھ میں قلم ‘بائیں ہاتھ میں کاغذوں کا ایک نرم دستہ جس کے نیچے نرم سے ہارڈ بورڈ کے ٹکڑے کا سہارا تھا۔وہ انہماک سے مسطر والے کاٖغذ پر کچھ لکھ رہے تھے۔اس دن میں میو ہسپتال کے عقب میں امروز اخبار کی عمارت میں داخل ہوا تو نیوز پرنٹ کی مہک یا خوشبو نے استقبال کیا جوراہداریوں اور کمروں میں بسی ہوئی تھی ۔دونوں طرف دیواروں پر پان کی پیک کے نئے اور پرانے نشانات ۔یہ مرحوم امروز اخبار کا مرحوم دفتر تھا۔اس زمانے میں اخباروں کے یہی حالات ہوا کرتے تھے۔ میں باکمال خطاط جناب حافظ یوسف سدیدی کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ایک دو زینے چڑھ کر اور کئی نیم تاریک راہداریوں میں دائیں بائیں مڑ کر اس کمرے کا نشان ملا ۔ایک راہداری میں دائیں طرف کھلے دروازے کا یہ کمرہ خطاطوں اور کاتبوں سے بھرا ہوا تھا۔ زمانۂ ماقبل کمپیوٹر تھا ‘اس لیے کاتب اور خطاط اخبارات اور رسائل کی لازمی ضرورت تھے۔کسی نے اشارہ کرکے بتایا کہ اس تخت پر حافظ یوسف سدیدی بیٹھے ہیں ۔میں نے ایک نظر دیکھا۔خدایا ! یہ تو مغل دور کا کوئی شہزادہ یا خطاط معلوم ہوتا ہے۔یہ خوبصورت شخص اپنے دور کے اتنے بعد کیوں ہمارے زمانے میں آیا؟ یوسف ان کے نام کاہی نہیں ان کے جمال کا بھی حصہ تھا ۔میں نے عرض کیا کہ میرے بڑے بھائی مولانا محموداشرف عثمانی نے وہ ٹائٹل لینے بھیجا ہے جو آپ نے کتابت فرمایا ہے ۔یوسف صاحب نے مدھم آواز میں کچھ کہا اور قریب ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔مجھے لفظ تو سمجھ میں نہیں آئے تاہم یہ سمجھ آگئی کہ کچھ دیر کرسی پر بیٹھنا ہے ۔کمرے میں کچھ نو مشق کاتب تھے‘کچھ کو کافی مدت زیر تربیت گزر چکی تھی اورکچھ پختگی کو پہنچے ہوئے خود نامور خطاط تھے۔یہ سب حافظ صاحب کے شاگرد تھے ۔کسی سبب سے حافظ صاحب نے ایک شاگرد خالد صاحب کو میرے ساتھ دفتر سے باہر بھیجا ۔ان دنوں چھریرے بدن اور نوجوان کے لفظوں کا اطلاق خالد صاحب پر بھی ہوتا تھا اور سعود عثمانی پر بھی ۔یہ آج کے ہمارے اعلیٰ استاد خطاط جناب خالدجاوید یوسفی تھے ۔اس دن میں وہ خطاطی لے کر چلا آیا لیکن یہ صاحبِ اسلوب خطاط جناب حافظ محمد یوسف سدیدی سے تعلق کے ایک ایسے باب کا آغاز تھا جوآئندہ دس سالوں پر محیط ہونے والا تھا۔
اس وقت جناب خالد یوسفی کی مرتب کردہ بیش قیمت کتاب'' جمالِ یوسف‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے جس میں انہوں نے جناب یوسف سدیدی کے فن پار ے اور مشقیں جمع کی ہیں ۔میری نظریں صفحات پر پھسل رہی ہیں اور میرا دماغ وقت کی اس شاہراہ پر جسے ماضی کہتے ہیں۔ماضی کے کیسے کیسے منظر ان فن پاروں کے ساتھ نظر سے گزر گئے۔ حیرانی اور خوشی کے ساتھ جمالِ یوسف ورق بہ ورق دیکھتا ہوں۔حیرانی اس پر ہے کہ انہیں میں اتنی مدت کے بعد بھی اس نادر تحفے کے لیے یاد تھا اور خوشی اس کی کہ خالد صاحب نے یوسف سدیدی صاحب سے تعلق کا حق ادا کیا ۔کتاب اس بڑے افقی رخ کے سائز پر شائع ہوئی ہے جس پر شاہکار ہی شائع ہوسکتے ہیں۔کاغذ اتنا دبیز اور چکنا کہ صرف اہلِ ذوق ہی استعمال کرسکتے ہیں۔صفحے الٹتے جائیے اوریہاں سے وہا ںتک ترشے ہوئے ہیروں کو تکتے جائیے ۔ بات مصر تک محدود نہیں ‘جمالِ یوسف پہلی نظر میں جذب کہاں ہوسکتا ہے ۔ یہ تو پہلی نظر میں انگلیاں قلم کردیتا ہے۔یوسف سدیدی صاحب کا منفرد اسلوب خط نستعلیق‘ثلث ‘ کوفی‘ طغریٰ‘ دیوانی‘رقاع وغیرہ میں بے مثل ہے۔ ایسے باکمال خطاط جو عالمی سطح پر ترک ‘ایران اور عرب کے خطاطوں کے ہم پلہ ہو ں‘ہمارے ہاں تھے ہی کتنے ۔ اس وقت جناب سید نفیس شاہ صاحب اورحافظ یوسف سدیدی ہی دو بڑ ے نام تھے جنہیں بین الاقوامی اساتذۂ فن بھی جانتے مانتے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ میرا ان دونوں باکمالوں سے مدتوں رابطہ اور تعلق رہا ہے اور وہ بھی اپنے بھائی جان مرحوم کی بدولت۔اس پر جتنا فخر کروں اور جتنا شکر کروں کم ہے۔
بھائی جان مرحوم ہی کی بدولت مجھے خطاطی سے غیر معمولی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ میں نہ خود خطاط ہوں نہ فن کی تکنیکی باریکیوں سے بہت واقف لیکن مدتوں اساتذہ کی خدمت میں جاتے رہنے اور دیگرخطاطوں کے کام کو دلچسپی سے دیکھتے رہنے کی وجہ سے یہ شد بد ہونے لگی کہ یوسف صاحب کا انداز دیگر بڑے خطاطوں کے انداز سے کن معاملات میں جدا ہے ۔ اندازہ ہونے لگا کہ نستعلیق میں یہ جو بھرے قلم کے باوجود نوک پلک ہے۔ یہ جو لمبوتری گولائی لیے ہوئے دائرے ہیں ‘یہ جو دائیں طرف سے خم دار نقطے ہیں ۔یہ جو لچکتی ہوئی دو چشمی ھ ہے۔یہ جو خالی جگہوں پر پھوٹتے فوارے کی طرح کا گلِ آرائش ہے ۔یہ جو نیم وا دہن ِماہی کی طرح کا ع کامنہ ہے ۔یہ جوثلث میں کشیدہ تلوار کی طرح الف ہے ۔ ‘ یہ حرف یوسف صاحب کے سوا کسی کے نہیں ہوسکتے۔یہ انہی کا مکتبِ فن ہے۔دیکھتے دیکھتے یقین ہونے لگا کہ اعلیٰ خطاط بھی بہت ہوسکتے ہیں ‘صاحبِ اسلوب کوئی کوئی ہوتا ہے ۔ یوسف سدیدی صاحبِ اسلوب خطاط تھے ۔عبد المجید پروین رقم اور تاج الدین زریں رقم کی خصوصیات کے وارث اور جامع ۔
یوسف سدیدی عربی خطوط کو عربوں کی طرح لکھنے کے قائل ہی نہیں اس پر عامل بھی تھے۔ ہماری کتابوں کی دکان میں تشریف لاتے رہتے تھے اور کبھی کبھار کسی خطاط کے کام پر مدھم آواز میں تبصرہ بھی فرمایا کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ایک نوجوان خطاط کا بڑا شہرہ تھا۔ان کی خطِ ثلث میں خطاطی دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ بہت عجمیت پائی جاتی ہے ان میں ۔ بس اتنا ہی تبصرہ کیا ۔فن پر بات کربھی لیتے تھے لیکن کسی کی ذات پربات کرنا ان کا شیوہ تھا ہی نہیں۔مجھ سے کئی باریہ بات کہی کہ آپ کے ادارۂ اسلامیات کا جو بورڈ ہے ‘جو حافظ یوسف دہلوی نے لکھا ہے ‘ اس کی ت دیکھنے کے لیے ہم خطاط جایا کرتے تھے کہ اتنی بڑی ت یوسف دہلوی صاحب نے کس طرح سنبھالی ہے ۔ جس دن یوسف دہلوی صاحب کا انتقال ہوا میں حافظ یوسف سدیدی صاحب کے پاس امروز کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ تا دیر ذکر کرتے رہے اور یہ واقعہ سنایا کہ میں جب دہلی میں تھا تو ہم سب خطاط جمنا کنارے تفریح کے لیے گئے۔وہاں یہ مقابلہ ہوگیا کہ ساحل کی ریت پر تختی لکھی جائے ۔شاید شاخوں کے قلم بنائے گئے ۔مقابلہ بڑے سے بڑا حرف لکھنے کا تھا۔یوسف سدیدی صاحب کہنے لگے: جب میں بڑی ے پر پہنچا تو یوسف دہلوی سین (س) پر تھے اور مجھ سے کافی آگے تھے۔اندازہ کیجیے انہوں نے کتنے بڑے حروف لکھے ہوں گے۔اس وقت اگر کوئی ہوائی جہاز سے ساحل کی تصویر اتارتا توان بہترین خطاطوں کی بہترین تختیاں دیکھنے کو ملتیں ۔
جناب خالد یوسفی صاحب ! آپ خودماشاء اللہ استاذ الاساتذہ کے درجے پر فائز ہیں ۔لیکن بہت بڑی بات ہے کہ آپ ہنوز یوسف سدیدی کے مکتب ِفن کے امین ہیں ۔آپ نے کمیاب فنِ خطاطی کا کیسابے مثال مرقع تیار کردیا جسے مرقعٔ یوسفی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔آپ جو یوسف صاحب کے خاص الخاص شاگرد ہیں ‘ ایک خاص الخاص مداح کی مبارک اور داد قبول فرمائیے کہ سعود عثمانی کا قلم ہیرے نہیں تراش سکتا مگرہیروں کی توصیف تو کرسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved