تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     01-01-2023

بڑھتا ہوا عدم تحفظ

دن دہاڑے جرائم‘ دہشت گردی‘ اغوا کی وارداتیں‘ ہلاکتیں‘ کوئٹہ‘ وانا اور بنوں میں دھماکے۔ یہ2012ء نہیں‘ 2022ء ہے۔ بظاہر دہشت گرد واپس آچکے ہیں۔ وہ پھر سے خطرہ بن رہے ہیں۔ انکی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے مطابق طالبان کے کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 51فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پندرہ اگست 2021ء سے لے کر چودہ اگست 2022ء کے درمیان ہونے والے 250 دہشت گرد حملوں میں433افراد جاں بحق اور719زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے پندرہ اگست2020ء سے لے کر چودہ اگست 2021ء کے درمیان ملک 165حملوں کا نشانہ بنا‘ جن میں 294افراد جاں بحق اور 598زخمی ہوئے۔ لیکن حالیہ دنوں بنوں اور لکی مروت میں سی ٹی ڈی افسران کو یرغمال بنائے جانے کے واقعات انتہائی سنگین اور فوری توجہ کے طالب ہیں۔
عرصہ ہوا دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ قومی سلامتی صرف سرحدوں کا پہرا دینے والی مسلح افواج کا ہی معاملہ نہیں‘ قومی سلامتی میں دیگر امور کے علاوہ اقتصادیات‘ توانائی اور ماحولیاتی تحفظ بھی شامل ہے۔ خوراک کی غیریقینی فراہمی بھی سکیورٹی کو بدترین خدشات سے دوچار کر سکتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس صورتحال کا اعتراف تو کیا لیکن اس سے نمٹنے کی کوشش نہ کی گئی۔ عمران خان کی حکومت نے جنوری 2022ء میں ملک میں پہلی مرتبہ جامع پالیسی ڈائیلاگ شروع کرنے کی کوشش کی تھی۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی نے ملک کی قومی سلامتی کی بنیاد اسلام آباد کی جیوپالیٹکس کے بجائے جیو اکنامکس کی طرف توجہ کو قرار دیا۔ یہ پالیسی انسانی وسائل کی ترقی اور ماحولیاتی تبدیلی کو بھی ترقی کا مرکز قرار دیتی ہے۔ اس پالیسی کا ٹائم فریم2022ء سے لے کر2026ء تک تھا۔ اس نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس فریم ورک کے بارے میں کچھ بھی سننے میں نہیں آیا۔ اب سکیورٹی کے شدید خطرات لاحق ہیں لیکن اس کا تعلق صرف تحریک طالبان پاکستان سے نہیں ہے بلکہ مندرجہ ذیل شعبوں سے پیدا ہونے والے خطرات سے بھی ہے جن کا ملک کو سامنا ہے:
1۔ جیو اکنامکس اور جیو پالیٹکس: نیشنل سکیورٹی پالیسی واضح طور پر تسلیم کرتی ہے کہ تمام تر توجہ معیشت کو توانا کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ماضی میں جیوپالیٹکس فیصلوں نے معیشت کو شدید زک پہنچائی۔ انہی فیصلوں نے ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں الجھا دیا جس کے نتیجے میں نہ صرف اسی ہزار سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ معیشت کو بھی 120بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ اس لیے دیگر عالمی کھلاڑیوں کا جو بھی ایجنڈا ہو‘ صرف یہ ہے کہ ان کے ساتھ اقتصادی اور معاشی روابط قائم کیے جائیں۔ اس حوالے سے امداد کے بجائے تجارت پر توجہ دی گئی۔ اس پالیسی کی سمت پرانی روایتی مارکیٹوں کیساتھ نئی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی طرف تھی۔ مغرب پر انحصار کرنے کے بجائے وسطی ایشیا کی طرف رخ کرنے کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیل کی قیمتیں بے حد بلند ہونے لگیں تو تمام سٹیک ہولڈرز نے اجتماعی فیصلہ کیا کہ تیل کے سستے ذرائع تلاش کیے جائیں گے‘ چاہے اس کا مطلب روس کی طرف ہاتھ بڑھانا ہی کیوں نہ ہو۔ اس پر یورپ کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے لیکن ان کا ہدف صرف پاکستان ہی نہیں تھا۔ تمام تر اعتراضات کے باوجود بھارت روس سے تیل اور گیس خرید رہا تھا۔ روس کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ پالیسی میں تبدیلی کی بنیاد تھا۔ اس میں شامل تمام سٹیک ہولڈرز اس پر متفق تھے۔ یہ توانائی کی سکیورٹی قائم کرنے کے سلسلے کا اہم قدم تھا جس پر اقتصادی ترقی کا دارومدارہے۔ لیکن بعد میں ان تمام کاوشوں کو سرد خانے میں ڈال دیاگیا۔ نئی حکومت کے وزیر خزانہ‘ مفتاح اسماعیل نے اس بات کی تردید کی کہ روس سے تیل اور گیس خریدنے پر امریکہ پاکستان کو سزا دے سکتا ہے جبکہ نئے وزیر خزانہ‘ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کے امریکہ میں دیے گئے بیانات نے بھی کافی ابہام پیدا کیا۔ اس دوران معاشی شرح نمو‘ جو اپریل 2022ء میں چھ فیصد تھی‘ گر کر نومبر2022ء میں ایک فیصد تک پہنچ گئی‘ جس کے بعد پاکستان ایک بار پھر ڈالروں کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
2۔ خارجہ پالیسی‘ ہم کہاں کھڑے ہیں: قومی سلامتی کا براہِ راست تعلق امورِ خارجہ اور عالمی تعلقات سے ہے۔ پی ڈی ایم داخلی کشمکش کا شکار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنا اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی رسہ کشی میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلے پر بھی پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی متعین سمت ہے۔ جس دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے روس سے تیل کی خریداری کے امکان کا اعلان کیا‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکہ میں اس کی تردید کردی۔ سرحدی صورتحال انتہائی حساس ہے۔ اس لیے وزیر خارجہ کو افغانستان جانا چاہیے تھا‘ ان کے بجائے وزیر مملکت‘ حنا ربانی کھر کو وہاں بھیج دیا گیا۔ جب حنا ربانی کھر وہاں موجود تھیں‘ اس دوران بھی افغانستان سے پاکستان پر حملے جاری رہے۔ اس سے اس دورے کے بے سود ہونے کا پتا چلتا تھا۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو فوری طور پر افغانستان جاکر حالات کو سنبھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وطنِ عزیز کے شہریوں پر سرحد پار سے فائرنگ کا معاملہ بہت سنگین ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں کو کھلا میدان مل گیا ہے۔
3۔ اہم معلومات کا فاش ہو جانا: سکیورٹی معاملات پر سب سے پریشان کن چیز اہم معلومات کا فاش ہو جانا ہے۔ چند ماہ قبل وزیراعظم آفس سے کچھ معلومات لیک ہوئیں۔ ڈارک ویب کا کوئی ہیکر کسی نہ کسی طریقے سے سکیورٹی پروٹوکول میں نقب لگانے میں کامیاب رہا اور وزیراعظم آفس میں محفوظ معلومات لے اُڑا۔ اس کی تحقیقات کی گئیں لیکن حکومت نے کبھی نہیں بتایا کہ کیا اُنہوں نے ہیکر کو پکڑ لیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی ڈیل کی ہے۔ اس کا تعلق کہاں سے تھا اور وہ کون سی اہم معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا اور ان سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر ہیکرز وزیراعظم آفس کو ہیک کر سکتے ہیں تو وہ دیگر اہم دفاتر کو بھی ہیک کر سکتے ہوں گے۔ حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ داخلی کشمکش میں اس حد تک ملوث ہو چکی ہے کہ اس کے پاس بیرونی کشمکش کا تدارک کرنے کا وقت ہی نہیں۔ ایسے سائبر اور دہشت گرد حملے کوئی راتوں رات کی بات نہیں‘ یقینا کہیں نہ کہیں سکیورٹی میں خلل پڑا ہے جو دہشت گرد بنوں پولیس اسٹیشن تک پہنچ گئے۔
4۔ علاقائی سکیورٹی ڈائیلاگ: ضرورت اس امرکی تھی بلکہ اب بھی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان علاقائی سکیورٹی ڈائیلاگ عمل میں آئے جس پر چین اور وسطی ایشیائی ریاستیں ثالث کا کردار ادا کریں۔ سرحدوں پر کشمکش تمام ہمسایہ ریاستوں کے لیے خطرناک ہے۔ پاکستانی فوجیوں نے اس کشمکش میں اپنی جانیں قربان کی ہیں اور کررہے ہیں۔ ضروری ہے کہ دفتر خارجہ بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے علاقائی ریاستوں کا اعلیٰ سطحی اجلاس بلائے۔ اس مسئلے پر اعلیٰ سطحی اجلاس کے بغیر دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ اس وقت حملوں کا ارتکاز خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے لیکن ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ وہ کتنی تیزی سے تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ یہ صورتحال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
حکومت کی توجہ قومی سلامتی کے بجائے اپنا بچائو کرنے پر ہے۔ حکومتی اراکین کے تمام اجلاس‘ کانفرنسیں‘ مکالمے صرف اپنی حکومت کو بچانے پر ہیں۔ 76اراکین پر مشتمل دیوہیکل کابینہ صرف اور صرف عمران خان کو نااہل کرنے کے طریقے تلاش کررہی ہے تاکہ اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے بچا کر اگلے عام انتخابات کا فوری انعقاد ٹالا جا سکے۔ خود کو بچانے پر پوری توجہ ہونے کی وجہ سے ملک کے تحفظ پر برائے نام توجہ ہے۔ سرحد پار موجود دشمن کمزور حکومت‘ گرتی ہوئی معیشت اور عوام کی مایوسی سے ابھرنے والا موقع تلاش کرتا ہے۔ اور یہی اس کے لیے وار کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ ہر روز اپنے بچائو کے لیے ہاتھ پائوں مارنے والی حکومت تزویراتی فیصلے نہیں کر سکتی۔ وہ حکومت جو خود انتہائی عدم تحفظ کا شکار ہو‘ وہ ملک میں بھی عدم تحفظ کا باعث بنے گی۔ اس لیے ایک واضح‘ مستحکم اور عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved