2022ء کاسال چار حوالوں سے یا د رکھا جائے گا‘سیاسی تبدیلی‘غیر ضروری سیاسی محاذآرائی‘ مخدوش معیشت اور دہشت گردی میں شدت۔یہ پہلا موقع تھا جب ایک وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنے منصب سے محروم کیا گیا۔ تاہم جومقتدر حلقے روایتی طورپر پاکستانی سیاست کا رخ متعین کرنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں ان کی ترجیحات میں تبدیلی ہی قومی اسمبلی میں سیاسی توازن پی ڈی ایم /پی ایم ایل این کے حق میں کرنے کا باعث بنی۔مگر وفاقی سطح پر نیا سیاسی سیٹ اَپ عمران خان کی ناقص حکمرانی کا موزوں متبادل ثابت نہ ہوسکا۔ 2018ء سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی میں اس وقت مزید شدت پیدا ہو گئی جب ستمبر2020ء میں پی ڈی ایم معرضِ وجود میں آئی اور اس کے نتیجے میں فریقین کی جانب سے احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس رجحان میں اپریل 2022ء کے بعد بھی تخفیف نہ ہوئی بلکہ دونوں فریقوں میں کشیدگی کی انتہاایک دوسرے کوسیاسی طورپر نیست ونابود کرنے کی حد تک پہنچ گئی۔ اس مقصد کے لیے پی ڈی ایم کی حکومت نے ریاستی مشینری کااستعمال کیاتوپی ٹی آئی نے سیاسی جلسے اور مارچ کرکے عوامی جوش و خروش کو اپنے حق میں استعمال کیا۔اس غیر ضروری سیاسی محاذآرائی نے اپریل 2022ء کے بعد بننے والی حکومت کیلئے زبوں حال معیشت میں بہتری لانا مشکل بنا دیا۔ نومبر اور دسمبر میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت پیدا ہو گئی۔ علاوہ ازیں چمن بارڈر پر افغانستان اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے درمیان دو مرتبہ شدید تصاد م ہوا۔پاکستان نے افغان سرحد پر سمگلنگ اور لوگوں کی غیر قانونی نقل وحرکت پر قابو پانے کے لیے جو باڑ لگائی تھی افغان بارڈر سکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی نے اس باڑ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ان واقعات نے میکرو اور مائیکرو لیول پر ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈالے۔ افراطِ زر اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور اشیائے خوراک کی مارکیٹ میں شدید قلت نے عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا۔ پی ڈی ایم حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اسے مخدوش معیشت پی ٹی آئی حکومت سے ورثے میں ملی‘تاہم وہ معیشت کی گراوٹ کا پہیہ روک نہ سکی۔سال کے آغاز کے مقابلے میں سال کے اختتام پر ملکی معیشت کہیں بدتر صورتحال کا شکار ہے۔ان حالات نے عام آدمی او رموجودہ حکومت کے درمیا ن پائی جانے والی مغائرت میں اضافہ کردیا۔
2023ء کے سال کے دامن میں بھی عام آدمی‘زراعت اور صنعت سے وابستہ شہریوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔بظاہر لگتا ہے کہ ان کی مشکلات کا سلسلہ مزید جاری رہے گاتاہم یہ مسائل اور مشکلات ناقابلِ شکست نہیں۔انہیں قابو میں لایا جا سکتا ہے اور عام آدمی کے مسائل کو ختم نہیں تو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ نیا سال پاکستانی عوام کے لیے کوئی اچھی خبر ثابت ہو تو ہمارے سیاستی قائدین کو اپنااندازِ سیاست تبدیل کرنا ہوگا۔ انہیں سیاسی محاذآرائی کی شدت میں کمی لانا ہوگی جس کے لیے دو فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔اول : انہیں اپنے سیاسی رویوں اور طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں غیر شائستہ زبان کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔جب تک اعلیٰ سیاسی قیادت ایک دوسرے کے لیے عزت واحترام کا مظاہرہ نہیں کرتی ہمارے سیاسی ماحول میں بہتری کی امید بے سودہے۔انہیں جمہوری کلچر اوران سیاسی روایات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا جو تحمل وبرداشت‘باہمی احترام اور متنازع امور میں رواداری اورمکالمے کی متقاضی ہیں۔ جمہوریت دوسروں پر اپنا نقطۂ نظر تھوپنے کے بجائے مسائل کے قابل قبول حل کا نام ہے۔دوم: سیاسی مخاصمت کے باوجود سیاسی قیادت کو کم از کم باہمی ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھناچاہئے۔ رہنما اصول کے طورپر جمہوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے آئین پسندی اور عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح بنایا جائے۔سب سے پہلے انہیں بنیادی پالیسی ایشوز کی نشاندہی کرنی چاہئے او رپھر ان متفق علیہ ایشوز پر مشترکہ حکمت عملی کو بروئے کار لانا چاہئے۔جب تک اہم سیاسی اور معاشی ایشوز پر اپنے سیاسی مفادات کے حوالے سے کم از کم قابلِ عمل اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جاتا جمہوری سیاست اور اقدارکا پروان چڑھنا ممکن نہیں۔
سیاسی قیادت کا کردار اسی وقت مستحکم ہو سکتا ہے اگر وہ منتخب پارلیمنٹ کو مضبوط اور مؤثر ادارے کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ اسے سپریم ادارے کا کردار نبھانا ہوگا اور تمام اختلافی امور کا حل اسی ایوان سے نکالنا ہوگا۔اگر سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے سیاسی مشاورت سے نکالا جائے گا تو وہ ریاست کا ارفع ترین ادارہ بن جاتی ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ ایوان میں ہونے والی بحث و تمحیص کا معیار بلند کیا جائے اور ہنگامہ آرائی‘گھٹیا نعرے بازی اور اجلاس میں بدنظمی پیدا کرنے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ ایک متحرک اور مؤثر پارلیمنٹ کی موجودگی یقینا سیاسی قائدین کے مقام ومرتبے میں اضافے کا باعث ہوگی۔اگر سیاسی جماعتوں او رقائدین میں اس حد تک تقسیم اور انتشار برقرار رہتا ہے کہ وہ ہر اختلافی مسئلے پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ناگزیر سمجھیں تو پھر انہیں بیورو کریسی‘ ملٹری او رعدلیہ جیسے ریاستی اداروں کی طرف سے خارجی دبائو کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے۔ اگر پاکستان کے سیاسی قائدین اپنے باہمی رویوں اور تال میل میں رواداری اور جمہوریت پسندی کامظاہرہ کریں تو سیاسی نظام میں استحکا م اور تسلسل کو فروغ ملے گا؛ چنانچہ عوام میں اپنے سیاسی اداروں کے حوالے سے اعتماد کی فضا پیدا ہو گی اور ملکی سیاست کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی اور پیش بندی کرنا آسان ہو جائے گا۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی طویل مدتی سیاسی اور معاشی پالیسیاں وضع کر سکیں گے۔اگر ہماری سیاسی قیادت متذکرہ بالا سیاسی اور جمہوری فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے تو گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت میں بنیادی معاشی مسائل پر افہا م و تفہیم کی فضا پیدا کی جائے مثلاًملکی آمدنی میں اضافہ اور تجارتی تواز ن میں بہتری کیسے لائی جائے‘جاری اخراجات اور بجٹ کے خسارے میں کمی کیسے لائی جائے اور افراطِ زر کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے ؟ درج ذیل رہنما اصول ملکی معیشت میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں:
اول: سیاسی محاذآرائی اور تلخی میں کمی لائی جائے‘تحمل و برداشت‘رواداری اور مکالمے کے جمہوری کلچرکو فروغ دیا جائے۔دوم : ریاست کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے۔سوم : ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں جاری بدعنوانی پر قابو پایا جائے۔ چہارم : فوری ریلیف کی غرض سے پاکستان کوآئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ معاشی ریویو کو مکمل کرکے مالی امداد کی بقیہ قسط کی وصولی کا بندوبست کرنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد ہی دیگر بین الاقوامی اداروں اور ممالک سے معاشی سپورٹ حاصل کی جاسکتی ہے‘تاہم اسے ایک عارضی ریلیف سمجھنا چاہئے۔پنجم : جو مارکیٹ فورسز اشیائے ضروریہ کی منڈیوں میں سپلائی اور ا ن کی قیمتوں میں ناجائزاضافے کا باعث بنتی ہیں ان پر سخت کنٹرول کیا جائے۔ششم : زراعت کے شعبے پر فوری توجہ دے کراس میں بہتری لائی جائے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے اس شعبے کو خصوصی سبسڈی دی جائے‘ کسانوں کواعلیٰ اور معیاری بیج‘ ملاوٹ سے پاک سپرے اور کھاد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔زراعت سے منسلک صنعتوں پر خصوصی دھیان دیا جائے۔ لمحۂ موجود کا فوری تقاضا ہے کہ معاشی بحالی کے آغازکو اولین ترجیح سمجھا اوربنا یاجائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved