تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     02-01-2023

قومی سلامتی پالیسی اور قیامِ امن

جمعہ کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں شریک وفاقی وزرا، عسکری افسران اور سکیورٹی ایجنسیز کے نمائندوں نے نئے حالات میں دہشت گردی کی تازہ لہر سے نمٹنے کی پرانی پالیسی پر نظرِثانی کرنے کے علاوہ مغربی سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے بڑھتے ہوئے فائرنگ کے واقعات اور ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے طریقۂ کار پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ بلاشبہ مغربی اشرافیہ کی ڈیڑھ سو سالوں پہ محیط افغان پالیسی کے تناظر میں اس اجلاس کا ایجنڈا ہماری سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کی صلاحیتوں کا امتحان اور مربوط قومی سلامتی پالیسی کے تعین کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔ اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو اس خطے میں پچھلے43سالوں سے پروان چڑھنے والی مذہبی و لسانی تحریکوں کی کوکھ سے جنم لینے والی گوریلا جنگوں اور ان کے تدارک کی خاطر کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں معاشرے پر سرکاری و ریاستی اداروں کی گرفت کمزور، سیاسی عمل مفلوج اور ثقافتی رشتوں کے بندھن کمزور ہونے سے ایسے باغیانہ کلچرکو فروغ ملا جس کی حرکیات وقفے وقفے سے یہاں تشدد کو ابھارنے کا ذریعہ بنی ہیں اور جسے کچلنے کے لیے بار بارآپریشنز لانچ کرنا پڑے۔ گزشتہ بائیس برس کے دوران برپا رہنے والی شورش نے مملکت کے آئین و نظام کے انہدم اور تہذیب و تمدن کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے علاوہ معاشرے کی اُن نازک انگلیوں کو بھی کچل ڈالا جو دکھوں سے لبریز فانی زندگی کو جینے کے قابل بنانے کی خاطر فن و ثقافت کی آبیاری کرتی رہیں؛ چنانچہ اب یہاں خوشی و غم کے مظاہر، معاشی و اقتصادی عوامل، نجی و اجتماعی بود و باش اور سوچنے کے انداز بدل گئے اور اسی تغیر وتبدل میں معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی سرکاری اتھارٹی غیر مؤثر ہو گئی۔
قبائلی علاقوں میں 2001ء کے بعد کیے جانے والے چھوٹے بڑے آپریشنز میں آپریشن پائیدار آزادی (2001-2002ء)، آپریشن المیزان (2002-2006ء)، آپریشن زلزلہ (2008ء)، آپریشن شیر دل، راہِ حق، راہِ راست (2007-2009)، آپریشن راہ ِنجات (2009-2010ء)، 2014ء کا ضربِ عضب اور 2017ء کا آپریشن ردالفساد قابلِ ذکر ہیں۔سوات اور وزیرستان کے آپریشنز میں لاکھوں شہری نقل مکانی کی کلفتوں سے دوچار ہوئے جبکہ عام شہریوں کے روپ میں شدت پسند عناصر پورے ملک میں پھیل گئے۔ آپریشنز کی ضرورت و اہمیت سے قطع نظر‘ طاقت کے اضافی استعمال کے مضمرات نے عمرانی اصولوں کو گزند پہنچا کر ریاست اور عوام کے مابین رشتوں کو کمزور کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔ اس وقت ہماری عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کی پہلی ترجیح دہشت گردی کو کچلنے کی خاطر شہریوں کا ٹوٹا ہوا بھروسہ واپس حاصل کرنا ہونی چاہئے۔
اگر ہم فرانسیسی مفکر ڈیوڈ گیلالو کی طرف سے قائم کردہ انسدادِ بغاوت کے پیمانوں پر دہشت گردی کے خلاف اپنے ردعمل کی نوعیت کا جائزہ لیں تو تشدد کے خلاف ہمارا بیانیہ بے اثر اور مایوس کن دکھائی دے گا۔ گیلالو کہتا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے چار''قوانین‘‘میں سے سب سے اہم قانون انسانی آبادیاں ہیں یعنی عوام کی حمایت انسدادِ بغاوت مہم کا بنیادی ٹول ہے۔ آبادی کے تعاون کے بغیر باغیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور مزید بھرتیوں کو روکنا ناممکن ہوگا۔ اس طرح کی حمایت معاشرے کی اُس فعال اقلیت سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے جو تشدد کی خفیہ یا کھلی حمایت کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے والے نسبتاً غیر جانبدار اکثریت کو جمع کرکے باغیوں کی حمایت پہ کمر بستہ اقلیت کو بے اثر بنا سکتے ہیں لیکن وسیع آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے ضمن میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ حمایت مشروط ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہی ہے کہ عوامی حمایت کے حصول کے بعد آپ کیا کرتے ہیں؟اگر ریاست کا طرزِ عمل آبادی کے لیے ناگوار ہو تو یہ حمایت ختم بلکہ مخالفت میں بدل جائے گی۔ انسدادِ بغاوت کا آخری قانون''کوشش کی شدت اور وسائل کی وسعت‘‘کا حوالہ دیتا ہے۔ چونکہ انسدادِ بغاوت کے لیے کوششوں، وسائل اور اہلکاروں کی بڑی تعداد کی ضرورت پڑتی ہے؛ چنانچہ اس بات کا امکان نہیں کہ اسے ایک ہی وقت میں‘ ہر جگہ مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے بلکہ مختصر وقت میں منتخب علاقوں میں ایسی مؤثرکارروائی ہو‘ جسے ضرورت کے مطابق جلد دوسری جگہ پر منتقل کیا جا سکے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ کلیئر ہونے والے علاقوں میں سویلین انتظامیہ کو فی الفور فعال بنانے کے علاوہ عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی قیادت کی مسلسل کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے تجربات انسدادِ بغاوت کے متذکرہ اصولوں سے میل نہیں کھاتے۔ سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد ضلع کے انتظامی اور سیاسی امور سویلین لیڈر شپ کو منتقل کرنے میں تاخیر کی بدولت بحالی کا عمل بُری طرح متاثر ہوا جس نے ایک مؤثر آپریشن کے فوائد کو گنوا دیا۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی انضمام کے باوجود سویلین اتھارٹی کو اختیارات منتقل کرنے میں غیرمعمولی تاخیر کے علاوہ بحالی اور اداروں کو ترقیاتی کاموں میں الجھانے سے ایسے مسائل نے سر اٹھا لیا جو اب سنبھل نہیں رہے۔ چنانچہ تمام تر مساعی کے باوجود متذکرہ علاقوں میں سماجی عمل ریگولیٹ ہو سکا نہ ہی امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے۔
اس وقت جنوبی وزیرستان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک سکیورٹی کے کڑے انتظامات کے باوجود نہ شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی علاقے میں امن عامہ کی صورتحال تسلی بخش ہے۔ عسکری قیادت کو وزیرستان کے حالیہ دورے کے دوران بریفنگ دی گئی کہ حافظ گل بہادر گروپ کے دو سو بیس جنگو فعال ہیں۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے ملک بھر میں فقط پانچ سو کے لگ بھگ دہشت گرد متحرک ہیں۔ اسی طرح وانا سے ڈیرہ اسماعیل خان تک بمشکل نوے سے سو اور ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں شیرین گروپ کے چند درجن دہشت گردوں نے ریاستی اداروں کو انگیج کر رکھا ہے، جبکہ سکیورٹی کے نام پر شہریوں کے بنیادی حقوق معطل، کئی مرکزی شاہراہیں بند، اقتصادی سرگرمیاں محدود اورعام شہریوں کی نقل و حمل پر قدغنیں عائد ہیں۔ سرحدی علاقوں میں مختلف سول و عسکری ایجنسیوں کا الگ الگ انٹیلی جنس نیٹ ورک کام کر رہا ہے جن کے مابین کوآرڈی نیشن کا فقدان شرپسند اقلیت کے خاتمے میں حائل ہو گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کو بحالی اور ترقیاتی کاموں میں مصروف رکھنے سمیت انسدادِ دہشت گردی میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریز بھی قیامِ امن کے حصول کی راہ روک رہا ہے۔ اگر حکومت درجنوں ناکے لگانے کے بجائے دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور مشتبہ گھروں کی نگرانی کیلئے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کرے تو سماجی آزادیوں کو متاثرکیے بغیر مقصد کا حصول ممکن ہے۔ عموماً دہشت گرد نقل و حمل کیلئے مرکزی شاہراہوں کے بجائے غیر روایتی راستوں کو استعمال میں لاتے ہیں مگر مرکزی شاہراہوں، تفریح گاہوں اور مصروف سڑکوں پر ناکوں اور چیک پوسٹوں کے جال بچھاکرعام شہریوں کو اذیت پہنچا کر معاشرے کے مؤثر طبقات کی حمایت گنوا دی جاتی ہے۔
قصہ کوتاہ‘ انسدادِ دہشت گردی کی عسکری مہمات کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے علاوہ سکیورٹی اداروں کے درمیان مؤثر کوآرڈی نیشن کا ہونا از بس ضروری ہے۔ انٹیلی جنس گیدرنگ کا پورا نظام پروفیشنل عسکری اداروں کے سپرد رہنا چاہئے۔ عسکری آپریشنزکے ذریعے کلیئر ہونے والے علاقوں کو فی الفور سول انتظامیہ کے حوالے کرکے وہاں سیاسی لیڈر شپ کو کام کرنے کا راہ دی جانی چاہئے اورسکیورٹی فورسز کو بحالی اور ترقیاتی عمل کی پیچیدگیوں میں الجھانے کے بجائے اپنے ڈیٹرنٹ کو زیادہ مؤثر بنانے کا موقع دیا جائے تو مختصر وقفے میں ہی قیامِ امن کے خواب کی تعبیر مل سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved