راستے تین ہی ہیں۔
ایک یہ کہ سیاسی اور سماجی تقسیم اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ یہ 'منطقی‘ تو ہوگا لیکن بہت بھیانک۔ اس خطے کی تاریخ میں اس 'منطقی انجام‘ کی دو مثالیں ہیں۔ ایک کا ظہور 1947ء میں ہوا اور دوسری کا 1971ء میں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے تعصبات سے اٹھ جائیں اور معاشرے کو حق و باطل میں تقسیم کرنے کے بجائے‘ اس کو بچانے کی مشترکہ کاوش کریں۔ یہ غیرمنطقی راستہ ہے۔ اس کے لیے شرطِ اوّل قومی قیادت کا بالغ نظر اور گروہی مفادات سے بالاتر ہونا ہے۔ غیر منطقی اس لیے ہے کہ اس بلوغت کے آثار کہیں نہیں پائے جاتے۔ ایک دوسرے کو مٹا دینے کی خواہش‘ ہر آرزو پر غالب ہے۔ تیسرے راستے کا ذکر‘ میں کالم کے آخر میں کروں گا۔
پاکستان میں معاشی خوش حالی کے تین ادوار آئے۔ جنرل ایوب خان کا دور‘ جنرل ضیاالحق کا عہد اور جنرل پرویز مشرف کا زمانہ۔ فوجی آمر ہونے کے علاوہ‘ ان میں ایک چیز مشترک تھی اور وہی اس خوشحالی کا سبب بنی۔ تینوں نے اس خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا۔ 'سردجنگ‘ کا آغاز کم و بیش اُسی وقت ہوا جب پاکستان قائم ہوا۔ پاکستان کو یہ طے کرنا تھا کہ اس نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا ہے یا سوویت یونین کا۔ پاکستان نے امریکہ کا انتخاب کیا۔ امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد دی اور اقتصادی بھی۔ فوج کو بطور ادارہ منظم ہونے کا موقع ملا اور ملک کی معیشت بھی بہتر ہوئی۔ پاکستان سیٹو (SEATO) اورسینٹو (CENTO) کا رکن بنا اور یوں ہم نے اس علاقے میں امریکی مفادات کی آبیاری کی۔
تاریخ کا دوسرا فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے فیصلہ کن معرکے میں‘ ہم نے خود کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر پیش کر دیا۔ ایک بار پھر ہم پر ڈالر برسنے لگے۔ خوشحال طبقات میں ایک نئے طبقے کا اضافہ ہوا۔ یہ مذہبی طبقہ تھا۔ اب اس کے وسائل روایتی امیر طبقات کے برابر ہو گئے۔ وہ گھر‘ ڈیرے اور گاڑیاں اب اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ تھے جو اس سے پہلے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات کے لیے خاص تھے۔ سماج میں ایک نئے معاشی طبقے کا ابھرنا‘ اس کی معیشت ہی نہیں‘ معاشرت کو بھی بدل دیتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔
پرویز مشرف کے دور میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی اور اسے ایک بار پھر ہمارے کندھوں کی ضرورت پیش آئی۔ ہم نے ایک بار پھر اپنی خدمات پیش کر دیں۔ ڈالر پھر برسنے لگے۔ ریل پیل ہوگئی۔ اس بار بھی یہ ڈالر زیادہ ترمراعات یافتہ طبقات ہی کی جیب میں گئے لیکن اس سے ملکی معیشت میں حرکت پیدا ہوئی۔ ان طبقات نے جب ریئل اسٹیٹ وغیرہ میں سرمایہ کاری کی تو معیشت جی اٹھی۔ اس کاروبار نے بھی معاشی طور پر خوشحال طبقات میں ایک نئے طبقے کا اضافہ کیا۔ اچانک بے تحاشا پیسہ آجائے تو پھر انسانی ذہن شہرت‘ طاقت اور تفریح کے راستے تلاش کرتا ہے۔ طاقت کے حصول کے لیے ان طبقات نے سیاست کا رخ کیا۔ سیاسی لغت میں 'اے ٹی ایم‘ کی اصطلاح شامل ہوئی۔ اس پیسے نے سیاسی حرکیات کو بدل دیا۔ اسلام آباد کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کا مالک آزاد کشمیر کا وزیراعظم بن گیا اور روایتی سیاستدان دیکھتے رہ گئے۔ اس طرح کی مثالوں سے سیاسی جماعتوں کی صفیں بھری پڑی ہیں۔
اس معاشی خوشحالی میں ہماری محنت‘ ماہرینِ معیشت کی بصیرت یا اہلِ سیاست کی منصوبہ بندی کا حصہ ناقابلِ ذکرہے۔ مجھے گزشتہ چالیس برسوں میں صرف ایک معاشی پالیسی دکھائی دیتی ہے اور وہ نواز شریف صاحب نے شروع کی۔ ایک بڑے انفراسٹرکچر کی تعمیر تاکہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ توانائی جیسے مسائل کا خاتمہ۔ مسلم دنیا میں یہ ماڈل اس سے پہلے ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے کامیابی سے اختیار کیا تاہم‘ ہمارے ہاں خوشحالی اسی وقت آئی جب ہم نے امریکی مفادات کی آبیاری کی اور اس کا معاوضہ پایا۔
جیسے ہی امریکہ مفادات ختم ہوئے یا امریکہ کے ساتھ ہمارا اعتماد کا رشتہ باقی نہ رہا‘ ہم اپنی اوقات کی طرف لوٹنے لگے۔ تب ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم نے معیشت کو کوئی ایک مضبوط بنیاد فراہم نہیں کی۔ ہم توصرف قرض لیتے رہے۔ اگر اہتمام کیا تو صرف اتنا کہ قرض کی قسط ادا کر دی تاکہ مزید قرض مل سکے۔ اس عمل کو کبھی تو رکنا تھا۔ وہ وقت اب آگیا ہے۔ ہم نیا قرض لے کر پچھلے قرض کی قسط ادا کرتے تھے۔ اب نیا قرض مل نہیں رہا اور ہم پچھلا قرض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ 2019ء تک چونکہ سٹیٹ بینک پر حکومت کا کنٹرول تھا‘ اس لیے حکومت روپے کی قدر کے تعین پر کسی حد تک اثر انداز ہو کر‘ روپے اور ڈالر میں ایک توازن برقرار رکھتی تھی۔ اس سے برآمدات اور درآمدات کا فرق زیادہ بڑھتا نہیں تھا۔ 2019ء میں آئی ایم ایف سے جن شرائط پر معاہدہ ہوا‘ ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ سٹیٹ بینک پر اس حکومتی کنٹرول کو ختم کر دیا جائے۔ ہم نے مان لیا۔ اب ہم افراطِ زر کو روکنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ روپے کی قدر اب مارکیٹ ہی طے کرے گی اور اس کی باگ حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔
حل کیا ہے؟ وہی جو اب عمران خان صاحب بھی کہہ رہے ہیں۔ صرف آئی ایم ایف۔ آئی ایم ایف نے نومبر میں جو پیسے دینے تھے‘ نہیں دیے کہ ہم نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ وہ اب اسی وقت مانے گا جب اس کی شرائط کو تسلیم کیا جائے گا۔ ان شرائط کو ماننے کا سادہ مطلب ہے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ۔ سیاسی حکومت یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ صرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتیں اس کا ساتھ دیں۔ خان صاحب نے کل جو بات کہی‘ اسے عوام کے سامنے بھی کہیں اور مہنگائی کے حکومتی عذر کو تسلیم کریں۔ وہ مگر سیاسی مخالف کی گرتی ہوئی دیوار کو کیوں سہارا دیں گے؟ اسی لیے میں اس حل کو غیر منطقی سمجھتا ہوں۔
دوسرا راستہ‘ منطقی راستہ ہے۔ ہم اس پر چل نہیں‘ دوڑ رہے ہیں۔ اس کی منزل کے بارے میں‘ میں کسی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بھیانک ہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے زمان پارک تک جس طرح کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں‘ وہ اسی منزل کا پتا دے رہی ہیں۔ ملک اس طرح برباد نہیںہوتے کہ قدم رک جاتے ہیں۔ حرکت جاری رہتی ہے مگر سفر تمام نہیں ہوتا۔
بقا کی ایک ہی صورت باقی ہے اور یہ تیسرا راستہ ہے۔ اس خطے میں امریکہ کو ایک بار پھر ہماری ضرورت محسوس ہو۔ ہم اپنی خدمات پیش کریں اور ایک بار پھر ڈالر یہاں کا رخ کریں۔ اس بار کوئی نیا معاشی طبقہ پیدا ہو۔ سماج کی ہیئت یقینا بدلے گی مگر 'خوشحالی‘ آ جائے گی۔ مہنگائی تھم جائے گی۔ افراطِ زر ختم ہوگا۔ امریکہ کو مگر کون قائل کرے کہ وہ ہم پر ایک بار پھر سرمایہ کاری کرے؟ کیا حسین حقانی ہماری مدد کرے سکتے ہیں؟ خبروں میں ایک بار پھر ان کا ذکر ہونے لگا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کچھ پاکستانی دوست ابھی باقی ہیں۔ کیا وہ انہیں اس پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کو ہماری ضرورت کا احساس دلائیں؟ اب ہم ہماری ساری امیدیں حسین حقانی صاحب ہی سے ہیں۔ غالبؔ سرگوشی کر رہے ہیں مگر میں ان کی بات پر دھیان نہیں دینا چاہتا:
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved