تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     03-01-2023

قومی مفاہمت‘ آرمی چیف کی تجویز کے تناظر میں

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چاہنے والوں کے لیے یہ امر باعثِ اذیت ثابت ہو سکتا ہے لیکن خان صاحب کی گزشتہ سال کی سیاسی ناکامیاں عیاں اور رواں سال میں مزید آزمائشیں واضح ہیں۔ عمران خان کے لیے نیا سال پچھلے سال کے مقابلے میں کئی حوالوں سے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے وہ عدم اعتماد کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے گئے‘ پھر لانگ مارچ کے دوران زخمی ہوئے اور اب انہیں اقتدار سے غیر معینہ مدت کے لیے دور رکھنے کی کوشش ہوتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان جس طرح اقتدار میں رہتے ہوئے ناکام رہے‘ اسی طرح کامیاب اپوزیشن بھی نہیں کر پائے۔ اُن کے امریکی سازش‘ درآمدی حکومت اور میر جعفر و میر صادق کے بیانیے پِٹ چکے ہیں۔ لانگ مارچ ناکام ہو چکا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں اور قبل از وقت انتخابات بھی ممکن نظر نہیں آتے۔ گجر خاندان‘ مانیکا خاندان اور بزدار فیکٹر کے بعد عمران خان پر توشہ خانہ میں مبینہ خورد برد اور اُن کے قریبی رفقا پر مبینہ کرپشن کے الزامات بھی سامنے آئے اور اب خان صاحب کو اقتدار دلانے کے لیے صادق و امین قرار دلوانے کی مہم جوئی بھی بے نقاب ہو چکی ہے۔ خان صاحب کی آڈیوز اور وڈیوز سامنے لانے کے عمل کو ہم ذاتی طور پر کسی صورت مناسب نہیں سمجھتے لیکن اس سے خان صاحب کو ہونے والے سیاسی نقصانات کو بہر حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح عمران خان کی طرف سے مریم نواز کے بارے جو الفاظ ادا کیے گئے ہیں‘ اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ خان صاحب کے دعوے کے برعکس شہباز شریف اچکن پہن چکے ہیں اور انہیں اقتدار میں آئے آٹھ ماہ سے زائد ہو چکے ہیں اور فی الوقت آثار یہی ہیں کہ خان صاحب کو انتظار کرنا پڑے گا بلکہ کچھ حلقے تو انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے درپے ہیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست فی الوقت معطل یا ناکام ہو چکی ہے‘ وفاق اور صوبوں میں فوری تبدیلی نہیں آ رہی تو سوال یہ ہے کہ ایسے میں پی ڈی ایم کی حکومت اصل مسائل یعنی مہنگائی‘ دہشت گردی اور سیاسی استحکام کے چیلنجوں سے کامیابی سے نمٹ پائے گی؟ جواب نفی میں ہے۔
ایک اور مفروضہ کہ سیاستدانوں کے بجائے ٹیکنوکریٹ کی حکومت یا طویل عبوری نظام کے تحت امورِ سلطنت چلائے جائیں۔ اس آزمائی ہوئی سوچ کو دوبارہ لاگو کرنا مسائل کو شدید کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آئین اور قانون کو جب جب معطل یا نظرانداز کیا گیا تو خرابی مزید شدید ہو کر سامنے آئی۔ ایسے میں صرف ایک ہی صورت بچتی ہے کہ سیاستدان اپنی اناؤں‘ مفادات اور وقتی فوائد کے گرداب سے نکل کر وسیع البنیاد مذاکرات کے تحت کم از کم تین میثاق کرنے کی کوشش کریں۔ نمبر ایک میثاقِ اخلاقیات۔ نمبر دو میثاقِ آئین و جمہوریت۔ نمبر تین میثاقِ معیشت۔ اسی قسم کی ایک تجویز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی طرف سے بھی پیش کی گئی ہے۔
میثاقِ اخلاقیات اس لیے ہونا چاہیے کیونکہ کسی بھی جماعت میں کارکنان کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کارکنان کو اختلاف‘ تنقید اور بداخلاقی میں فرق سمجھائیں۔ اختلاف اور تنقید کی گنجائش تو موجود ہے‘ ہر شخص کی طرح سیاسی کارکنان کو بھی حق حاصل ہے کہ مخالفیں پر تنقید کریں‘ مثبت تنقید سے قومیں آگے بڑھتی ہیں؛ تاہم اختلاف کی آڑ میں بداخلاقی‘ بدتہذیبی اور غیر شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کے اہلِ خانہ کے نام لے کر سرِبازار نازیبا الفاظ استعمال کرنے کو ہرگز اختلاف کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ نجی زندگی کی آڈیو‘ وڈیو لیک کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ کیا یہی سیاست ہے؟ وہ جماعتیں جنہوں نے عوام کی خدمت کرکے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا تھا وہ ایک لایعنی کام میں مصروفِ عمل ہیں اور قوم کی بڑی تعداد ان کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ جس سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن کم از کم غلط کو غلط کہنے کی جرأت تو پیدا کریں۔ قائدین جب خود جلسوں میں مخالفین کے لیے نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں تو کارکنان ان کی تقلید میں دو قدم آگے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا‘ جہاں پر سیاسی جماعتوں کا منشور‘ ترقیاتی پروگرام اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی مکمل رہنمائی ہونی چاہیے‘ وہ سیاسی حریفوں کے خلاف پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا مقابلہ لگا ہوا ہے۔ تہذیب کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مقابلے میں دیگر جماعتیں بھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سوشل میڈیا پر جو جماعت پیچھے ہے‘ وہ سیٹ اَپ بنانے میں مصروف ہے تاکہ حریف جماعت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ اخلاقیات ضروری ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کریں جس میں تحریک انصاف سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
میثاقِ آئین اور جمہوریت پہلے بھی ہوئے جس کی تجدید کی ضرورت ہے۔ نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مئی 2006ء لندن میں میثاقِ جمہوریت کیا تھا جس کے مثبت اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں کہ تیسری بار اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے ملک میں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہو رہی تو اس کی بنیادی وجہ میثاقِ جمہوریت ہے۔ خان صاحب کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس کے بعد تحریک انصاف نے اپنی مرضی کے مطابق آئین کی تشریح کرنے کی کوشش کی‘ بعدازاں معاملہ عدالت میں جانے سے اگرچہ سلجھ گیا تاہم پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ میں جب حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی مدِمقابل تھے تو ایک بار پھر آئین کی تشریح کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر اس کا حل نکالنا ہوگا‘ ورنہ آئے روز ہر سیاسی جماعت آئین میں اپنی مرضی کی تشریح کرنے لگے گی‘ ایسے معاملات عدالت کی طرف ہی جائیں گے۔
ملک کے معاشی حالات آج جس سطح پر پہنچ چکے ہیں اس کی اصل ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہی ہیں کیونکہ سیاسی بحران معاشی بحران کو جنم دیتا ہے۔ اگر اب بھی سیاسی جماعتوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو سبھی کے لیے پریشانی ہوگی۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا منشور اور معاشی پروگرام ہے‘ اس کھلی حقیقت کے باوجود کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالے۔ خان صاحب کے کہنے پر اگر فوری الیکشن کرا دیے جائیں‘ تب بھی معاشی بحران ختم نہیں ہو سکے گا کیونکہ مستحکم معیشت کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور سیاسی استحکام سیاسی جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے ہی آئے گا۔ میثاقِ معیشت کے تحت یہ پابندی عائد کرنی چاہیے کہ جب تک ملک معاشی مسائل کی گرداب سے باہر نہیں نکل آتا ہے تب تک کسی کو بھی سیاسی جلسوں اور احتجاج کی اجازت نہیں ہو گی۔ معاملات کو ایوان کے اندر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو عہدہ سنبھالے ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہے مگر انہوں نے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ معیشت اور سکیورٹی کے چیلنجز پر اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب قومی اتفاقِ رائے ہوگا لیکن کیا اہلِ سیاست ملک و قوم کی خاطر قومی یکجہتی کے لیے تیار ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved