پیارے دوست میاں حسن فاروق ابن میاں طفیل محمدؒ کئی سالوں سے مختلف بیماریوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ صاحبِ عزم تھے، اس لیے کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے تو جسم میں زیادہ ہی نقاہت آ گئی تھی۔ آخر یہ مردِ درویش 20 نومبر2022ء کو دارِفانی سے خلدبریں کو کوچ کر گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! گلستانِ طفیل کا یہ منفرد پھول تھا۔ اس کے اندر اپنے عظیم والدین کی بے نظیر صفات کی مکمل جھلک نظر آتی تھی۔ یہ پھول اپنی بھرپور مہک اور خوشبو کے ساتھ سب سے پہلے اپنے والدین کے پاس جا پہنچا۔ سابق امرائے جماعت اسلامی پاکستان کی اولاد میں سے حسن فاروق پہلے شخص ہیں جو دنیا کی تنگ نائیوں سے آخرت کی وسعتوں میں چلے گئے ہیں۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
حسن فاروق نے ایک مثالی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مرحوم کے والد ہمارے دور کے عظیم رہنما اور ولی اللہ میاں طفیل محمدؒ کی شان بے نیازی ان کے سب ساتھیوں نے دیکھی تھی۔ 27سال کی عمر میں آپ قافلہ سخت جاں میں شامل ہوئے اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میاں صاحب کے ساتھ آپ کی اہلیہ مرحومہ نے بھی بڑے حوصلے کے ساتھ ان ساری منازل میں صبرواستقامت اور اعلیٰ درجے کی قناعت کے ساتھ زندگی گزاری۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں عطا فرمائیں۔
میاں صاحب کی اولاد میں ہماری بہنیں محترمہ طاہرہ اور طیبہ سب سے بڑی ہیں۔ ان کے بعد بیٹوں میں میاں احسن فاروق سب سے بڑے، ان کے بعد میاں محسن فاروق اور تیسرے نمبر پر میاں حسن فاروق تھے۔ میاں حسن کے بعد دو بہنیں راشدہ اور شاہدہ ہیں۔ ان کے بعد سب سے چھوٹے بیٹے میاں زبیر فاروق ہیں۔ زبیر فاروق سے چھوٹی چار بہنیں ہیں، سلمیٰ، نجمیٰ، سمیّہ اور عظمیٰ۔ چاروں بھائیوں بلکہ میاں طفیل محمد صاحب کے پورے گلستان میں حسن ایک منفرد پھول تھے۔ ہم نے اس مردِ درویش کو نصف صدی سے بھی زائد عرصہ بہت قریب سے دیکھا۔ خدا گواہ ہے کہ اسے کبھی غصے میں یا جھنجھلاہٹ میں نہیں دیکھا گیا۔ مرحوم کے چہرے پر ہمیشہ یک گونہ اطمینان اور حسین مسکراہٹ نظر آتی تھی۔ جب بات کرتے تو نہایت دھیمے انداز میں اور کسی معاملے میں کسی شخص کے کسی بھی اعتراض پر مشتعل ہونے کے بجائے بڑے ٹھنڈے دل سے اعتراض سنتے اور اس کا جواب دیتے۔
کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں ''بسانے‘‘ کے قابل
حسن مرحوم کے بچپن اور جوانی کے ساتھیوں کی گواہی ہے کہ دورِ طالب علمی میں بھی انہوں نے کبھی اپنے کسی ہم جماعت سے تلخی اور غصے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ میاں حسن فاروق نے ابتدائی تعلیم نیا مدرسہ (اچھرہ )میں حاصل کی۔ ایف اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور پھر سعودی عرب کی یونیورسٹی جامعۃ الملک سعود (ریاض) میں دو سال کا عربی زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ مرحوم وہاں بھی بہت اچھی روایات قائم کر کے آئے۔ آپ کے ساتھ پاکستان سے مولانا فتح محمد صاحب کے بیٹے حافظ عبدالوحید، میاں عبدالشکور، مولوی محمد امین حلیم، اقبال نکیانہ اور کئی دیگر طلبہ نے بھی اسی یونیورسٹی میں ایک ساتھ داخلہ لیا تھا۔ میاں طفیل محمدؒ مرحوم اور مولانا خلیل حامدیؒ مرحوم جب سعودی عرب کے دوروں پر جاتے اور ان سے حسن فاروق کے کوئی عرب استاد یا کلاس فیلو ملتے اور حسن فاروق کا تذکرہ ہوتا تو وہ ہمیشہ ان کی تحسین کرتے۔
دو تین مرتبہ مولانا خلیل حامدی صاحب کے ساتھ مجھے بھی سعودی عرب کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک آدھ جگہ پر کسی مجلس میں پاکستان سے جماعت اسلامی کی طرف سے بھیجے گئے طلبہ کا تذکرہ ہواتو بڑی خوشی ہوئی کہ حسن کی حسین و معطر یادیں وہاں کی محفلوں میں زندہ وموجود تھیں۔ بلاشبہ ان کے تعارف میں میاں طفیل محمدؒ کا صاحبزادہ ہونا بھی ایک مثبت نکتہ (Plus Point) تھا۔ میاں حسن فاروق کو تعلیم کے بعد سعودی عرب میں ملازمت کے مواقع حاصل تھے مگر آپ نے مولانا خلیل حامدیؒ کی ہدایات کے مطابق سعودی عرب میں قیام کے بجائے جماعت کے مرکز میں اپنی خدمات پیش کر دیں۔ حسن فاروق سے مولانا حامدی صاحب نے پوچھا کہ ان کا کیا معاوضہ مقرر کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ میں معاوضے کے لیے یہاں نہیں آیا، جماعت جو بھی اعزازیہ طے کرے گی، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ جو اعزازیہ مقرر ہوا، اس پر مرحوم نے کام شروع کر دیا اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا۔ آپ کو مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں سونپی گئیں جن کو آپ نے پوری توجہ اور یک سوئی کے ساتھ انجام دیا۔
بھلے وقتوں میں مرکز جماعت اسلامی کے تحت مختلف شعبے قائم کیے گئے تھے جو الحمدللہ اب بھی بھرپور طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں۔ شعبہ یتامیٰ کے لیے اندرون و بیرونِ ملک سے فنڈز اکٹھے کیے جاتے تھے اور بڑی جزرسی اور ذمہ داری کے ساتھ یہ مستحقین تک پہنچائے جاتے تھے۔ مرکزی مالیات اور شعبے کے دفتر میں ان کا پورا ریکارڈ بھی رکھا جاتاتھا۔ بے شمار یتیم بچوں، بچیوں اور ان کی بیوہ مائوں کو ہر ماہ امداد دی جاتی تھی۔ اسی طرح شعبہ مساجد و مدارس بھی کافی متحرک تھا۔ اس کے تحت ملک کے کئی دور دراز علاقوں میں مساجد و مدارس قائم کیے گئے۔ ان کی تعمیر کے بعد اس شعبے کے تحت مخیر حضرات کی مالی معاونت سے ان میں سے کئی اداروں کو ان کے مالی بجٹ کے لیے سالانہ مالی معاونت فراہم کی جاتی۔ ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جاتا۔
حسن فاروق ان شعبوں کے نگران وذمہ دار رہے اور طویل عرصے تک بڑی محنت سے اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ حسن فاروق صاحب کے ساتھ ان کے دفتر میں ان کے رفیق کار جناب صلاح الدین حنیف نے ان کی وفات کے بعد ان کے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے جس سے ان کی شخصیت کی عظمت دوبالا ہو جاتی ہے۔ سینکڑوں مساجد‘ جو مرحوم نے مخیر حضرات کے تعاون سے تعمیر کرائیں‘ ان سب کا ریکارڈ ان کے پاس محفوظ تھا۔ کئی مقامات پر وہ صلاح الدین صاحب کو اپنے ساتھ لے کر مساجد اور مدارس کا معائنہ کرنے نیز ماہ رمضان میں مخیر حضرات کی طرف سے افطاری پروگراموں کی نگرانی کرنے کے لیے تشریف لے جاتے۔ ہر جگہ وہ متعلقہ لوگوں سے یہی سوال کرتے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے جماعت کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں، کتنے لوگ جماعت کے ساتھ وابستہ ہوئے ہیں اور ان میں سے کتنے رکن بنے ہیں؟ یہ ہے اصل تحریکی سوچ اور فکر!
صلاح الدین حنیف صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جن یتامیٰ کے وظائف لگے ہوئے تھے، حسن بھائی خود انہیں مرکزی مالیات سے ادائیگیاں کراتے اور جن کے وظائف کسی وجہ سے مرکز سے بند ہو جاتے ان کے لیے مختلف مخیر حضرات سے رابطے کر کے ذاتی طور پر ان کی مدد کرتے۔ جب کوئی یتیم یا بیوہ ان کے پاس مطالبہ لے کر آ جاتے اور امداد کے لیے کوئی صورت نہ بن سکتی تو ان سے بہت دھیمے انداز اور پیار بھرے لہجے میں معذرت کرتے۔ بقول صلاح الدین صاحب کہ جب وہ درخواست گزار بار بار اصرار کرنے لگتے تو مجھے کہتے کہ آپ ان کو سمجھائیں۔ خود ان کا ہمیشہ یہ رویہ رہا کہ قرآن کے اس حکم پر پوری طرح عمل کرتے۔ فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْOوَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَر۔(سورہ الضحیٰ: 9 تا 10) ترجمہ: ''پس یتیم پر سختی کبھی نہ کرو اور نہ سائل کو کبھی جھڑکو‘‘۔
منصورہ میں مرکزی دفاتر اور جماعتی فلیٹس، نیز عام گھروں میں رنگ روغن کا کام ایک ہنرمند پینٹر بابا قربان علی اور ان کے معاون اختر شاہ کیا کرتے تھے۔ قربان علی کے تو بیوی بچے نہیں تھے، مگر اختر شاہ کے بیوی بچے تھے۔ وہ بے چارہ ایک روز منصورہ میں اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچا تو روزہ افطار کرنے کے بعد طبیعت بہت خراب ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کی اہلیہ ہمیشہ اس سے کہتی تھی کہ اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟ کوئی جمع پونجی یا وسیلہ و ذریعہ آمدنی نہیں ہے، میرا اور میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ وہ جواب میں کہتا ''اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میاں حسن فاروق ہے۔ وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔
اس مزدور کی وفات کے بعد جب بیوہ کی عدت کے ایام پورے ہوئے تو یہ خاتون منصورہ میں آئی اور حسن فاروق صاحب سے ان کے دفتر میں ملی۔ اس نے جب اپنے میاں کی بات بتائی تو دفتر کے سب ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حسن صاحب نے اس خاندان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ صلاح الدین حنیف صاحب نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو اس وقت بھی وہ بے ساختہ رونے لگے۔
کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved