کسی شہر کا ایک بڑا تاجر صبح کی سیر کے بعد جونہی باغ سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا‘ ایک نوجوان آدمی مسکین سی صورت بنائے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کی ظاہری حالت اور چہرے پر چھائی ہوئی نقاہت کو دیکھ کر تاجر کا دل پسیج گیا‘ قریب بلا کر کہا: شکل سے تم فقیر اور پیشہ ور گداگر تو نہیں لگتے‘ کیا وجہ ہوئی کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے لگے ہو؟ سرجھکائے ہوئے نوجوان نے کہا: جناب میں سال بھر سے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں‘ جگہ جگہ درخواستیں دیں لیکن بد قسمتی سے ابھی تک ناکام رہا ہوں۔ گھر سے جو کچھ لے کر شہر آیا تھا‘ ختم ہو گیا اور اب سوائے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے کوئی چارہ نہیں رہا۔ اگر آپ مجھے نوکری دلوا دیں تو میں بھیک مانگنا چھوڑ دوں گا۔تاجر اس کی بات سن کر مسکرایا اور کہا: میرے پاس تمہارے لیے نوکری تو نہیں لیکن تمہاری بہتری کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔ ’’کیا تم میرے بزنس پارٹنر بننا پسند کرو گے؟‘‘ نوجوان کو تاجر کی بات سمجھ نہ آئی اور ہکلا کر بولا: جناب آپ نے کیا کہا؟ تاجر نے کہاکہ میں اگلے چند دنوں میں چاول بیچنے کا کاروبار شروع کرنے والا ہوں جس میں تمہیں اپناحصے دار بنانا چاہتا ہوں۔ کیا تم اس کاروبار میں میرے حصہ دار بنو گے؟ نوجوان نے منمناتے ہوئے کہا: جناب میرے پاس تو دس بیس روپوں کے سوا کچھ بھی نہیں‘ میں اتنے بڑے کاروبار کا حصہ دار کس طرح بن سکتا ہوں‘ آپ اگر مجھے اس کاروبار میں نوکری ہی دے دیں تو یہی میرے لیے بہت ہو گا۔ تاجر اسے گھر لے آیا۔ ناشتہ کرانے کے بعد اسے بتایا: اس بار میں نے وسیع رقبے پر چاول کاشت کیا ہے‘ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے یہ چاول بیچو۔ میں تمہیں مارکیٹ میں سٹال کرایہ پر لے دوں گا‘ تمہیں چاولوں کی بوریاں ملتی رہیں گی جنہیں تم محنت سے بیچتے رہو گے‘ تمہیں اگلے تیس دن کیلئے روزانہ کی بنیاد پر کھانے پینے کے اخراجات ادا کیے جاتے رہیں گے‘ ہر مہینے جو منافع حاصل ہو گا وہ ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ یہ سنتے ہی خوشی اور تشکر سے نوجوان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے تاجر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اﷲ نے آج آپ کی صورت میں میری سب دعائیں قبول کرتے ہوئے مجھے ایک فرشتے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے‘ آپ بے شک اس دنیا کے انسان نہیں لگتے بلکہ جنت کے فرشتے کی صورت میں اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔آپ کا یہ احسان میری آنے والی نسلیں بھی اتارتی رہیں تو اتار نہ سکیں گی‘‘۔ تاجر نے کہا: جانتے ہو‘ ہر ماہ ملنے والا منا فع کس طرح تقسیم ہو گا؟ نوجوان نے یہ سنتے ہوئے سوچا کہ اس منافع کا اگر نوے فیصد تاجراور دس فیصد مجھے ملے تو مزہ آجائے گا‘ بلکہ اس منافعے کا پچانوے فیصدتاجر اور پانچ فیصد مجھے مل جائے تو بھی مجھے منظور ہو گا۔ تاجر نے جب اسے بتایا کہ ہر ماہ ملنے والے منافعے کا90 فیصد تمہارا اور دس فیصد میرا ہو گا تو نوجوان کو لگا کہ اب تک جو ہوا وہ رئیسِ شہر کا اس سے وقتی مذاق تھا۔ وہ جلدی سے کھانے والی کرسی سے اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا: جناب والا مجھے اب اجا زت دیں‘ آپ کے ناشتے کا بہت بہت شکریہ۔ تاجر نے اس سے پوچھا: کیا تمہارا بزنس پارٹنر کی حیثیت سے میرے ساتھ کام کرنے کا ارادہ بدل گیا ہے؟ لگتا ہے تمہیں گداگری ہی اچھی لگتی ہے۔نوجوان نے ہکلاتے ہوئے کہا: جناب کہیں آپ یہ سب مذاق تو نہیں کر رہے؟ آپ نے منافع کی تقسیم کی جو نا قابل یقین اور حیران کن پیشکش کی ہے‘ وہ سننے کے بعد مجھے توا بھی تک اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا؟ یہ سن کر تاجر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا: اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تمہارے لئے ایک باعزت اور منا سب روزگار کا بندو بست ہو‘ میں تم سے حاصل ہونے والے منا فع کاصرف دس فیصد ہی وصول کیاکروں گا‘ اس کے بدلے میری صرف ایک ہی شرط ہے کہ بس تم محنت اور ایمانداری سے کاروبار کرتے رہنا۔ نوجوان گداگر نے عاجزی اور انکساری سے اس کے قدموں میں جھکتے ہوئے کہا میں اﷲ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آپ ہمیشہ مجھے ایک محنت کرنے والا‘ ایماندار اور ہر وقت اپنا وفادار پائیں گے۔ رئیس شخص نے اس کیلئے شہر کی مارکیٹ میں اچھی سی دکان اور ایک گھر لے کر اس میں ضرورت کا سب سامان مہیا کرتے ہوئے اسے چار پانچ جوڑے اچھے کپڑوں کے بھی لے کر دیے تاکہ وہ با عزت طریقے سے مارکیٹ میں بیٹھ سکے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نوجوان کی سخت محنت اور توجہ سے چاولوں کا کاروبار آگے بڑھنے لگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ چاول کی کوالٹی مارکیٹ کے حساب سے بہت بہتر تھی اور دوسرے وہ ہر روز صبح صبح اٹھ کر مارکیٹ پہنچ جاتا‘ اپنی دکان کو صاف شفاف اور درست حالت میں رکھتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیس دن گزر گئے اور طے شدہ معاہدے کے تحت گداگر کو نوے فیصد اور تاجر کو دس فیصد منافع ملا۔ چھ ماہ بعد چاول بیچنے سے حاصل ہونے والا منا فع حیران کن حد تک زیا دہ تھا۔ جب نوجوان کرنسی نوٹوں کو گن رہا تھا تو اسے نوٹوں کے ڈھیر کے لمس نے مسحور کر کے رکھ دیا اور اس کے دل میں خیا ل آیا کہ وہ صبح سویرے اٹھتا ہے‘ دکان کی صفائی کرتا ہے اور سارا سارا دن مارکیٹ میں گھوم پھر کر اپنا مال بیچنے کیلئے محنت کرتا ہے‘ آج چھ ماہ گزر گئے ہیں‘ ایک دن بھی یہ تاجر دکان پر نہیں آیا لیکن پھر بھی گھر بیٹھے مجھ سے دس فیصد لینے پہنچ جاتا ہے‘ اصولی طور پر یہ سب میری محنت کا ثمر ہے اور مجھے سو فیصد منافع رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ اُس مہینے کی آخری شام تک جب دس فیصد منا فع تاجر کے پاس نہ پہنچا تو اگلی صبح اس نے نوجوان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نوجوان نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے تاجر کو دیکھتے ہی تیزی سے بولا: محنت سارا دن میں کرتا ہوں‘ آپ تو ان چھ ماہ میں ایک دن بھی دکان پر نہیں آئے‘ اس لیے آپ کا دس فیصد حصہ لینے کا کوئی حق نہیں بنتا‘ آج سے سارے منا فعے کا حق دار میں خود ہوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا۔ تاجر حیران کھڑا زور سے بند ہونے والے دروازے کی گونج سنتا رہا اور پھر چپ چاپ واپس لوٹ گیا۔ اگر آپ میں سے کسی کے ساتھ اس تاجر جیسا سلوک ہو تو آپ کی کیفیت کیا ہو گی؟ آپ کو منا فع کا دس فیصد بھی نہ دینے والے شخص کے بارے میں کیا رویہ ہو گا؟ ہمارے پاس آج جو کچھ بھی ہے یہ سب اﷲ کی ذات کا عطا کیا ہوا ہے اور اﷲ جو ہمارا بز نس پارٹنر ہے اس نے ہمیں صحت مند جسم دیا‘ ہمیں چلنے پھرنے کے قابل کیا‘ ہمارے لیے نہ جانے کہاں کہاں کی نعمتیں مہیا کیں اور اس کے بدلے میں وہ ہم سے ان سب نعمتوں کا صرف دس فیصد مانگتا ہے۔ اﷲ کے حصے کا دس فیصد یہی ہے کہ اس کی مخلوق کو کسی بھی حال میں تنگ نہ کرو۔ ہم سب ادھر ادھر آگے پیچھے دیکھیں‘ کیا ہم سب اس گدا گر کی طرح نہیں ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved