تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-01-2023

توشہ خانہ اورجعلی اکائونٹس

عمران خان کے ناقدین جب بھی توشہ خانہ کی گھڑی کی فروخت پر بات کرتے ہیں تو ایک بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ گھڑی پر مقدس تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس بیانیے کا استعمال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گویا مقاماتِ مقدسہ کی تصویر والی کوئی چیز فروخت کرنا زیادہ بڑا جرم ہے۔ لیکن ناقدین‘ جو آج کل اٹھتے بیٹھتے عمران خان پر تنقید کرتے رہتے ہیں‘ ان سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ کیا مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر والی اشیا بیچنا ہی جرم ہے یا وہاں بیٹھ کر یہ کہنا کہ پرویز مشرف سے کوئی معاہدہ نہیں کیا؟ یا پھرمقدس مقامات پر اپنے مقدمات کو ''سیٹل‘‘ کرنے کی کوششیں کرنا؟ جب شریف فیملی کی جانب سے مشرف سے ہوئے معاہدے کا اقرار کیا گیا تو پہلے کہا گیا کہ پانچ سال کا معاہدہ کیا تھا لیکن پھر سب کے سامنے سعودی شہزادے نے وہ معاہدہ دکھا دیاجس پر دس سال کی مدت درج تھی۔ چارو ناچار دس سالہ معاہدے کاا قرار کیا تو جواز یہ تراشا کہ جیل میں بند قیدی اور حاکمِ وقت کا کیسا معاہدہ؟ یہ تو بس ایک ''حکم نما دستاویز‘‘ تھی جس پر زبردستی دستخط لیے گئے۔ مقدس سرزمین سے قوم کو جھوٹ پر جھوٹ سنائے جا سکتے ہیں مگر توشہ خانہ سے قیمت دے کر خریدی گئی گھڑی نہیں بیچی جا سکتی۔ جو لوگ گھڑی کی فروخت پر اعتراض کرتے ہیں‘ ان سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ سعودی عرب کی کرنسی پر بھی تو مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر ہیں‘ ان کے بارے کیا خیال ہے؟
ہر وقت توشہ خانہ‘ توشہ خانہ کی گردان کرنے والوں کو جب موقع ملا کہ توشہ خانہ کا کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچاتے اور حقائق قوم کے سامنے لاتے تو اس وقت انہوں نے چپ سادھ لی۔ جب عدالت عالیہ نے کیبنٹ ڈویژن سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے توشہ خانہ کی مکمل تفصیلات مانگیں تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہاکہ میرے خیال سے 1990ء سے پہلے کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں۔اس سے قبل ایک شہری کو توشہ خانہ کا ریکارڈ فراہم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ 2017ء کے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے دائرۂ کار میں نہیں آتا۔ عدالت میں وفاقی حکومت کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات خفیہ ہیں‘ تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ جب ٹیکس ریٹرنز میں تحفہ ظاہر ہو گیا تو پھر کیسے خفیہ رہ سکتا ہے؟ آپ تفصیلات پیش کریں‘ یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے کہ یہ معلومات خفیہ ہیں یا نہیں۔ اب عدالت کی جانب سے 16 جنوری تک حکومت کو تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھیے کیا سامنے آتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اور شیخ رشید احمد تو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اگر توشہ خانہ پر ریفرنس بنانے ہیں اور نااہل کرنا ہے تو پھر پوری پی ڈی ایم ہی نااہل ہو جائے گی۔حکومت کو اب راہِ فرار اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر عمران خان نے توشہ خانہ کے تحفوں میں کوئی ہیر اپھیری کی ہے تو سارا ریکارڈ سامنے لائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک کے تمام ریکارڈ اور تفصیلات کو سامنے لے آئیں تاکہ دنیا کے سامنے سچ اور جھوٹ واضح ہو جائے اور لوگ دیکھ لیں کہ توشہ خانے کا اصل مجرم کون ہیں؟
توشہ خانہ تو ایک چھوٹا سا معاملہ ہے‘ اہلِ وطن کی یادداشت میں تو ابھی وہ مناظر بھی محفوظ ہیں جب کہیں کسی فالودے والے‘ کسی پاپڑ والے، کسی سائیکل مکینک‘یا بڑے بڑے محلات میں چھوٹے موٹے کاموں پر مامور افراد کے نام پر کھولے گئے بینک اکائونٹس سے کئی کئی ارب روپے کی ٹرانزیکشن کی کہانیاں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ جس نے بھی یہ سکینڈل سنا‘ ششدر رہ گیا۔ کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جن کے نا موں پر جعلی اکائونٹس کھولے گئے تھے‘ ان کے ناموں اور حالاتِ زندگی کی جب ملکی میڈیا پر تشہیر شروع ہو ئی جہاں وہ افراد رہتے تھے جن کے نام سے ایک‘ دو بلکہ چار چار ارب روپے تک کی ترسیلاتِ زر کی گئی تھیں‘ان کو اور ان کے گھروں کو دیکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ بتایا جا رہا تھا کہ یہ ہیں وہ گھرجو غربت کی ایسی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں دو وقت کی روٹی کیلئے جد وجہد کرنے والے ہڈیوں کے ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں‘اربوں‘ کروڑوں تو دور‘ انہوں نے تو کبھی ایک لاکھ بھی اکٹھے نہیں دیکھے ہوں گے۔ ان جعلی اکائونٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ جیسے ہی منظرِ عام پر آئی تو پس پردہ قوتوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑنا شروع ہو گئے کہ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ اب اپنے بچائو کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اپنے پورے لائو لشکر اور لاتعداد وسائل کے ساتھ عمران حکومت پر پل پڑیںکیونکہ وہ جان چکے تھے کہ اگر حکومت کا تختہ نہ الٹا گیا تو ان کے نیچے سے سیا ست کا تخت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھینچ لیا جائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے اقتدار ایک گہری اور بڑی سازش کے ذریعے چھینیا گیا اورلگتا نہیں کہ پس پردہ قوتیں‘ جو سٹیٹس کو کی نگہبان ہیں‘ کبھی عمران خان کو واپس آنے دیں گی، لیکن انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قوم اب ملکی وسائل لوٹنے والوں کے کڑے ا حتساب پر یکجا ہو چکی ہے۔ اگر ملک کو اس حال تک پہنچانے والے افراد کے احتساب کوسیا ست کی نذر کر دیا گیا تو یہ اس ملک اور اس کے غریب عوام کے ساتھ وہ ظلم ہو گا جس کی سزا نہ جانے انہیں کب تک بھگتنا پڑے ۔ یہ معاملہ صرف جعلی اکائونٹس یا چند ارب روپوں کا نہیں۔ یہ کہانی بیان کرتی ہے کہ اس ملک کو کس طرح لوٹا اورکھسوٹا گیا۔ جس طریقے سے ملک کا پیسہ باہر گیا اور جس جس نے لوٹا‘ یہ ساری باتیں‘ سب کے چہرے کسی مبالغے اور ملمع کاری کے بغیر اب سب کے سامنے آچکے ہیں۔حکومت سنبھالنے کے بعد سے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کا جو کام شروع ہوا‘ وہ لگ بھگ مکمل ہو چلا ہے۔ اسی لیے آئے دن کسی نہ کسی کو بری کیا جا رہا ہے۔ کسی کے مقدمات کو یہ کہہ کر واپس لیا جا رہا ہے کہ اب اداروں کو ان میں دلچسپی نہیں رہی یا متعلقہ قانون تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ آج تو ہو جائے گا لیکن یاد رکھیں کہ ہمیشہ کیلئے احتساب کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔
11500 جعلی بینک اکائونٹس اور ان اکائونٹس کو آپریٹ کرنے والے 924 افراد ‘ پھر مختلف بینکوں سے مشکوک افراد کے ناموں سے کی جانے والی 24500 ٹرانزیکشنز‘ یہ سب کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ان کے دستاویزی ثبوت اور بینک ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا جا چکا ہے۔ جعلی اکائونٹس کی جانچ پڑتال کرنے سے پہلے جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا تھاکہ صرف ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ٹرانزیکشنز کا جائزہ لیا جائے گا۔ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم نے پانچ مختلف بینکوں سے ملنے والے ریکارڈ کی روشنی میں 885 افراد کو تفتیش کیلئے طلب کیا لیکن 767 افراد ہی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور118 غائب ہو گئے۔ ایف آئی اے نے بینکنگ جرائم کے الزام میں 6 جولائی2018ء کوپانچ افراد کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر اس کیس کو مختلف حیلے بہانوں سے لٹکایا جانے لگا، کبھی افسران کے تبادلے، کبھی تحقیقات میں سست روی۔وہ کون سی شخصیت ہے‘ جس کے ایک کروڑ 20 لاکھ اور ایک کروڑ 50 لاکھ کے بلز جعلی بینک اکائونٹس سے ادا کیے گئے۔ کس شخصیت کے پالتو جانوروں اور صدقے کے 28 بکروں کے اخراجات ان اکائونٹس سے ہوئے‘ کراچی اور لاہور کے کون سے سیاسی مراکز کے اخراجات جعلی اکائونٹس سے کیے گئے‘ یہ سب کچھ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔ ایک ایسے ہی ہائی پروفائل کیس میں مطلوب چار افراد 'ہارٹ اٹیک‘ سے وفات پا چکے ہیں جبکہ اس سارے کیس کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان‘ جنہیں رجیم چینج کے فوری بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا‘ وہ بھی پُراسرار حالات میں انتقال کر گئے۔ کیس سے متعلقہ افراد کو راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے مگر اصل چیز تو وہ رپورٹ ہے جو عدالت میں جمع کرائی گئی اور جس میں بینکوں کی ٹرانزیکشنز کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ کسی بھی بینک کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشن ایسا ثبوت ہوتا ہے جسے کوئی بھی قانون جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ یہ ریکارڈ خود بولتاہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved