تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-01-2023

مشوروں اور تجاویز سے آگے

مسائل کس کے لیے ہیں؟ آپ کہیں گے ہر انسان کے لیے۔ بالکل درست! بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس کے حصے میں مسائل نہ آئے ہوں یا کوئی ایک بڑا مسئلہ زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا نہ ہوا ہو۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ کسی بھی پریشانی کو محض پریشانی سمجھنے میں اور چیلنج کا درجہ دینے سے کیا فرق واقع ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی سطح پر لوگ کسی بھی مسئلے سے محض الجھ جاتے ہیں۔ ہر مسئلہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اُسے الجھن میں تبدیل کیا جائے۔ اگر کوئی سوئچ خراب ہو جائے تو جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُسے قبول کرتے ہوئے نیا سوئچ لگانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ گھر کے کسی اور نظام میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اُس پر خواہ مخواہ پریشان ہونے کے بجائے اُسے دور کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔
عام آدمی جب بھی کوئی پریشان کن صورتِ حال دیکھتا ہے اور اپنے سامنے کسی مسئلے کو پاتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور اُسے حل کرنے کے بجائے اُس سے نظر چرانے لگتا ہے۔ کوئی بھی مسئلہ اصلاً تو اس لیے ہوتا ہے کہ اسے حل کرکے زندگی آسان بنائی جائے۔ زندگی ہم سے بہت سے معاملات میں قربانی مانگتی ہے۔ مسائل قربانی ہی کی متبادل شکل ہیں۔ بعض افراد کے لیے ہر مسئلہ خدا کی طرف سے بھیجی جانے والی آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں پورا اترنے کا صلہ بھی طے کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ یہ وعدہ یاد رہے تو انسان کسی بھی مسئلے سے نہ گھبرائے اور جب بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو حوصلہ ہارے بغیر اور امید کو پروان چڑھاتے ہوئے آگے بڑھنے کی سوچ اپنائے۔ عمومی سطح پر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ کسی بھی دشواری کو زندگی کی سب سے بڑی دشواری گردانتے ہوئے اُس سے چشم پوشی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ بعض اوقات چند چھوٹے مسائل مل کر زندگی کو کسی بڑی الجھن سے دوچار کردیتے ہیں۔ کوئی بھی پریشان کن صورتِ حال برقرار رکھی جائے تو ذہن کو الجھاتی رہتی ہے۔ اُسے دیکھ دیکھ کر انسان محض کُڑھتا رہتا ہے۔ یہ کُڑھن کام کرنے کی لگن، صلاحیت اور سکت‘ تینوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مسائل کو یونہی نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ اُنہیں حل کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے ؎
ہر پھول کی تقدیر میں گل داں نہیں ہوتا
ہر شخص مقدر کا سلطاں نہیں ہوتا
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا
بات کچھ یوں ہے کہ ہم زندگی بھر مختلف النوع الجھنوں سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ الجھنیں صرف ہماری پیدا کردہ نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھی دوسروں کے ہاتھوں ہمیں بہت کچھ سہنا پڑتا ہے اور کبھی اچانک حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا اور کوئی بھی بات ایک بڑا مسئلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ حالات کے ہاتھوں پیدا ہونے والی الجھنوں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا یعنی ہم انہیں پیدا ہونے سے نہیں روک سکتے۔ جب کسی کو پیدا ہونے سے روکنا ہمارے اختیار ہی میں نہ ہو تو پھر اُس کے بارے سوچنا اور تاسّف کا مظاہرہ کیوں؟ پچھتاوا اپنی کوتاہیوں پر ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کی دی ہوئی الجھنوں پر۔
کسی بھی معاشرے میں عمومی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل ہم سے فوری توجہ چاہتے ہیں۔ مسائل کو اُن کے عہدِ طفلی ہی میں شناخت کرنا چاہیے۔ کوئی بھی مسئلہ جس قدر جلد سمجھ لیا جائے گا وہ اُتنی ہی تیزی سے حل بھی کر لیا جائے گا۔ جب ہم کسی بھی مسئلے کو اُس کے ابتدائی مرحلے میں شناخت کر لیتے ہیں تو سمجھنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ لوگ یہی غلطی بار بار کرتے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو اُس پر متوجہ نہیں ہوتے اور اُسے شناخت کرنے میں دیر لگاتے ہیں۔ جب شناخت کرنے میں دیر ہو جاتی ہے تو مسئلے کو سمجھنے میں بھی دیر لگتی ہے۔ یوں معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بڑی عمومی الجھن یہ بھی ہے کہ لوگ پیچیدہ تر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی آسرے کا منتظر رہنے کی ذہنیت انسان کو رفتہ رفتہ انتہائی نوعیت کی پیچیدگیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کا سامنا اول و آخر خود ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ اگر مسائل اپنے پیدا کردہ ہوں تو کسی اور کو اُن کے حل سے بھلا کیا غرض ہو سکتی ہے؟ مسائل اگر حالات کے پیدا کردہ ہوں تو سبھی کے لیے ہوتے ہیں۔ پھر بھلا کوئی اپنی الجھنوں کو چھوڑ کر آپ کی الجھنیں دور کرنے پر کیوں متوجہ ہوگا؟ اگر کسی نے آپ کے لیے دانستہ کوئی مشکل صورتِ حال پیدا کی ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کا ساتھ دے؟ پہلے مرحلے میں تو آپ کو خود ہی اُس فرد سے نمٹنا ہوتا ہے جس نے مسائل پیدا کیے ہوں۔ اِس کے بعد ہی آپ کسی سے تھوڑی بہت توجہ، خلوص یا مدد کی توقع وابستہ کرسکتے ہیں۔
کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہونے پر یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اُس سے نجات پانے کے لیے حتمی تجزیے میں جو کچھ بھی کرنا ہے آپ ہی کو کرنا ہے۔ مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔ مشوروں سے ایک قدم آگے جاکر باضابطہ تجاویز پیش کرنے والوں کا معاملہ بھی یہ ہے کہ ایک ڈھونڈو‘ ہزار ملتے ہیں۔ مشورے دینے میں کچھ خرچ ہوتا ہے نہ تجاویز پیش کرنے میں۔ کسی سے مشورہ مانگئے تو وہ سوچے بغیر شروع ہو جائے گا۔ کسی بھی موضوع پر کسی دوست یا رشتہ دار سے مشورہ کرکے دیکھیے اور پھر کسی باضابطہ تربیت یافتہ ماہر سے مشورہ کیجیے۔ فرق آپ پر ظاہر ہو رہے گا۔ جو لوگ کسی بھی شعبے میں خصوصی تربیت پانے کے بعد سند حاصل کرکے مشیر کی حیثیت سے کام شروع کرتے ہیں اُن میں اور مشوروں کا دریا بہانے والے عام آدمی میں زمین آسان کا فرق ہوتا ہے۔ عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی کی مشکل کس نوعیت کی ہے۔ اُسے تو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ کسی نے مشورہ طلب کیا ہے تو مشورے سے نواز دیا جائے۔ وہ سوچتا ہی نہیں کہ جو مشورہ وہ دے رہا ہے کہ اُس پر عمل کرنا متعلقہ فرد کے لیے کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں لوگ اپنے مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دیتے اور دوسروں کو مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ پسماندہ بستیوں میں رہنے والے بھی اچھے علاقوں میں رہنے والوں کو وہاں سے نکلنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ مشورے کے نام پر لوگوں کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ یہ بھی مزاج اور نفسی ساخت کی کجی ہی کی ایک شکل ہے۔ جو لوگ خود خوش نہیں رہتے وہ دوسروں کو بھی خوش نہیں دیکھنا چاہتے اور اُنہیں مشوروں سے نوازنے کے نام پر محض گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی یہ کہتا ہوا ملے گا کہ کام پر جانے میں زیادہ الجھن ہے یعنی روزانہ موٹر سائیکل پر پچیس‘ تیس کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے تو اپنا مکان کرائے پر دے کر دفتر کے نزدیک کوئی مکان کرائے پر لے لیجیے تاکہ آنے جانے کے جھنجھٹ سے بچا جا سکے۔ یہ مشورہ بظاہر بہت معقول ہے مگر در حقیقت وہ شخص سہولت پیدا نہیں کرنا چاہتا بلکہ فریقِ ثانی کی زندگی میں الجھن پیدا کرنا چاہتا ہے۔ خود تیس‘ پینتیس سال سے کام کے سلسلے میں یومیہ ستر‘ اسی کلو میٹر کا سفر کیا ہوا ہوگا مگر دوسروں کو محض سال‘ دو سال میں یہ مشورہ دینے بیٹھ جائے گا۔ اگر کسی کی تکلیف نہیں دیکھی جارہی تو پہلے اپنی تکلیف دور کرے تاکہ مثال قائم ہو۔
مشاورت ہر ایک سے نہیں کی جاتی۔ تجویز بھی ہر ایک کی نہیں مانی جا سکتی۔ اگر بچے کے مستقبل کے لیے کوئی بات کرنی ہے تو متعلقہ امور کے ماہر سے کیجیے۔ بیمار پڑنے پر ڈاکٹر سے رائے لی جاتی ہے نہ کہ پڑوسی سے۔ اِسی طور کسی بھی بڑی الجھن کو سلجھانے کے لیے متعلقہ امور کے ماہر سے رابطہ کیا جانا چاہیے۔ مسائل کے حل کی راہ نکالنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved