تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     04-01-2023

کہاں گئے وہ مرے آس پاس رہتے تھے

کبھی کبھی پرانی راہیں ہمیں اپنی طرف بلاتی ہیں اور ہم زندگی کی مصروفیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے ماضی کی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میں کراچی گیا تو دل کے ایک گوشے سے آواز آئی کیوں نہ انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (IED) جاؤں اور اس عمارت کو دیکھوں جہاں میں نے زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ آغا خان یونیورسٹی کا حصہ تھا اور تربیتِ اساتذہ کا معروف ادارہ تھا۔ میں 1996ء میں اس ادارے سے وابستہ ہوا اور 1999ء تک یہاں کام کرتا رہا۔ تین سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کے ساتھ ساتھ درو دیوار سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ بہت جلد میں یہاں کے ماحول کا حصہ بن گیا۔ اس وقت IED کی سربراہی ڈاکٹر کاظم بیکس (Kazim Bacchus) کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ایلن ویلر (Alen Wheeler) ڈائریکٹر اکیڈیمک اور ڈاکٹر صدرالدین پردھان ڈائریکٹر آوٹ ریچ (Outreach) تھے۔ یہ IED کے ابتدائی سالوں کی بات ہے جب یہاں طلبہ اور اساتذہ کی تعداد محدود تھی لیکن اس مختصر عرصے میں ہی اس ادارے نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنا لی تھی۔
یہاں کے طلبہ اور اساتذہ کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ یوں کلاس روم میں ایک مثبت مقابلے کی فضا ہوتی اور مختلف ممالک کی ثقافتوں کی نمائندگی بھی ہوتی۔ اس ادارے میں میری بنیادی ذمہ داری انگلش فیکلٹی کی رہنمائی تھی۔ یہ ایک مختصر سی ٹیم تھی جس میں فاروق کنور‘ عائشہ بشیرالدین‘ فوزیہ قریشی اور محمد اقبال شامل تھے۔ اس مختصر ٹیم کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ہم سب ایک ہی کار میں سما جاتے۔ اس زمانے میں میرے پاس سفید رنگ کی شیراڈ گاڑی تھی۔ فارغ اوقات میں اس گاڑی پہ ہم کبھی کلفٹن‘ کبھی جاوید نہاری‘ کبھی طارق روڈ اور کبھی یونیورسٹی روڈ پر واقع شمع ریستوران پر چلے جاتے۔ یوں یہ ایک مختصر سی فیملی تھی۔ میرے آفس سے متصل ڈاکٹر میمن کا دفتر تھا۔ ڈاکٹر میمن ایک سیلف میڈ انسان تھے‘ اپنی محنت کی بدولت یہاں تک پہنچے تھے۔ ڈاکٹر میمن کا مضمون ایجوکیشنل لیڈر شپ تھا۔ نہ صرف ہم گہرے دوست تھے بلکہ IEDکے چند یادگار پروگرامز ہم نے مل کر ڈیزائن کیے اور پڑھائے۔ ان میں ایم ایڈ کا ایک ماڈیول Reconceptualization شامل تھا جسے ہم دونوں مل کر پڑھاتے تھے۔ اسی طرح بلوچستان کے پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تربیت کیلئے بھی جو پروگرام تشکیل دیا گیا اس میں بھی ہم دونوں کا مرکزی کردار تھا۔ ہماری سینئر فیکلٹی میں ڈاکٹر میمن کے علاوہ ڈاکٹر عفت فرح‘ ڈاکٹر مہرو اور ڈاکٹر یاٹا کانو شامل تھے۔ جلد ہی انگلش ٹیم میں فاروق کنور کا اضافہ ہو گیا۔ ان کا تعلق پنجاب کے علاقے خانیوال سے تھا۔ ہنس مکھ اور زندگی کی رعنایوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے۔ کچھ عرصے بعد پشاور یونیورسٹی سے عائشہ بشیرالدین نے بھی ہمیں جائن کر لیا۔ وہ انگریزی ادب کی استاد ہونے کے علاوہ آرٹسٹ بھی تھیں۔
چند ہفتوں بعد کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل فوزیہ قریشی بھی انگلش ٹیم کا حصہ بن گئی۔ فوزیہ قریشی کو انگریزی اد ب کے ساتھ ساتھ اردو شاعری سے بھی خاص لگاؤ تھا۔ فوزیہ کے بعد اقبال ہماری ٹیم کا حصہ بنا۔اقبال برمنگھم سے آیا تھا لیکن بودوباش میں مکمل دیسی تھا۔ اسی دوران یہاں کی فیکلٹی میں ایک اور اہم اضافہ ہوا۔ یہ فوزیہ رضا تھی جس کا بنیادی مضمون تو انگریزی تھا لیکن اس نے برطانیہ سے ایجوکیشنل لیڈرشپ میں ڈگری لی تھی۔ فوزیہ سے میرا تعارف پہلے سے تھا جب وہ ایچ ای سی میں ایک ٹریننگ کر رہی تھی اور میں ریسورس پرسن کے طور پر وہاں پڑھاتا تھا۔ فوزیہ کو ٹیلی پیتھی اور اسی طرح کے علوم میں خاص دلچسپی تھی ۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سامنے انگلش ڈیپارٹمنٹ آباد ہو گیا ۔اب سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہIED میں گزارے تین سال میری پیشہ ورانہ زندگی کے اہم ترین سال تھے۔
انگریزی کے کورسز ہم یونیورسٹی آف ٹورونٹو کی فیکلٹی سے مل کر پڑھاتے تھے۔ اسی طرح سائنسز کے کورسز مقامی فیکلٹی ممبرز یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی فیکلٹی کے ساتھ مل کر پڑھاتے تھے ۔ان سب سرگرمیوں میں ہمارے ڈائریکٹر کاظم بیکس کا بنیادی کردار تھا۔ہمارے سب کورسز کا محور Refelctive Practiceکی فلاسفی تھی۔تین سال کے بعد مجھے لاہور کی یاد ستانے لگی اور میں بھرے میلے کو چھوڑ کر یہاں آ گیا۔ اس کے بعد دوستوں سے تعلق کبھی کبھار کے ٹیکسٹ میسجز تک رہ گیا۔اس دوران پتا چلتا رہا کہ وہاں کافی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ آج ایک طویل مدت کے بعد میں IED جا رہا تھا‘یہ کراچی کا ایک خوبصورت دن تھا‘ دسمبر کی نرم دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔IED کریم آباد میں واقع ہے۔ انہی مانوس راہوں پر جاتے ہوئے وہ سارے منظر میرے سامنے آگئے۔ یہی راستے تھے‘ یہی صبح و شام کے منظر تھے۔ میں ملیر کینٹ میں رہتا تھا اور وہاں سے یونیورسٹی روڈ کے راستے کریم آباد آیا کرتا تھا ۔ راستے میں اس علاقے کا معروف مُکا چوک آتا تھا کہتے ہیں یہ لیاقت علی خان کا مُکا تھا بعد میں اس کا تعلق ایم کیو ایم سے جوڑ دیا گیا۔ قریب ہی ایم کیو ایم کا مرکزی دفتر نائن زیرو تھا۔ میں ہر روز ان راہوں سے گزر کر IED کے گیٹ تک پہنچتا تھا۔ آج ایک مدت کے بعد دیکھا تو مُکا چوک کی صورت بدل چکی تھی‘ نائن زیرو کی رونقیں ماضی کا قصہ بن چکی تھیں۔
IED ایک وسیع کمپاؤنڈ میں واقع ہے۔ اس وسیع کمپاؤنڈ میں آغا خان کے دو سکول اور ایک کالج بھی واقع ہے۔ اس ادارے کے کشادہ بیرون گیٹ سے داخل ہوں تو دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ڈرائیور اور گارڈ رہتے تھے۔ گیٹ پر کھڑے گارڈ کو میں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا میں صرف وہ عمارت دیکھنے آیا ہوں جہاں میں کبھی پڑھاتا رہا ہوں اس نے سر سے پاؤں تک میرا جائزہ لیا۔ کئی سوال پوچھے اور اطمینان کرنے کے بعد مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ گیٹ سے داخل ہو کر سامنے جائیں تو دائیں ہاتھ خالی جگہ پارکنگ کے لیے مختص ہے بائیں ہاتھ اینٹوں سے بنا ایک طویل راستہ ہے جس کے دونوں طرف گھاس کے قطعے ہیں اور راستے کے ساتھ ساتھ کیاریوں میں پھول کھلے ہیں۔ اسی راستے پر چلتے جائیں تو بائیں ہاتھ آغا خان کالج کی عمارت آتی ہے ۔ یہ طویل راستہ جہاں ختم ہوتا ہے وہیں سامنے IED کی عمارت ہے۔ میں دو تین سیڑھیوں پر قدم رکھتا ہواIED کے علاقے میں آ جاتاہوں جہاں لکڑی کا ایک خوب صورت شیڈ (Shed) ہے جس پر سُرخ‘ نارنجی اور سفید رنگ کے بوگن ویلیا کے پھول جھانک رہے ہیں۔دائیں ہاتھ کیفے ٹیریا کی عمارت ہے۔ میں نے کیفے کا شیشے کا دروازہ کھولا‘ اندر کرسیاں اور میز اسی طرح پڑے ہیں۔ آج چھٹی کا دن ہے ۔ اِکا دُکا طالب علم کیفے ٹیریا میں نظر آ رہے ہیں۔ کیفے ٹیریا سے مجھے مائیکل یاد آگیا جو یہاں کا کرتا دھرتا تھا۔ اساتذہ اور طلبہ ایک لائن میں کھڑے ہو کر اپنا کھانا لیتے تھے اور مائیکل سفید رنگ کی یونیفارم میں اپنی ٹیم کو ہدایات دیتا نظرآتا۔میں نے مائیکل کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا اب وہ IED میں نہیں ہے۔ کیفے ٹیریا سے نکل کر اب میں عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوں ۔ بائیں ہاتھ ریسپشن آفس ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ٹینا (Tina) ریسپشنسٹ تھی۔ ہر دم متحرک اور ہنستی ہوئی ٹینا۔ لیکن اب یہاں ایک اور لڑکی بیٹھی ہے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بولی‘ کس سے ملنا ہے؟ میں نے کہا: کسی سے نہیں بس اس عمارت کو اندر سے دیکھنا ہے جہاں میں کبھی تین سال کام کرتا رہا۔ وہ کہنے لگی ‘اوہ! یہ تو بہت پہلے کی بات ہے۔ میں نے ہنس کر کہا: ہاں بہت پہلے کی بات ہے ۔ شاید پچھلے جنم کی۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved