تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دہراتی ہے کہ واقعات کا ایک تسلسل ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی ملک و معاشرے یا ہمارے اردگرد کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ان کا جائزہ لیتے ہی تاریخ اور ماضی کے چھپے ہوئے گوشے یک دم ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ 8 مارچ 2022ء کو وزیراعظم پاکستان عمران خان پر عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی۔ 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی قاسم سوری نے بطور قائم مقام سپیکر عدم اعتماد کی تحریک کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کی توثیق کی‘ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس بھیجی جس پر صدرِ مملکت نے فوری دستخط کر کے قومی اسمبلی کو تحلیل اور کابینہ کو ختم کر دیا۔ آئینی طور پر عمران خان کو نگران وزیراعظم کے قیام تک اپنے منصب پر مسند نشین رہنا تھا جس کے بعد ملک میں نئے عام انتخابات ہونا تھے مگر یہیں سے پی ڈی ایم نے ایک ایسا ٹرن لیا جسے آج ''رانگ ٹرن‘‘ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
پی ڈی ایم نے ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے اقدامات کو عدالت میں چیلنج کر دیا؛ اگرچہ اس سے قبل سردار ایاز صادق نے سپیکر کی کرسی سنبھال کر ایک علامتی اجلاس طلب کیا، جس میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرائی گئی اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اور اپوزیشن اتحاد کے ممبران کے ووٹوں سے عدم اعتماد کی تحریک 195 ووٹوں سے منظور کی گئی جس کے بعد 25 وفاقی وزرا، 4 وزرائے مملکت، 4 مشیروں اور 19 معاونین پر مشتمل وفاقی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ اس معاملے نے عدالت میں کیا رخ اختیار کیا‘ وہ کہانی سب کو معلوم ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر اس وقت عمران خان کے اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کے اعلان کو مان لیا جاتا تو پی ڈی ایم اور اس کے حامیوں کو کبھی بھی موجو دہ صورت حال کا سامنا نہ کرناپڑتا اور نہ ہی ان عناصر کے خلاف آوازیں اٹھتیں جن سے متعلق اب کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کا سہارا بنے ۔ قصہ مختصر‘ عدالت کے حکم پر اسمبلی کو بحال کر کے 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی گئی اور 174 ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ دن ساڑھے دس بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا یہ منفرد اجلا س رات دو بجے تک جاری رہا۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو ختم ہو گئی مگر ایک اَن ہونی اس سے ایک دن بعد ہوئی جب دس اپریل کی رات سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں لوگ بنا کسی پلان کے سڑکوں پر نکل آئے اور عمران خان سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، اٹلی، سپین اور امریکہ سمیت متعدد بیرونی ملکوں میں بھی پاکستانیوں نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ یہ ملکی تاریخ کا ایک حیران کن اور اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔
عمران خان کے حق میں یک دم ابھرنے والے عوامی جذبات کا جائزہ لینے کیلئے اپریل 1993ء پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو بر طرف کیا تھا۔ صدرِ مملکت کی جانب سے حکومت تحلیل کرنے کے حکم کے خلاف عوام نے کسی قسم کا ردِعمل ظاہر نہیں کیا لیکن نواز حکومت ختم ہونے کے بعد جب نئی کابینہ بنائی گئی تو عوامی جذبات میاں نواز شریف کے حق میں ابھرنے لگے۔ جب غلام اسحاق خان نے کچھ ایسے سیاستدانوں کو کابینہ میں شامل کیاجن سے متعلق‘ پروپیگنڈا ہی سہی‘ عوام میں انتہائی کرپٹ ہونے کا ایک منفی تاثر پھیلا ہوا تھا، ایسے میں رخصت ہونے والی حکومت عوام کو یاد آنے لگے۔ اسی طرح اکتوبر 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز حکومت کو برطرف کر کے ملک میں مارشل لا لگا کر زمامِ اقتدار سنبھالی تو اس غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام پر عوام کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں کیونکہ اس وقت حکومت کا امیج انتہائی منفی اور کرپٹ ہونے کا تھا۔ لیکن چند سال بعد جب عوام نے یہ دیکھ لیا کہ مشرف نے کس طرح کرپشن کیسز بھگتنے والے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو 'پیٹریاٹ‘ کے نام سے اکٹھا کیا‘ کس طرح اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور قتل تک کے الزامات والے متحدہ کے افراد کو کابینہ میں شامل کیا تو مشرف حکومت کا تاثر بھی منفی ہوتا چلا گیا اور ساری ہمدردیاں دیگر لیڈران کے حق میں جانے لگیں۔ دس اپریل کوجو لوگ عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر باہر نکلے تھے‘ ان میں سب عمران خان یا پی ٹی آئی کے حامی نہیں تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو سسٹم کے شاکی تھے، جو احتساب کے مقدمات بھگتنے والوں کو حکومت میں شامل ہوتا دیکھ کر غم و غصے سے بھر گئے تھے۔ جس دن فردِ جرم عائد ہونا تھی‘ اسی دن حلف اٹھاتا دیکھ کر یہ لوگ اپنے غصے کا اظہار کرنے باہر نکلے تھے۔
پھر جیسے عمران خان کی حکومت کے آخری لمحوں میں منفی خبریں پھیلائی گئیں‘ اس سے لوگوں کے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔ خان صاحب کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی خبریں چلائی گئیں، وزیر اعظم ہائوس اور پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں والی گاڑیاں پہنچائی گئیں، ان اقدامات سے پورے ملک میں ایک ایسا سناٹا چھا گیا کہ ہر کسی نے محسوس کیا کہ یہ عمران خان کی نہیں بلکہ ان سب کی تذلیل ہے۔ اُس رات جس طرح فون اور وٹس ایپ پر ملک سے باہر بیٹھے پاکستانیوں کے پیغامات آ رہے تھے‘ لگتا تھا کہ ان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اُڑ کرپاکستان پہنچ جائیں؛ تاہم اپنے غصے اور نفرت کا اظہار انہوں نے دنیا بھر کے ہر قابلِ ذکر شہر میں عمران خان کے حق میں مظاہروں اور ریلیوں کی صورت میں کیا۔ برطانیہ ، امریکہ ،کینیڈا،جرمنی اور فرانس میں اوور سیز پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں باہر نکلے کہ وہاں کے عوام تو دور‘ ان کے خفیہ ادارے تک حیران رہ گئے۔اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔ قیامت خیز سردی اور برف باری کے با وجود پاکستانی سفارتخانوں کے باہر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف حکومت سنبھالتے ہی جس طرح کی قانون سازی کی گئی اور احتسابی قوانین کا تیاپانچہ کیا گیا‘اس نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔ سب سمجھ گئے کہ عمران خان کو نکالنے کا اصل مقصد کیا تھا۔ملکی معیشت کے ساتھ جو کیا گیا‘ صنعتی ترقی کو جس طرح سبو تاژ کیا جا رہا ہے‘ اس سے عوامی خدشات دوچند ہوتے جا رہے ہیں۔ اب لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے ملک کے تین بڑے اور اہم ترین ایئر پورٹس اور غیر ملکی ہوٹلوں اور اثاثوں کو مبینہ طور پر بیرونی ہاتھوں میں بیچنے کی جو خبریں سامنے آ رہی ہیں‘ اس سے لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس حکومت کا اگلا نشانہ کیا ہو سکتا ہے؟
تسلیم کر لیجئے کہ عمران خان کے مخالفین کے تمام اندازے اور ملک چلانے کیلئے بنائے گئے تمام پلانز ناکام ہو چکے ہیں۔ پوری جانفشانی سے کی جانے والی کوششوں کے با وجود ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور اسے پھر سے سنبھالنے اور کنارے کی جانب لے جانے کیلئے اب کئی سال درکار ہوں گے۔ راقم کاہمیشہ عمران خان سے یہ گلہ رہا ہے کہ جب وہ اتنے برسوں سے 'ویٹنگ اِن گورنمنٹ‘ تھے تو انہیں پہلے سے ہی ایک ایسی ٹیم تیار کر لینی چاہئے تھی جسے ملک کے مسائل، کمزوریو ں اور ان کے حل کا مکمل علم ہوتا۔ ویسے تو اس ضمن میں دیگر پارٹیوں کو بھی کوئی استثنا نہیں ہے، مسلم لیگ نواز اور پی پی پی ساڑھے تین برس کے دورِ اقتدار میں عمران حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی معاشی پالیسیوں میں سو سو کیڑے نکالا کرتی تھیں۔ خیال تھا کہ جیسے ہی یہ تجربہ کار پارٹیاں عدم اعتماد کے بعد اقتدار سنبھالیں گی تو ملکی معیشت کو اس راہ پر گامزن کر دیں گی جس کا وہ قومی اسمبلی ، سینیٹ اور اپنے جلسوں جلوسوں اور میڈیا ٹاکس میں ذکر کرتی چلی آ رہی تھیں۔ اُس وقت مفتاح اسماعیل اور شہباز شریف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انہیں پی ٹی آئی کی طرح معاملات سمجھنے میں وقت نہیں لگے گا بلکہ وہ چھ ماہ میں ایسے اقدامات کریں گے کہ واضح فرق دکھائی دے گا۔ آج شہباز شریف حکومت کو آٹھ ماہ ہو گئے ہیں اور ملکی معیشت سمیت انتظامی معاملات کا جو حال ہے‘ وہ بیان کے بھی قابل نہیں۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو معیشت کے حوالے سے منفی خبریں پھیلائے گا‘ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔یعنی مسئلے کے بجائے مسئلہ اٹھانا جرم بنا دیا گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved