میرا مزاج ہمیشہ سے ایسا رہا ہے کہ میں اندھیرے میں روشنی کی آخری کرن بھی دیکھ لیتی ہوں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ دور دور تک اندھیرا ہی اندھیر ہے اور روشنی کی کوئی کرن نہیں۔ جیسے ایک طویل سرنگ سامنے ہو اور روشنی کو پانے کے لیے صدیوں کی مسافت طے کرنا پڑے۔ ہماری نجی زندگی میں ہونے والے واقعات ہمارے کام اور نظریات پر بھی حاوی ہوجاتے ہیں۔ جو قیامت مجھ پر گزری ہے‘ اس نے میرے اندر بہت توڑ پھوڑ کی ہے۔ مجھے اب یہی لگتا ہے کہ میں دوبارہ اُس جیسی نہیں بن سکتی‘ جیسی میں پہلے تھی۔میں کوشش کرتی تھی کہ کچھ ایسا نہ لکھوں‘ ایسا نہ بولوں جس سے پڑھنے والے‘ سننے والے مایوس ہوجائیں۔ قارئین کالم نگاروں کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں۔ میں جدید جنگی ساز و سامان پر لکھتی تھی‘ پھولوں‘ تتلیوں اور خوشبوئوں کو اپنے کالموں اور تحریروں کا موضوع بناتی تھی۔ اپنے ہم وطنوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتی تھی‘ ان مسائل کی بھی نشاندہی کرتی تھی جن پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔مگر اتنے سانحوں کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میرے موضوعات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔
27 جنوری کو تین سال مکمل ہوجائیں گے مجھے 'روزنامہ دنیا‘ کے ساتھ منسلک ہوئے۔ اس بڑے اخبار میں بڑے ناموں کے درمیان لکھنا میرے لیے باعثِ فخر بھی ہے اور باعثِ اعزاز بھی۔ جب یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو جہاں مجھے اس پر خوشی ہوئی‘ وہاں تھوڑی سی بے چینی بھی محسوس ہوئی کہ میں اس ذمہ داری کے قابل بھی ہوں یا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں اور ارشد اس وقت بھوربن میں تھے جب مجھے 'دنیا میڈیا گروپ‘ سے فون آیا تھا۔ میں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ یہاں مجھے ندیم نثار صاحب جیسے ایڈیٹر ملے جن کی رہنمائی سے لکھنے میں مزید نکھار آیا؛ تاہم زیادہ خوشی اس دن ہوئی جب ان کی طرف سے شاباش اور کتابوں کا تحفہ ملا۔ اپنے ایڈیٹر کی طرف سے کام پر شاباش ملنا خوشی کو دوبالا کردیتا ہے‘ لہٰذا میری خوش کی انتہا نہ رہی۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ میں لکھنا ہی بھول گئی ہوں۔ اب مجھ سے لکھا ہی نہیں جاتا، لکھنے کے لیے بیٹھتی ہوں تو آنسو ٹپ ٹپ لیپ ٹاپ پر گرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور نظر آنا بند ہوجاتا ہے‘ اس کیفیت میں کالم لکھنے کا ارادہ ہی ملتوی کردیتی ہوں۔
میں اب ٹی وی بھی نہیں دیکھتی‘ کوئی خبر اخبار یا سوشل میڈیا کے توسط سے نظر سے گزر جائے تو ٹھیک‘ ورنہ اب میرا دل نہیں کرتا کہ میں کوئی بھی ایسی چیز دیکھوں کہ جو مجھے واپس 23 اکتوبر کی طرف لے جائے۔ میں نے موبائل کی رِنگ ٹون بھی بدل دی ہے‘ گھر میں ٹی وی مکمل طورپر بند کردیا ہے لیکن شاید آج بھی میں 23 اکتوبرکی سطح پر کھڑی ہوں۔ اس ایک دن میں مَیں قید ہو کر رہ گئی ہوں۔ ارشد کو یہ بات معلوم تھی کہ میں خود کومصروف رکھنے کے لیے کام میں مشغول رہتی ہوں مگر اب مجھ سے کام بھی نہیں ہوتا؛ تاہم گزشتہ دِنوں ایک دو چیزیں ایسی ہوئی ہیں کہ جن سے مجھے بہت تکلیف پہنچی۔ سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر وائرل ہیں‘ جن میں گول مٹول پیارے افغان بچے نظر آ رہے ہیں۔ مگر حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب یہ دیکھا کہ ان بچوں کو مجرموں کی طرح باندھا ہوا تھا۔ ایک کی قمیص کا سرا دوسرے کی قمیص سے بندھا ہوا تھا۔ مجھے کافی دیر تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ میں نے کیا دیکھا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے مجرموں کی طرح بندھے ہوئے تھے۔ یہ بچے کراچی جیل میں اپنی مائوں کے ساتھ قید ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مائیں اور ان کے بچے قید کیوں ہیں ؟ پاکستان تو مہاجرین کا میزبان ہے‘ ان خواتین اور بچوںکو تو مہاجرین کے پناہ گزین کیمپوں میں ہونا چاہیے۔ ویسے تو انسانوں کو کیمپ میں رکھنا بھی میری نظر میں توہین آمیز ہے‘ ان کو مناسب رہائش ملنی چاہیے‘ نئے مواقع ملنا چاہئیں لیکن پاکستان اتنا امیر ملک نہیں ہے لہٰذا یہاں اتنی سہولتیں بھی نہیں ہیں؛ تاہم افغان مہاجرین کے لیے آنے والی امداد سے اگر ان کو باعزت رہائش‘ باعزت روزگار اور اچھی تعلیم مہیا کی جائے تو کتنا اچھا ہو۔معلوم ہوا ہے کہ کراچی جیل میں سو سے زائد افغان بچے ہیں‘ کچھ بچے اپنی افغان مائوں کے ساتھ ہیں اور کچھ یتیم ہیں۔ ان کے پاس مطلوبہ کاغذات نہیں ہیں لہٰذا ان کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
اب افغانستان میں تو حالات ایسے نہیں جو ان بچوں اور خواتین کو وہاں کوئی سہولتیں مل سکیں لیکن یہاں کم از کم بین الاقوامی تنظیمیں ان کو اچھی رہائش اور خوراک و تعلیم تو دے ہی سکتی ہیں۔ یہ معصوم بچے جو اس وقت کراچی کی جیل میں قید ہیں‘ کیا وہ ایک اچھے مستقبل کے مستحق نہیں؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال پر توجہ دینی چاہیے اور ان خواتین اور بچوں کو علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کرنی چاہیے۔ اگر قوانین اجازت دیں تو ان کو جیل سے آزاد کر کے یہیں پر رہنے دیا جائے۔ ڈی پورٹ کرنے سے کیا ہوگا‘ ان کی زندگی مزید تاریک ہوجائے گی۔ ان کو افغان مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ کرکے جینے کا حق دیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو ان کو باعزت طور پر افغان سفارت خانے کے حوالے کردیا جائے مگر ایسے معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک نہ کیا جائے۔ کاش کہ ان کے ملک میں جنگ نہ ہوتی‘ ان کا ماضی اور حال برباد نہ ہوتا اور آج وہ ایک دوسرے ملک میں قید نہ ہوتے۔ ان لوگوں کی مدد کیا کریں جو مشکلات اور تکلیفوں کا شکار ہوں۔ ان بچوں کا کرب مجھ سے دیکھا نہیں جارہا تھا‘ اس لیے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوئی کہ ان کی رہائی کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔
دوسرا سانحہ بھی سندھ میں پیش آیا جہاں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی دِیا بھیل کو قتل کردیا گیا۔ یہ قتل اتنی سفاکی سے ہوا کہ تفصیلات جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پر پہلے تشدد کیا گیا۔ اندرونِ سندھ میں ہندو کمیونٹی پہلے ہی بہت سے مسائل سے دوچار ہے‘ اب ایک غریب ہندو خاتون کا قتل‘ وہ بھی بہیمانہ طریقے سے‘ صوبے میں اس کمیونٹی کے ابتر حالات کی نشاندہی کررہا ہے۔ اس خاتون کے خاندان کو فوری طور پر انصاف ملنا چاہیے۔ اقلیتوں کے بھی وہی مساوی حقوق ہیں‘ جو اکثریت کے ہیں؛ تاہم اقلیتی طبقے کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر حکومت کو فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خاتون کا قتل کیوں کیا گیا؟ کیا اس کو کسی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا؟ اس کا سر تن سے جدا کرنا‘ اس کے جسم کا گوشت تک نوچ لینا ایک انتہائی بربریت کا اقدام ہے۔ اس طرح کے قتل کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ سندھ سے پی پی کی سینیٹر کرشنا کماری نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ دِیا بھیل کے سر سے تمام جلد بھی کاٹ دی گئی ہے جبکہ پولیس کو اسی بنا پر شبہ ہے کہ اس قتل کا تعلق کسی سفلی عمل سے ہو سکتا ہے۔اس غریب خاتون کے ساتھ ایسی سفاکی کس نے برتی‘ اس کے حوالے سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بھارت میں بھی اس معاملے کو خوب اچھالا جا رہا ہے۔ پولیس نے چند افراد کو‘ جن پر جادوگر ہونے کا الزام ہے‘ گرفتار کیا ہے۔ یہ قتل بربریت و دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ خاتون ہو یا مرد‘ کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ اربابِ اختیار فوری طور پر اس غریب خاندان کو انصاف دلائیں اور کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی نہ برتیں؛ تاہم یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس غریب اقلیتی خاتون کے قتل پر انصاف ملے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved