تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     04-01-2023

نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات

میاں نواز شریف نے اپنے روایتی انداز میں قہقہہ لگایا اور عمران خان کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے: ماضی دلدل کی مانند ہوتا ہے‘ انسان جتنا ماضی کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اتنا شرمندہ ہوتا ہے‘ کسی کو بھی ماضی پرست نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنے سامنے میز سے بلیک کافی کاکپ اٹھایا اور ایک گھونٹ بھرتے ہوئے گویا ہوئے: آپ درست فرما رہے ہیں‘ میں بھی ماضی کو بھلا دینا چاہتا ہوں۔ ملک کو ہماری ضرورت ہے۔ دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، معیشت کی بدحالی نے ہماری خودمختاری کو گُھن لگا دیا ہے، عوام مہنگائی سے بِلک رہے ہیں، چلتے کاروبار بند ہو رہے ہیں، روپے کی قدر ٹکے سے بھی آدھی رہ گئی ہے، قرضوں کا ناگ مزید زہریلا ہو چکا ہے، دوست ممالک ہمیں اہمیت دے رہے ہیں نہ اتحادی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے پاؤں میں آبلے پڑے ہیں اور چاروں طرف انگارے ہیں اس کے باوجود ہم چلتے چلے جا رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ کیا قومیں ایسے بنتی ہیں؟ ہم نے آج بڑے فیصلے نہ کیے تو ہمارا حال سری لنکا سے بھی برا ہوگا۔
میاں نواز شریف بڑے تحمل سے یہ سب باتیں سنتے رہے اور جب خان صاحب نے اپنی بات مکمل کر لی تو قدرے توقف کے بعد بولے: اللہ نہ کرے کسی بھی ملک کو سری لنکا جیسے حالات دیکھنا پڑیں۔ تھائی لینڈ کی طرح سری لنکا میں بھی سیاحت کے بہت مواقع ہیں مگر وہاں کے سیاست دان خود غرض اور موقع پرست ہیں۔ ان کی اناؤں، تکبر اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔ ہمیں بھی ملک کے لیے اپنی اَنا کی قربانی دینا ہو گی۔ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ملک کو نقصان پہنچا تو ہمارے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا، یہ سدا خالی ہی رہیں گے۔ یہ اقتدار، یہ پروٹوکول اور یہ طاقت کا گھمنڈ‘ سب کچھ خفتگانِ خاک ہو جائے گا۔
عمران خان اور میاں نواز شریف کے بیچ یہ ملاقات خان صاحب کی خواہش پر ہوئی تھی۔ عمران خان نے پرویز خٹک کے ذمے یہ کام لگایا، پرویز خٹک نے رانا ثناء اللہ سے بات کی اور یوں یہ ملاقات شیڈول ہو گئی۔ میاں نواز شریف خود چل کر بنی گالا جانا چاہتے تھے مگر خان صاحب نے کہا کہ وہ خود رائیونڈ جائیں گے کیونکہ 2014ء میں بطور وزیراعظم میاں صاحب ان کی عیادت کرنے کے لیے بنی گالا تشریف لا چکے تھے‘ اس لیے اس بار ان کا آنا مناسب نہیں۔ عمران خان کی گاڑی رائیونڈ کے جاتی امرا محل میں داخل ہوئی تو میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، سعد رفیق اور احسن اقبال نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں کے بیچ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، دونوں بغلگیر ہوئے اور پھر شہباز شریف نے آگے بڑھ کر خان صاحب کو پھولوں کا دستہ پیش کیا۔ عمران خان کے ساتھ فواد چودھری، عثمان بزدار، شہباز گِل، اعظم سواتی، علی امین گنڈاپور، حماد اظہر اور ڈاکٹر بابر اعوان آئے تھے۔ رسمی میل ملاقات کے بعد نواز شریف نے جاتی امرا محل میں واقع گھروں کی تفصیل بتائی تو خان صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کھل کر گھر کی تعریف کی۔ جنید صفدر کے لیے بنایا گیا نیا گھر خان صاحب کو سب سے زیادہ پسند آیا۔ انہوں نے مریم نواز کی جانب دیکھ کر کہا: آپ کے بیٹے کی پسند لاجواب ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملاقات کیوں ہوئی اور اس کا ایجنڈا کیا تھا؟ میاں نواز شریف نے ملاقات کے لیے فوری ہامی کیوں بھری؟ دونوں جماعتوں کے دیگر اکابرین نے اعتراض کیوں نہ کیا؟ اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ عمران خان چاہتے تھے کہ نیا میثاقِ جمہوریت کیا جائے، جس میں تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے سربراہان کو آن بورڈ لیا جائے اور انہیں بھی اس میثاق میں شامل کیا جائے۔ اس میثاقِ جمہوریت کے بعد کوئی سیاسی جماعت غیر سیاسی قوتوں کی آلہ کار نہ بنے، جس جماعت کو عوام مینڈیٹ دیں‘ وہ اپنی پانچ سالہ ٹرم مکمل کرے، صوبائی حکومتیں وفاق سے گتھم گتھا ہوں نہ وفاق صوبوں کی حق تلفی کرے، ایک دوسرے پر سیاسی مقدمات بنائے جائیں نہ الیکشن کے قریب اراکین کو توڑا جائے، سیاست سے الیکٹ ایبلز کا کردار مائنس کیا جائے اور توشہ خانہ سے تحائف کم قیمت پر لینے کی ممانعت ہو۔ میاں نواز شریف کو جب عمران خان کے اس عزم کا پتا چلا تو انہوں نے ملاقات کے لیے نہ صرف فوری آمادگی ظاہر کر دی بلکہ انہوں نے میثاقِ جمہوریت کے مسودے میں کچھ مزید نکات بھی شامل کرائے۔ میاں صاحب کی خواہش تھی کہ سیاست دان ہمیشہ باہمی احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں، گالی گلوچ اور الزام تراشی کے کلچر کا خاتمہ ہو، خواہ کتنی ہی مجبوری ہو‘ سیاسی خواتین پر مقدمات بنائے جائیں نہ ہی انہیں پابندِ سلاسل کیا جائے، ایسے حالات پیدا نہ کیے جائیں کہ کسی سیاست دان کو جلاوطن ہونا پڑے، ملک کی مقبول لیڈرشپ کو تکنیکی بنیادوں پر میدانِ سیاست سے بے دخل نہ کیا جائے، آئین پر من و عن عمل درآمد ہو، آئین میں کوئی سقم ہو تو اسے دور کیا جائے، پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، سیاسی ایوانوں کے گندے کپڑے عدالتوں کے ذریعے مت دھوئے جائیں، اگر سیاسی قوتوں میں اختلافات ہوں تو طاقتور حلقوں کا کندھا استعمال نہ کیا جائے، سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی سیاسی جماعت بھی کسی غیر آئینی اقدام کو ویلکم مت کرے اور کنگز پارٹی کا کردار ادا کرنے سے گریز کرے۔
رانا ثنا ء اللہ اور پرویز خٹک نے ایک دوسرے سے مذکورہ نکات کا تبادلہ کیا اور نئے میثاقِ جمہوریت کے نکات پر مکمل اتفاق ہونے کے بعد یہ ملاقات ہونا طے پائی۔ عمران خان نے جاتی امرا آتے ہی کہا کہ اگر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو بھی مدعو کر لیا جاتا تو ان کے لیے باعثِ اطمینان ہوتا۔ ایک ہی بار مل بیٹھ کر سارے مسئلے حل کر لیے جاتے۔ میاں صاحب زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولے: ان شاء اللہ اگلی ملاقات میں وہ دونوں بھی موجود ہوں گے جبکہ چودھری صاحبان کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کا وفد بھی آئے گا اور پشتون و بلوچ قوم پرست رہنما بھی آئیں گے۔
عمران خان نے رانا ثناء اللہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا: کاش! ہم نے اپنے دور میں آپ پر منشیات کا کیس نہ بنایا ہوتا، احسن اقبال اور دیگر کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ بھیجا ہوتا۔ سیاسی مقدمات بنانا ہماری غلطی تھی۔ اس موقع پر شہباز شریف بھی بول پڑے: ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے اہلِ خانہ کی آڈیوز‘ وڈیوز ریلیز نہیں ہونی چاہئیں تھیں، آپ پر بے جا مقدمات نہیں بنانے چاہیے تھے، پی ٹی آئی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بھی نامناسب عمل تھا۔ ہم بھی اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔ نئے میثاقِ جمہوریت کے بعد کبھی دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ میاں شہباز شریف کا جذبہ دیکھ کر عمران خان اور میاں نواز شریف نے یک زبان ہوکر کہا: ان شاء اللہ!
شاید یہ خوشگوار ملاقات مزید چلتی رہتی اور ہم پر حیرتوں کے نت نئے جہان کھلتے مگرافسوس! ایسانہ ہو سکا اور میرے ڈھائی سالہ بیٹے قاسم نے مجھے نیند سے بیدار کر دیا۔ وہ ہر صبح ایسے ہی کرتا ہے‘ مگر میں نے پہلی بار اسے کہا: بیٹا پانچ منٹ مزید صبر کر لیتے تو میں اناؤں کے بتوں کو ایک دوسرے کے پاؤوں میں گرتے ہوئے بھی دیکھ لیتا۔ پھر خیال آیا خواب تو خواب ہوتے ہیں‘ محض خواب دیکھنے سے ان کی تعبیر تھوڑی مل جاتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ یاد آتے ہیں:
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved