فریب خوردگی بھی ضروری ہے۔ کوئی اتنا جگرا کہاں سے لائے کہ عمر بھر اور ہر وقت حقائق کا سامنا کر سکے؟
کبھی جان بوجھ کر اور کبھی اَن جانے میں‘ ہم فریب کھاتے ہیں۔ اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ کچھ وقت خود فراموشی یا حالات فراموشی میں گزر جاتا ہے۔ کون ہے جو مسلسل اپنا یا حالات کا سامنا کر سکے؟ عقل بڑی نعمت ہے مگر زندگی محض اس کے سہارے نہیں گزر سکتی۔ اقبال کی تعلیم بھی یہی ہے کہ
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ہم بہت سے تجربات سے نہیں گزرے ہوتے‘ اس لیے ان کی 'افادیت‘ ہم پر واضح نہیں ہوتی۔ ہم حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ انسان ان کا کیسے شکار بن جاتا ہے؟ اگرہم اپنا جائزہ لیں تو ہم بھی کسی نہ کسی ایسے کام میں مبتلا ہوتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں بھی یہی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کسی نہ کسی ایسے مشغلے میں مصروف ہیں جس کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ ہم اگر وہ مشغلہ چھوڑ دیں تو زندگی محال ہو جائے۔
بہت سے لوگ سگریٹ پیتے ہیں۔ اگر آپ یہ شوق نہیں رکھتے تو آپ حیرت سے سوچتے ہیں کہ کیا لوگ ہیں جو پیسے اور جگر کو جلا رہے ہیں؟ اپنے ہاتھوں سے اپنی بر بادی کا سامان کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ انہیں یہ معلوم نہیں؟ کیا وہ آپ سے کم سمجھ دار ہیں؟ کم پڑھے لکھے ہیں؟ نہیں‘ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بہت سی مثالیں ہیں کہ ہم سے زیادہ ذی شعور لوگوں نے موت کو قبول کر لیا‘ سگریٹ کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ یہی معاملہ دیگر نشوں کا بھی ہے۔
بہت سے لوگ ہم نے دیکھے جو پیروں‘ فقیروں کے ہو جاتے ہیں اور زندگی ان کے نام لگا دیتے ہیں۔ یہاں بھی ہم جیسے حیرت سے تکتے اور سوچتے ہیں کہ ایک فرزانہ ان معاملات میں اتنا دیوانہ کیسے ہوگیا؟ آپ انہیں زندگی کے معاملات میں دیکھیں گے کہ آخری درجے کے مردم شناس۔ حجام کا انتخاب بھی کریں گے تو خوب سوچ بچار کر۔ پیر کے معاملے میں لیکن معلوم نہیں ان کی عقل کہاں چلی جاتی ہے۔ آپ خود سے سوال کرتے ہیں: جو مجھے نظر آرہا ہے‘ اس کو کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا معلوم اسے بھی وہی نظر آ رہا ہو لیکن وہ جانتے بوجھتے اس فریب میں رہنا چاہتا ہو؟
ایک صاحب کو میں جانتا ہوں کہ ایک سیاستدان سے وابستہ ہیں۔ یہ وابستگی اس نوعیت کی ہے کہ جہاں وہ جا رہا ہے‘ یہ ساتھ جا رہے ہیں۔ اسے کسی شادی میں جانا ہے یا جنازے میں‘ یہ اس کے ہم رکاب ہیں۔ کبھی فون کریں تو معلوم ہوتا ہے چودھری صاحب کے ساتھ فلاں گاؤں میں ایک جنازے میں شریک ہوں۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی ولیمے میں بیٹھے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں: یہ کیسا آدمی ہے۔ بے وجہ اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کر لیتا؟
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شہر کے ہر سیمینار اور جلسے کی رونق بڑھانے پہنچ جاتے ہیں۔ مذہبی اجتماع ہو یا سیاسی‘ لازماً شریک ہوتے ہیں۔ نہ دکھائی دیں تو اس کی ایک ہی وجہ‘ طبیعت کی ناساز ی ہو سکتی ہے کہ گھر سے نکل نہیں سکے۔ ان کے معاملے میں بھی یہی خیال آتا ہے کہ اس سرگرمی کا حاصل کیا؟ یہ آوارگی کس لیے؟ نہ کوئی سیاسی عزائم نہ مذہب سے کوئی سنجیدہ وابستگی۔ آخر ہر اجتماع میں اتنی گرم جوشی سے کیوں شریک ہوتے ہیں کہ اگر نہ ہوئے تو خدا کے ہاں پکڑ ہو گی؟ یا ادائیگیٔ فرض میں کوتاہی کی وجہ سے جیل بھیج دیے جائیں گے۔
اس فہرست کو طویل کیا جا سکتا ہے کہ کیسے لوگ ان مشاغل میں صدیوں سے مصروف ہیں جن کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ بظاہر اس کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا۔ تفریح ایک مقصد ہے۔ اگر لوگ حظ اٹھانے کے لیے کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا بھی جواز ہو سکتا ہے۔ جیسے میلوں ٹھیلوں میں شرکت۔ میں تو ان کاموں کا ذکر کر رہا ہوں جن سے کوئی مقصد وابستہ نہیں ہے۔ جیسے کوئی ایک گاڑی پر سوار ہوکر اگلے سٹیشن پر اتر جائے اور پھر وہاں سے واپسی کا ٹکٹ لے لے۔ شام کو وہیں پہنچ جائے جہاں سے چلا تھا۔
یہ کیفیت کیا ہے؟ کیا اسے خود فریبی کہا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو انسان اپنے آپ کو فریب کیوں دیتا ہے؟ جان بوجھ کر دیتا یا انجانے میں فریب کھاتا ہے؟ مجھے تو اس میں شبہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو جانتے بوجھتے فریب دیتا ہے۔ یا تو وہ سمجھتا ہے کہ خود کو دھوکہ دے رہا ہے یا وہ دانستہ کچھ جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ انسان ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ خود کو فریب کیوں دیتا ہے؟
میرا احساس ہے کہ وہ حقیقت سے فرار چاہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حقیقت کی دنیا بہت تلخ ہے۔ قدم قدم پر ہم جو کچھ دیکھتے ہیں یا جن حالات سے ہمارا پالا پڑتا ہے‘ ہم اگر ان کو ویسا ہی دیکھیں اور سمجھیں جیسے وہ ہیں تو ہم چند دن سے زیادہ ان کا سامنا نہ کر سکیں۔ ہم جان بوجھ کر ان سے فرار ڈھونڈتے ہیں۔ یہ فرار ہم اپنی مالی حیثیت اور سماجی پس منظر کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔ سگریٹ اس کی ایک ادنیٰ صورت ہے۔ کہتے ہیں کہ ایسے نشے بھی ہیں جن کی ایک خوراک پچاس ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ جو کچھ نہیں کر پاتے‘ وہ آوارگی یا غیر ضروری مصروفیت کو شعار بناتے ہیں۔ غالب نے اس مضمون کو اس خوبصورتی سے باندھا ہے کہ سبحان اللہ!
مے سے غرض نشاط ہے کس رُو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
میں جب اس رویے پر سوچتا ہوں تو مجھے یہ خود فریبی بھی ضروری دکھائی دیتی ہے۔ زندگی اس کے بغیر گزر بھی نہیں سکتی۔ محض عقل کے سہارے زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ انسان کبھی کبھی‘ جانتے بوجھتے اس کے حصار سے نکلے اور خود کو ایک ایسے ماحول کے حوالے کر دے جو زندگی کے حقائق اور اس کے مابین ایک پردہ بن جائیں۔ گویا بے مصرف زندگی کا بھی ایک مصرف ہے۔ خود فریبی بھی ایک حقیقت ہے۔
مرتے تو سب ہی ہیں لیکن موتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس میں آپ کڑھتے رہتے ہیں کہ اگر بر وقت دوا مل جاتی‘ اگر ڈاکٹر وقت پر پہنچ جاتا تو مریض بچ سکتا تھا۔ ایک وہ موت ہے کہ جسے آپ قسمت کا لکھا سمجھتے ہیں کہ 'موت آئی تھی اور مر گیا‘۔ یہ توجیہ موت جیسے بڑے حادثے کو قابلِ قبول بنا دیتی ہے۔ میرے عقیدے کے مطابق یہی امرِ واقعہ ہے لیکن جو اس کا شعور نہیں رکھتا‘ اس کے لیے بھی کسی عزیز ترین ہستی سے ہمیشہ کی جدائی‘ اس توجیہ کے ساتھ‘ قابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔
اس لیے گزارش ہے کہ جانتے بوجھتے فریب کھاتے رہنا چاہیے۔ زندگی کو ہمیشہ عقل کی سولی پہ نہیں لٹکانا چاہیے۔ میں عقل و عشق کی فلسفیانہ بحث میں نہیں پڑتا۔ میں تو اسے زندگی گزارنے کی ایک تکنیک سمجھ کر بات کر رہا ہوں۔ ضروری ہے کہ کچھ فریب دینے والے ہوں اور کچھ فریب کھانے والے۔ مجھے اس کے نقصانات کا اندازہ ہے مگر ہر وقت عقل کی عدالت میں کھڑے رہنا بھی کم نقصان دہ نہیں۔
دیکھیے‘ میں نے آپ کو ایک غیر عقلی کام کی ایک عقلی توجیہ پیش کر دی۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ خود عقل کتنی قابلِ بھروسا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved