ملکِ عزیز میں گہرے ڈپریشن کے شکار بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے لیے برازیل میں لولا ڈی سلوا کی کامیابی ایک خوشخبری ثابت ہوئی ہو گی۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں‘ دنیا بھر میں بائیں بازو کے کچھ لوگوں کو لولا ڈی سلوا کے برازیل کا صدر منتخب ہونے میں امید اور روشنی کی ایک نئی کرن نظر آتی ہے۔ لولا اس وقت برازیل کا صدر اور عوام کا ایک مقبول لیڈر ہے۔ دنیا میں کئی لوگ لولا کو ایک سوشلسٹ‘ ٹریڈ یونینسٹ اور انقلابی سمجھتے ہیں لیکن برازیل میں صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔ لولا کے گزشتہ صدارتی ادوار میں پارٹی کے کئی سکہ بند سوشلسٹ لولا کی سماجی اور معاشی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس سے الگ ہو گئے تھے۔ کئی لوگ اسے لبرل قرار دیتے ہیں۔ برازیل میں لبرلز کو با ئیں بازو والے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ماضی میں ایک آدھ بار فوجی آمریتوں کا ساتھ دیا اور ان کی نیو لبرل ازم کی پالیسیوں کی حمایت کی تھی۔
لولا نے اپنے پچھلے ادوار میں 21ویں صدی کے سوشلزم کی وکالت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے برازیل میں جس قسم کی سوشلسٹ پالیسیوں پر عمل کیا‘ ان کو لولا ازم کہا جاتا ہے۔ لولا ازم کو برازیل میں کافی حد تک سماجی لبرل ازم کی ایک شکل ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس نے اپنی سیاست میں معاشی طور پر درمیانے طبقات کے لیے بائیں بازو کے لبرل رجحانات کا اظہار کیا لیکن دوسری طرف اپنی سوشلسٹ ہمدردیاں دکھانے کے لیے اس نے وینزویلا کے ساتھ اپنی قربت کو اجاگر کیا۔ اس طرح کچھ سماجی مسائل پر وہ سوشلسٹ بلکہ لبرل نظریات سے کافی دور ہے۔ وہ ذاتی طور پر اسقاطِ حمل کے خلاف ہے‘ اس کا خیال ہے کہ اسے صحتِ عامہ کا مسئلہ سمجھا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود وہ چونکہ ورکنگ کلاس سے اوپر اٹھا ہوا ایک کامیاب سیاستدان ہے اس لیے اس کے ساتھ بائیں بازو کا رومانوی تعلق برقرار ہے۔
لولا کا بچپن غربت اور مشقت میں گزرا۔ بچپن میں اس نے اپنے غریب والدین کی آمدنی کو بڑھانے میں مدد کرنے کے لیے جوتے پالش کیے‘ سڑکوں پر چیزیں بیچیں اور فیکٹری مزدور کے طور پر بھی کام کیا۔ جوانی میں ایک میٹل ورکر کی حیثیت سے اس نے میٹل ورکرز یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 1975ء میں وہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ اس عہدے نے اسے قومی توجہ کا مرکز بنایا کیونکہ اس نے فوجی حکومت کی معاشی پالیسی کی مخالفت میں اجرتوں میں اضافے کی تحریک شروع کی۔ اس مہم کو 1978ء سے 1980ء تک ہونے والی ہڑتالوں کے ایک طویل سلسلے کے ذریعے اجاگر کیا گیا اور اس کا اختتام لولا کی گرفتاری اور قومی سلامتی کے قانون کی خلاف ورزیوں پر اس کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے ہوا۔ اور اسے ساڑھے تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
لولا نے 1982ء کے بعد سے کئی بار صدارتی انتخاب لڑا مگر ناکام رہا۔ 2002ء کے صدارتی انتخابات میں اس نے نئی حکمت عملی اپنائی۔ اگرچہ وہ سیاسی عمل میں نچلی سطح پر عوام کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے پُرعزم رہا‘ لیکن اس نے کاروباری طبقے سے بھی تعاون کیا اور مالی اہداف کو پورا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مل کرکام کرنے کا وعدہ کیا۔ سوشل ازم اور لبرل ازم کے اس ملے جلے ایجنڈے کے سہارے اس بار لولا نے 61.5 فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومتی حمایت یافتہ امیدوار ہوزے سیرا کو فیصلہ کن شکست دی۔
2002ء کے وسط میں برازیل سخت قسم کے معاشی بحران کا شکار تھا اس لیے 2002ء کے صدارتی انتخابات میں آئی ایم ایف سب سے زیادہ زیرِ بحث تھا۔ آئی ایم ایف برازیل کو ایک بھاری رقم کی بطور قرض کی پیشکش کر ر ہا تھا جو ماہرینِ معاشیات کے خیال میں ملک کو بحران سے نکال سکتا تھا۔ لولا اور اس کے روایتی نظریاتی ساتھیوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھے مگر وہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کی بات نہیں کر سکتے تھے؛ چنانچہ صدارتی دوڑ میں شامل لولا نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا۔ ستمبر 2002ء میں آئی ایم ایف نے برازیل کے لیے تقریباً تیس بلین ڈالر کی خطیر رقم کی منظوری کا اعلان کیا۔جنوری 2003ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد لولا نے معیشت کو بہتر بنانے‘ سماجی اصلاحات نافذ کرنے اور حکومتی بدعنوانی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ 2006ء میں جیسے ہی ان کی پہلی مدت کا اختتام قریب آیا‘ معیشت بڑھ رہی تھی اور برازیل کی غربت کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی؛ تاہم بہت سے برازیلیوں نے محسوس کیا کہ لولا نے عوامی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے یا جرائم کو کم کرنے کے لیے تسلی بخش کام نہیں کیا۔ مزید براں‘ حکومتی بدعنوانی سے لڑنے کے لیے لولا کا عزم 2005ء میں سوالیہ نشان بن گیا تھا‘ جب اس کی پارٹی کے اراکین پر رشوت خوری اور غیر قانونی مالی اعانت کا الزام لگایا گیا۔ صدر کو ملوث نہیں کیا گیا لیکن اس سکینڈل نے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا‘مگر اسی سال لولا کی قیادت میں برازیل نے اعلان کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ اس طرح برازیل نے مختصر عرصے میں اپنی معیشت کو بحران سے نکال کر پٹڑی پر چڑھایا اور وقت سے پہلے آئی ایم ایف کا قر ض ادا کیا۔
2006ء کے صدارتی انتخابات میں لولا نے اپنے حریف برازیلین سوشل ڈیموکریسی پارٹی کے جیرالڈو الکمن کو آسانی سے شکست دی۔ اس کی وجہ لولا کی معاشی کامیابیاں تھیں۔ 2004ء میں ملک کی ترقی کی شرح 5.2فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ اس سال برآمدات 100 بلین کے ہدف کو کراس کر چکی تھیں اور برازیل کا ٹریڈ سرپلس دنیا میں ساتویں نمبر پر آ چکا تھا لیکن دوسری طرف ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی لولا کے بائیں بازو کے ہمدردوں کے لیے تکلیف دہ تھی کہ اس نے نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کیا بلکہ ورلڈ بینک‘ انٹر امریکن ڈویلپمنٹ بینک اور دوسرے کئی مغربی اداروں سے قرضے اور تکنیکی تعاون حاصل کیا۔
برازیل کی معیشت اور لولا کی مقبولیت ان کی دوسری مدت کے دوران مسلسل بڑھتی رہی اور سانتوس بیسن میں تیل کی نئی دریافتوں نے ملک کے مستقبل کو بدلنے کی امید پیدا کی جو اس وقت اور بھی روشن نظر آئی جب ریوڈی جنیرو کو 2016ء کے سمر اولمپک گیمز کی میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا۔ لولا کو آئینی طور پر مسلسل تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا‘ جس پر انہوں نے اپنے چیف آف سٹاف دلما روسیف کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ روسیف کو 2014ء میں دوبارہ منتخب کیا گیا تھا لیکن ان کی دوسری مدت کے آغاز میں ہی ایک سکینڈل سامنے آگیاجس میں برازیل کی ممتاز کارپوریشنوں کی جانب سے ملک کی بڑی سرکاری تیل کمپنی پیٹرو براس اور ورکرز پارٹی کے حکام کو مبینہ کک بیکس اور کمیشن کی مد میں لاکھوں ڈالر ادا کرنے کے الزامات شامل تھے۔ ان الزامات کی تحقیقات بڑھتے بڑھتے خود لولا ڈی سلوا تک جا پہنچی اور ان کو منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ آگے چل کر واقعات نے کیا رُخ اختیار کیا‘ عدالتوں نے لولا کے ساتھ کیا سلوک کیا اور اب لولا ایک بار پھر کیسے برازیل کے صدر بن گئے‘ اس کی تفصیل آئندہ کسی کالم میں پیش کی جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved