شامی عوام کے ساتھ ہماری ہمدردیاں فطری ہیں۔ ان سے ہمارے انسانی رشتے بھی ہیں ۔ مذہبی بھی اور علاقائی بھی۔ عرب اسرائیل جنگ میں ‘ پاکستان واحد مسلمان ملک تھا جس کی فضائیہ نے عملی طور پر شام کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا۔ آج بھی ہم‘ شام کی طرف بڑھتے ہوئے جنگ کے بادلوں کو دیکھ کر پریشان ہیں اور جہاں تک ہمارے بس میں ہے‘ کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا اور رائے عامہ شام کے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والوں کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں۔ میں خود ان ناانصافیوں پر حقائق اور شواہد کی روشنی میں باربار لکھ رہا ہوں کہ شام کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ اس پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام ایک سازش کے تحت لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے‘ امریکی اور اس کے عرب اتحادیوں کے ایجنٹوں نے نہتے شامی عوام کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے اور ان کی میڈیا مہم چلا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب بشارالاسد کی حکومت نے کیا ہے۔ ہمارے سامنے القاعدہ کا الزام افغانستان پر لگا کر فوج کشی کی گئی اور پھر عراق پر بھی اسی طرح کیمیاوی ہتھیاروں کا الزام لگا کر اسے تباہ و برباد کیا گیا۔ اب شام کے خلاف بھی یہی کچھ ہو گا۔ افغانستان کی جنگ میں ہم‘ افغان بھائیوں کا بھلا تو نہیں کر سکے مگر خود برباد ہو گئے۔ ہمارے معاشرے کے بخیے ادھڑ گئے۔ روایات پامال ہو گئیں۔ کلچر مسخ ہو گیا۔ شہروں کی حالت بگڑ گئی۔ ایسی ایسی منشیات عام ہوئیں‘ جن کا نام تک نہیں سنا گیا تھا۔ہمارے شہر‘ ہمارے بازار‘ ہمارے گائوں‘ ہماری سڑکیں‘ ہماری ٹرانسپورٹ‘ ہمارے فوجی اڈے‘ ہماری ہر چیز غیرمحفوظ ہو گئی۔ امریکہ ہمیں عراق کی جنگ میں بھی دھکیلنے کا خواہش مند تھا لیکن اس وقت میاں خورشید محمود قصوری ملک کے وزیرخارجہ تھے اور مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے عراق میں فوج بھیجنے کے امریکی مطالبے کی ذاتی طور پر مخالفت کی اور بعد میں صدر مشرف کو بھی قائل کیا کہ ہمیں اس آگ میں نہیں کودنا چاہیے۔ ورنہ ہم وہاںبھی عراقیوں کو تو نہ بچا سکتے مگر اپنا مزید بیڑا غرق کر لیتے۔ اب بھی ہم شام کو نہیں بچا سکیں گے۔ اس کے ساتھ جو ہونا ہے‘ ہو کر رہے گا۔ ہم نے اگر وہاں بھی ٹانگ اڑائی‘ تواپنی ٹانگ گنوا بیٹھیں گے۔ شام والوں کے ساتھ جو ہونی ہے‘ وہ تو ہو کر رہے گی۔ افغانستان میں ٹانگ اڑانے کا نتیجہ تو ہمارے بچے بچے کو معلوم ہے۔ لیکن ہمارے لوگ عراق میں بھی شوق شہادت پورا کرنے گئے تھے اور خودکش بمباروں کی جو ’’سائنس‘‘ پاکستان میں آئی ہے‘ وہ عراق ہی سے ہمارے ہاں پہنچی ہے۔ اس کے بعد ہمارے مجاہدین نے لبیا میں جا کر بھی دادشجاعت دی ہے اور جن لوگوں نے کرنل قذافی کو تشدد کر کے ہلاک کیا‘ ان میں پاکستان سے گیا ہوا ایک مجاہد بھی شامل تھا اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس وقت شام کے اندر بھی ہمارے کچھ اہلِ وطن شوق شہادت پورا کر رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں‘ امریکہ نے فوج کشی اور ڈرون حملوں کا جواز یہ بنایا تھا کہ ان دونوں ملکوں میں القاعدہ کے ٹھکانے ہیں۔ لیکن لبیا اور شام میں اسی القاعدہ کو امریکہ ہتھیار‘ پیسے اور کمک بھی فراہم کر رہا ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ تشدد کے بزنس کا نہ مذہب سے کوئی تعلق ہے‘ نہ قوم سے۔ وہ دولت میں کھیلتے ہیں۔ انسانی خون بہاتے ہیں اور عیش کرتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں طرح طرح کے لشکر ہائے اسلام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے جو اہل وطن‘ شام کی مدد کے لئے بے تاب ہوئے جا رہے ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم اپنے تمام وسائل سمیت جو کچھ بھی کر لیں‘ شامی عوام کو اس تباہی سے نہیں بچا سکیں گے‘ جو ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہم صرف اپنی سیاسی اور اخلاقی طاقت استعمال کر سکتے ہیں‘ جو ہم کر رہے ہیں۔ جو بات ہمیں ہمیشہ کے لئے یاد کر لینا چاہیے‘ وہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا ملک کسی کو اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتائج سے نہیں بچا سکتا اور نہ ہی کسی ملک کی فہم و فراست رکھنے والی قیادت ایسا کرتی ہے۔ جب ہم 1971ء میں اپنی سلامتی اور بقا کی جنگ لڑ رہے تھے‘ تو ہمیں کون بچانے آیا تھا؟ کیا ساری امت مسلمہ کا درد‘ ہمارے ہی دل میں ہے؟ اگر مسلم امہ نامی کوئی چیز موجود ہوتی‘ تو آج شام کے اندر مسلمانوں کی حکومت سے لڑنے والے مسلمان‘ کونسے مسلمان ملکوں سے مدد لے رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے آج کوئی بھی مذہبی اور تبلیغی جنگ نہیں لڑتا ہے۔ مذہب کا محض نام استعمال ہوتا ہے۔ اصل جنگ مفادات کی ہوتی ہے۔ جو قومیں مفادات کے اس کھیل کو سمجھ لیتی ہیں‘ وہ یورپ والوں کی طرح تباہی سے بچنے کے انتظامات کر لیتی ہیں۔ یورپی یونین کے ملکوں نے صدیوں ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑنے کے بعد یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ وہ اپنے تنازعات جنگوں کے ذریعے حل نہیں کریں گے۔ 60سال ہونے کو آئے ہیں‘ یورپی ملکوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ داخلی طور پر یوگوسلاویہ نامی ایک مصنوعی ملک کے اندرمختلف نسلی گروہوں کی خودمختاری کا تنازعہ ہوا تھا۔ مگر یوگوسلاویہ کی قوموں کو بھی خود یورپی ملکوں نے جنگ کو مزید طول دینے سے روک دیا ۔ ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہیںکہ یورپ کی طرح امن کا خواب دیکھ سکیں۔امن کی طرف ہمارا سفر بہت لمبا ہے۔ سٹریٹجک ماہرین تو کہتے ہیں کہ شام کے بعد پاکستان کی باری آنے والی ہے۔ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اس کا پورا اندازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دونوں مل کر تباہی کے طوفان کو روکنے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ ہمارے وہ مذہبی سیاستدان جو ایک زمانے میں امریکہ کے سیاسی اتحادی تھے اور پھر افغان جنگ میں ان کے فوجی اتحادی بھی بن گئے اور امریکی ڈالر لے کر افغانستان میں جہاد کرتے رہے۔اب کافی دنوں سے امریکہ کے مخالف ہو گئے ہیں۔ یہ مخالفت اس وقت شروع ہوئی‘ جب امریکی ڈالر ملنا بند ہوئے۔ یہ ان کا اور امریکہ کا گھریلو معاملہ ہے۔ ہمیں کسی اشتعال انگیزی میں آ کر بیگانی جنگ میں دوبارہ کودنے کی حماقت نہیں کرنا چاہیے۔ ہم خود بہت بڑے خطرات میں گھرے ہیں۔ تجھ کو پرائی کیا پڑی؟ اپنی نبیڑ تو۔ چھوٹی سی عمر کی موجود ہ حکومت کے دور میں بھی کرپشن کے قصے کہانیاں شروع ہو گئے ہیں۔ گردشی قرضو ں کی ادائیگی کے حوالے سے متعدد کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ ڈالروں کے نرخوںمیں اتار چڑھائوکے پیچھے بھی مال کمانے کے افسانے پھیل رہے ہیں۔ اب پی ٹی وی کے اندر سے کچھ نئی کہانیاں برآمد ہونے والی ہیں اور ان کا تعلق کرکٹ کے کھیل سے ہے۔ آنے والے مہینوں کے دوران یو اے ای میں پاکستان‘ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے درمیان ایک کرکٹ سیریز شروع ہونے والی ہے۔ ٹیلیویژن پر یہ مقابلے دکھانے کے لئے مختلف چینلزکے درمیان مقابلے ہوتے ہیں اور جو سب سے زیادہ بولی دے کر میچ نشر کرنے کے حقوق حاصل کر لے‘ وہ اربوں روپے کما جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے جومقابلے دکھانے کے حقوق پی ٹی وی سپورٹس نے حاصل کئے تھے‘ جس کا اسے بہت فائدہ ہوا‘ اس بار پی ٹی وی کو چند مفادپرستوں نے اس موقع سے محروم کر دیا۔ یوں لگتا ہے کہ وزراء ابھی پوری طرح اپنے اپنے محکموں پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکے۔ جیسے پی ٹی وی میں ابھی تک قائم مقام افسر کام چلا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ وزیرصاحب کو پی ٹی وی کے امور دیکھنے کا موقع نہیں مل رہا‘ تو انہوں نے مختلف پارٹیوں سے جوڑ توڑ کر کے پی ٹی وی کو مقابلے سے ہی باہر کر دیا۔یہ نہ صرف نئی حکومت کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ کرکٹ کے شائقین اور پی ٹی وی کو اربوں روپے دینے والے سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی ظلم ہے‘ جو ہر ماہ بجلی کے بل کے ساتھ رقم دیتے ہیں۔پی ٹی وی کی انتظامیہ نے یہ موقع گنوا کر اپنے ادارے کو اربوں روپے کانقصان پہنچایا اور حکومت پر کرپشن کے الزامات کا دروازہ بھی کھول دیا۔ مناسب ہو گا کہ اس معاملے کی پوری تحقیقات کی جائے کہ اس نفع بخش مقابلے میں پی ٹی وی کیوں شامل نہیں ہوا؟ جن لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا‘ وہ کون ہیں؟ پی ٹی وی بولی دینے کیوں نہیں گیا؟ یہ چھوٹا سا معاملہ نہیں‘ اربوں روپے کا کھیل ہے۔ وزیراطلاعات و نشریات پرویزرشید اب بھی اگر چاہیں‘ تواس لوٹ مار کو روک سکتے ہیں۔ پی سی بی کی جس اتھارٹی نے پاکستانی اور بھارتی کمپنیوں کی جودو بولیاں منظور کی ہیں‘ وہ اس کی مجاز ہی نہیں۔ منظور شدہ بولی کو عدالت کے ذریعے منسوخ کرایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد نیلام کا اہتمام مجاز اتھارٹی کے ذریعے کرایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پی ٹی وی یہ سارے میچ اپنے ناظرین کو نہیں دکھا سکے گا۔ یہ ناظرین کے ساتھ بددیانتی ہے۔ وہ پی ٹی وی کو اس لئے پیسے نہیں دیتے کہ اپنے قومی پروگرام‘ دوسروں کو پیسے دے کر دیکھیں۔ پرویزرشید صاحب ’’پکڑو! پکڑو! پکڑو!‘‘ یہ اربوں روپے آسانی سے ہضم نہیں ہوں گے۔ کرپشن کا شور اٹھے گا‘ تو حکومت کا دامن بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ قوم کا پیسہ اور اپنی عزت بچایئے۔ وزیراعظم نوازشریف اور اپوزیشن کے مقبول لیڈر‘ عمران خان دونوں ہی کرکٹ کے شوقین ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کرکٹ میں یہ لوٹ مچ گئی‘ توچراغ تلے اندھیرا والی بات ہو جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved