ایک تصویر‘ ایک وڈیو اور ایک آڈیو نے جسم میں سردی کی ایک لہر دوڑا دی۔ تصویر گھر کے اندر سے لی گئی اور باہر جانے کے لیے کھلے دروازے کی ہے۔ دروازہ کھلا ہے لیکن اس کے آگے قدِ آدم سفید دیوار کھڑی ہے۔ اس طرح جیسے دروازے کے سامنے سفید دیوار اٹھا دی گئی ہو۔ باہر جانا کیسا‘ ایک قدم باہر رکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ وڈیو حدِ نگاہ تک پھسلتی اور ایک دوسرے سے ٹکراتی گاڑیوں کی ہے۔ سڑک پر برف کا شیشہ بچھا ہے اور گاڑیاں چلانے والوں کے اختیار سے باہر ہوکر اپنی مرضی سے سڑک پر پھسلتی ہیں اور ایک دوسرے سے ایسے ٹکراتی ہیں جیسے کھیل کی ڈاجنگ کارز ہوں۔
بفلو (Buffalo) نیویارک ریاست کا امریکہ اور کینیڈا کے درمیان مشہور سرحدی شہر ہے۔ بفلو سے گزر کر کینیڈا میں نیاگرا آبشار کی طرف داخل ہوتے ہیں۔ آڈیو نیویارک ریاست کے مشہور شہر بفلو کے بڑے مدرسے کے کسی منتظم کی ہے‘ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ سب تک میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم ان حالات تک پہنچ چکے ہیں جہاں دعا کے سو اکوئی دوسری چیز اختیار میں نہیں ہے۔ بجلی‘ ایمرجنسی ادارے‘ امداد‘ کسی کی کوئی امید باقی نہیں رہ گئی۔ چند ماہ کے بچے شدید سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ بے شمار لوگ گاڑیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور نیم جان ہیں۔ مدرسے میں جو کچھ ممکن ہے وہ ہم تمام لوگوں کے لیے فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن کب تک؟
بات 21دسمبر کی ہے۔ لاہور خود آج کل سردی اور دھند کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں شدید سرد تصویریں دیکھنا بھی جھرجھری لے آتا ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ جلد ہی یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ شمالی امریکہ اور کینیڈا قطب شمالی سے اٹھنے والے ایک بڑے بھیانک برفانی طوفان کی زد میں ہیں۔ چند دن پہلے ہی کلیو لینڈ کے عزیز دوست عتیق حیدر سے فون پر بات کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ ایک برفانی طوفان کی پیشگوئی ہے جو کافی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ بات آئی گئی ہوگئی جیسا کہ برفانی اور سمندری طوفانوں کا آنا جانا آیا گیا ہو جاتا ہے۔
اور یہ ہم دور دراز لوگوں ہی کی بات نہیں۔ طوفان کی آنکھ میں بیٹھے ہوئے شہری انتظامیہ کے سربراہوں کو بھی 19دسمبر کو ایسے طوفان کی قطعاً توقع نہیں تھی جسے صدی کا سب سے بڑا برفانی طوفان (Blizzard of the Century) کہا گیا۔ کرسمس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ ان ممالک میں بلکہ بیشتر دنیا میں کرسمس کی تعطیلات‘ میل ملاقات‘ سیر وسفر‘ جشن پہلے سے طے کیے جاتے ہیں اور ٹکٹوں‘ طعام گاہوں‘ قیام گاہوں سمیت ہر جگہ ہجوم ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ جس ہفتے کا ہفتوں سے انتظار تھا‘ 19دسمبر اسی کا آغاز تھا۔ اور صرف ان ملکوں ہی میں نہیں‘ دنیا کے باقی حصوں میں بھی ایئر لائنوں پر اس کا دباؤ پڑتا ہے اور غیر ملکوں میں مقیم پاکستانی بھی ان دنوں چھٹیوں کی وجہ سے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ 19دسمبر تک طوفان کی پیش گوئی کے سوا سب کچھ حسبِ معمول تھا۔ بفلو ہی اس طوفان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ پیش گوئی کو دیکھتے ہوئے بفلو میں بھی پیشگی انتظامی اقدامات مکمل کر لیے گئے تھے۔ یہ اقدامات کیا ہوتے ہیں؟ ایمرجنسی ٹیمیں‘ سڑکوں پر نمک چھڑکنے والی گاڑیاں‘ ایمبولینسز اور برف ہٹانے کی گاڑیاں وغیرہ۔ اگلے دن کار سواروں کو محتاط رہنے کی ہدایات بھی جاری کردی گئیں۔ ایک انتظامی عہدے دار نے کہا کہ دو فٹ برف متوقع ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ اگرچہ کچھ حلقے اس متوقع طوفان کو ایک نسل کا ناقابلِ فراموش طوفان (Once in a generation) کہہ رہے تھے لیکن زیادہ لوگ اسے ایک اوسط برفانی طوفان سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ یہ سب مگر غلط اندازے تھے اور برفانی طوفان سر پر کھڑا انہیں غلط ثابت کرنے کو گھڑیاں گن رہا تھا۔ البتہ اس طوفان کی ایک اور جہت کا اندازہ ضرور کیا جارہا تھا اور وہ تھی ایری جھیل کے اثرات۔ ایری جھیل شمالی امریکہ کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے اور طوفان اس کے راستے سے پہنچنا متوقع تھا چنانچہ جھیل کا پانی اور برف مل کر جو آبادیوں پر قہر ڈھاتے ہیں‘ اس کا تجربہ پہلے سے موجود تھا۔ چنانچہ ایری جھیل کنارے سبھی بستیاں خوف کی گھڑیاں گن رہی تھیں۔
جمعہ 23دسمبر کو اس برفانی طوفان کا آغاز ہونا تھا اور اگلے پیر تک جاری رہنے کی پیش گوئی تھی۔ جمعہ کو صبح جب بارش اپنے جلو میں برف لے کر آئی تو جلد ہی اندازہ ہونے لگا کہ اندازے غلط تھے۔ ڈرائیوروں کو محتاط رہنے کے بجائے سفر پر مکمل ممانعت ہونی چاہیے تھی۔ ممانعت کا اعلان کردیا گیا لیکن اس وقت بہت سے لوگ راستوں میں تھے جنہیں ناقابلِ برداشت سردی کی لہر‘ تیز برفانی جھکڑوں‘ شدید برف باری‘ راستے بند ہو جانے اور محفوظ جگہوں پر پہنچ نہ پانے کے مسائل کا سامنا تھا۔ محفوظ جگہ ایک ہی نظر آتی تھی اور وہ تھی ان کی اپنی گاڑی۔ سو اس گاڑی میں بند ہوکر برف کے حصار میں قید ہو جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ مدد کا انتظار تھا اور مدد کہیں نہیں تھی۔ برفباری میں درخت بوجھل ہوکر بجلی کی تاروں پر گرے اور بجلی منقطع ہوگئی۔ بفلو ایئرپورٹ بند کردیا گیا۔ 80کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برفیلے جھکڑ سمندری طوفان میں تو ہوتے ہیں‘ برفانی طوفان میں نہیں لیکن یہ آندھیاں برف کے جلو میں تھیں۔
جمعہ کی رات تک دو فٹ برف گر چکی تھی۔ امدادی گاڑیاں متاثرین تک پہنچنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ یہ گاڑیاں خود برف میں پھنسی ہوئی تھیں اور مدد کی طالب تھیں۔ 24 دسمبر تک 4فٹ برف پڑ چکی تھی۔ ہلاکتوں کی خبریں ملنا شروع ہو گئی تھیں لیکن بجلی اور مدد دونوں کی صورتیں ناپید تھیں۔ 24 دسمبر کو 17 لاکھ لوگ بجلی کے بغیر ٹھٹھر رہے تھے۔ 25 دسمبر کو جھیل کے اثرات‘ لیک ایفیکٹ بینڈ (Lake effect band) کا رخ قدرے جنوب کی طرف ہوا تو شدت قدرے کم ہوئی لیکن اس وقت تک بہت سی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق پورے امریکہ میں لگ بھگ 50 لوگ موسمی شدت سے ہلاک ہوئے اور اندازہ ہے کہ یہ تعداد کم بتائی جارہی ہے۔ 28 دسمبر کو بالآخر جب طوفان ایک ہفتے کے بعد ختم ہوا تو اپنے پیچھے وہی تباہ کاریاں چھوڑ گیا جو سیلاب چھوڑ جاتا ہے۔ پانچ ہزار کے قریب فلائٹس منسوخ ہوئیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار فلائٹس تاخیر کا شکار ہوئیں۔ سڑکوں پر سفر کرنے والے لوگ ان مسافروں سے الگ تھے۔ اور چونکہ اکثر شمالی شاہراہیں بند تھیں اس لیے امریکہ اور کینیڈا عین کرسمس چھٹیوں کے وقت شدید متاثر ہوئے۔
ہم لوگ جو دور دراز کی یہ خبریں سن کر‘ پڑھ کر اور دیکھ کر خوف زدہ ہیں‘ بس یہی سوچ سکتے ہیں کہ اگر یہ صورت حال ہمارے ساتھ پیش آئی ہوتی تو کیا ہوتا۔ ہم اپنے حالیہ سیلاب میں اس سے زیادہ تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم زلزلوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں کے اثرات ہی سے اب تک نمٹ نہیں پائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمندری اور برفانی طوفانوں سے محفوظ رکھا ہے جن کا دیگر ممالک کو سامنا رہتا ہے؛ تاہم آفت کسی بھی طرح کی ہو‘ خود پر گزری ہو یا کسی دوسرے پر‘ ایک سبق ہر بار مل جاتا ہے۔ مادے کو خدا ماننے والی ذہنیت اور بے خدا تصورِ کائنات والا ذہن جتنا بھی تمسخر اڑالے‘ سچ یہی ہے کہ انسان قدرتی لشکروں کے سامنے ابھی تک بے بس ہے۔ سبق وہی ہے جو ہمیں چودہ سو سال پہلے پڑھا دیا گیا ہے کہ وللہ جنود السمٰوات والارض (الفتح: 7) اور آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے لیے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved