کام کس سے لیا جاتا ہے؟ کسی بھی چیز سے حتیٰ کہ انسانوں سے بھی۔ انسان کس لیے ہوتے ہیں؟ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے۔ انسان کی فطرت میں یہ وصف ودیعت کردیا گیا ہے۔ جب بھی کوئی انسان کسی کی مدد کرتا ہے تو اپنی فطرت کے تقاضے پورے کر رہا ہوتا ہے اور جب کوئی کسی کی مدد سے دانستہ گریز کرتا ہے تو سمجھ لیجیے وہ اپنے ہی وجود اور اپنی فطرت سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔
کسی بھی ماحول میں بہت سی اشیا ہوتی ہیں۔ ہر شے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی کام کرتی ہے۔ اگر کوئی شے ہمارے کام نہ آرہی ہو تو ہم اُسے کباڑ خانے کی نذر کردیتے ہیں۔ ناکارہ اشیا کا یہی مقدر ہے اور یہی مقدر ہونا چاہیے۔ کسی بھی چیز سے کماحقہٗ مستفید ہونا ہمارے دانش مند ہونے کی ایک دلیل ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سی اشیا خریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اشیا کو بروئے کار لانے ہی کی صورت میں ہماری زندگی کچھ بہتر ہو پاتی ہے۔ اشیا کو بروئے کار لانے کی صورت میں بہت سے معاملات درست ہوتے ہیں اور ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اہمیت اشیا کو محض بروئے کار لانے کی نہیں بلکہ ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ خدمات کا بھی ہے۔ ہم بہت سے لوگوں سے بہت سی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ خدمات سے کماحقہٗ مستفید ہونے کی صورت میں بھی ہمارے لیے ڈھنگ سے جینا آسان ہوتا جاتا ہے۔ اشیا ہوں یا خدمات‘ دونوں ہی ہماری سہولت کے لیے ہوتی ہیں۔ اشیا بھی انسان کی بنائی ہوئی ہیں اور خدمات بھی۔ اس کے باوجود انسانوں کا معاملہ الگ ہے۔ اشیا و خدمات کو انسانوں سے بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا اور اُن پر حتمی ترجیح بھی نہیں دی جاسکتی۔
فی زمانہ ''ہیومن فیکٹر‘‘ یعنی انسانی عنصر کی اصطلاح عمرانیات سے متعلق مباحث میں عام ہے۔ ہیومن فیکٹر کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں حتمی نوعیت کا فیصلہ تو انسان ہی کو کرنا ہوتا ہے اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حتمی تجزیے میں انسان ہی کو کرنا ہے۔ ہم آٹومیشن کے دور میں جی رہے ہیں۔ مشینیں ہمارے کام کر رہی ہیں۔ مشینوں سے کام کسے لینا ہے؟ انسان کو! اب اگر انسان ہی مشینوں سے کام نہ لینا چاہے یا ڈھنگ سے کام نہ لے تو؟ تب تو دنیا کی بہترین اور جدید ترین ٹیکنالوجی بھی کسی کام کی نہیں۔ آپ نے ایسے بہت سے معاملات دیکھے ہوں گے کہ جدید ترین اشیا و خدمات سے مستفید ہونے پر بھی ادارے ناکام ہوئے۔ فیصلہ ساز شخصیات جب کام میں ڈنڈی مارتی ہیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ جنہیں مشینوں سے کام لینا ہے اُن میں نیت کا اخلاص اور محنت و مشقت کی لگن کا پایا جانا ناگزیر ہے۔
ہم زندگی بھر مختلف سطحوں پر تعلقات کے حامل رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں قدرتی طور پر یعنی رشتے میں ملتے ہیں۔ کچھ کو ہم منتخب کرتے ہیں یعنی دوست بناتے ہیں۔ جہاں ہم کام کرتے ہیں وہاں بھی بہت سے لوگ ہماری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہم اُن سے کنارہ کش ہو سکتے ہیں نہ جان بوجھ کر خراب تعلقات کے حامل رہ سکتے ہیں۔ کام کے ماحول کو درست رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم جن کے ساتھ کام کریں اُن سے تعلقات اچھے رکھیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کو ہماری وجہ سے کسی اضافی یا غیر ضروری پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ویسے یہ باتیں کہنے کی حد تک آسان ہیں۔ کرنے بیٹھیے تو لگ پتا جاتا ہے۔ کسی کے لیے کارآمد ثابت ہونا بچوں کا کھیل نہیں۔ اِس کے لیے اچھے خاصے ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ فی زمانہ اِتنا اور ایسا ایثار کم ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی کے کام آنے والے بھی اب خال خال ہیں۔
ہمیں کس کا احترام کرنا چاہیے؟ اشیا و خدمات کا؟ یا انسانوں کا؟ اور محبت کس سے کرنی چاہیے؟ اشیا و خدمات سے؟ یا انسانوں سے؟ بروئے کار کسے لانا ہے؟ انسانوں کو یا اشیا و خدمات کو؟ یہ تمام سوال بہت اہم ہیں کیونکہ پہلے مرحلے میں تو اِن سوالوں کو سمجھنا ہے اور پھر طے کرنا ہے ہم کیا چاہتے ہیں، ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ یہ سب کچھ طے کرنے کے بعد ہی ہم ڈھنگ سے جینے کی کوئی قابلِ ذکر کوشش کرسکتے ہیں۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو اشیا و خدمات اور انسانوں کے حوالے سے درست اور معقول ترین ترجیحات طے کرتے ہیں۔ دل خراش اور مایوس کن حقیقت یہ ہے کہ لوگ عمومی سطح پر یہ بھول جاتے ہیں کہ کس سے پیار کرنا ہے اور کسے بروئے کار لانا ہے۔ مستفید اشیا و خدمات سے ہوا جاتا ہے۔ بروئے کار اشیا و خدمات کو لایا جاتا ہے۔ انسان صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن سے پیار کیا جائے، اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ احتیاط سے کام نہ لیا جائے اور ترجیحات سوچے سمجھے بغیر طے کردی جائیں تو بنتی بات بھی بگڑتی جاتی ہے اور بگڑی ہوئی بات تو خیر بگڑتے بگڑتے بحران کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
1925 میں آرچ بشپ فالٹن جے شین نے کہا تھا ''آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ لوگوں سے پیار کرنا ہے اور چیزوں کو استعمال کرنا ہے۔ اور یہ کہ اِس کے برعکس بالکل نہیں کرنا‘‘۔ آج پوری دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اشیا و خدمات اور انسانوں کا فرق بھلایا جاچکا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں انسانوں کو بھی اشیا کے طور پر برتنے کا چلن عام ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اشیا و خدمات سے کام لینے کا چلن ہے اور انسانوں کو بروئے کار لانے سے گریز کیا جاتا ہے؛ تاہم وہاں بھی انسان کو مشینی نوعیت کا احترام میسر ہے۔ ہر انسان اول و آخر محبت اور احترام کے لیے جیتا ہے۔ اشیا و خدمات ایک خاص حد تک ہی ضرورت کو پورا کر سکتی ہیں۔ انسان کا پیٹ اُسی وقت بھرتا ہے جب کوئی اُسے چاہتا ہے اور اُسے معقول و مطلوب احترام سے بھی نوازتا ہے۔ بیشتر معاشروں کا یہ حال ہے کہ اشیا و خدمات کو تو سینت سینت کر رکھا جاتا ہے اور انسانوں کو اندھا دھند بروئے کار لایا جاتا ہے۔ معاشی اور غیر معاشی ہر دو طرح کے معاملات میں انسانوں کو بروئے کار لانے کی نفسیات عام ہے۔ یہی خرابی کی جڑ ہے۔ انسان پیار اور احترام چاہتے ہیں۔ اُنہیں بروئے کار لانے کے بجائے زندگی کا معیار بلند کرنے کی خاطر اشیا و خدمات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ صرف خرابی لاتا ہے۔
بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو یہ چاہتا ہو کہ اُسے کوئی شے سمجھا جائے۔ انسان اول و آخر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان ہی رہتا ہے۔ وہ احترام کا خواہش مند رہتا ہے۔ جو لوگ قابلِ احترام نہیں ہوتے وہ بھی چاہتے ہیں کہ اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ ایسے میں اندازہ لگائیے کہ جو واقعی قابلِ احترام ہوں اُنہیں اگر احترام کی نظر سے نہ دیکھا جائے تو اُن پر کیا گزرتی ہوگی۔ اور اگر کسی کو اُس کے حصے کا احترام دینے کے بجائے محض شے سمجھا جائے تو؟ ایسے میں معاملات کا بگڑنا لازم ٹھہرا۔ آج کا انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ گھر میں دنیا بھر کی چیزیں بھر لینے سے خوشی مل سکتی ہے‘ کام آسان ہوسکتا ہے۔ بہت حد تک ایسا ہے بھی! مگر ہر معاملے کو صرف اور صرف مادّہ پرست ذہنیت کے ساتھ نہیں دیکھا جاسکتا۔ اشیا و خدمات ہماری زندگی میں جتنی آسانیاں پیدا کرتی ہیں اُتنی ہی مشکلات بھی بھر دیتی ہیں۔ آج ہر انسان باقی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ اب کوئی بھی ملک یا انسان جزیرہ نہیں۔ سب باہم مربوط ہیں‘ ایک چیز کو ہلائیے تو کئی مزید چیزیں بھی ہل جاتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا محض سادہ لوحی ہے کہ کوئی معاملہ باقی دنیا سے ہٹ کر بھی ہوسکتا ہے۔ اشیا و خدمات کی غلامی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان سے محبت کے عنصر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
ہر دور میں اہمیت انسانوں کی رہی ہے۔ اِس حقیقت کو نظر انداز کرنے سے زندگی میں صرف اشیا رہ جاتی ہیں اور یوں وجود کا کھوکھلا پن نمایاں ہو جاتا ہے۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت ترک کرکے ہمیں دوبارہ انسانوں کو اہمیت دینی ہے۔ اِسی صورت ہماری بقا ممکن ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved