تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     08-09-2013

روم کے نیرو کا بیوقوف جنگجو!

ہر شخص اپنی پسند کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ دو روز قبل کئی تصویریں چھپیں۔ اگر مجھے ملالہ یوسف زئی کی وہ تصویریں پسند آئیں جو بچوں کے عالمی ایوارڈ اور برطانیہ میں لاکھوں کتب سے بھری لائبریری کا افتتاح کرتے ہوئے کھینچی گئیں تو ہو سکتا ہے دوسروں کو حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی وہ تصویر اچھی لگی ہو جس میں وہ اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارت کے خلاف دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں ۔ ممکن ہے کچھ کو وہ تصویر پسند آئی ہو جس میں میاں محمد نواز شریف صدر زرداری کو الوداعی عشائیہ دے رہے ہیں جس کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ جمہوریت کا سفر جاری ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے مل جل کر اپنا اپنا مفاد نکالنا‘ معذرت خواہ ہوں‘ میرا مطلب ہے جیو اور جینا سیکھ لیا ہے۔ ہمارے صحافی گرو عامر متین نے اس پر لاجواب ٹویٹ کیا… تین ماہ کے اندر اندر حکومت کا رخ انرجی، پاور اور دیگر بحرانوں سے ہٹ کر اب ’’سری پائے‘‘ کی طرف ہوگیا ہے۔ ایک اور تصویر میں ڈیرہ غازی خان کے کسی علاقے میں گڑھے میں گرنے والے گدھے کو ریسکیو سٹاف ایک گھنٹے کی محنت کے بعد صحیح سلامت نکال رہا ہے۔ چند دن پہلے ملتان میں دو گیدڑ کنوئیں میں گر گئے تھے‘ بھوک پیاس سے بے حال ہو کرانہوں نے چیخ و پکار کی تو کسی رہ گزر نے جھانک کر دیکھا، اُسے ترس آیا اور ریسکیو کو فون کر دیا۔ چار گھنٹے محنت کے بعد ان دونوں گیدڑوں کو نکال کر جنگل میں چھوڑ دیا گیا جس پر لوگوں نے خوش ہو کر نعرے لگائے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کون سی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں ؟ یہ تو طے ہے کہ سب لوگ ایک تصویر پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ ملالہ تعلیم کے ذریعے پاکستان میں انقلاب کی خواہاں ہے تو حافظ سعید اور ان کے ساتھی اس بات پر ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان کے بھارت سے تعلقات بہتر ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں تجارت میں صرف ہندوستان کا فائدہ ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستانی تاجروں نے بیس ارب روپے کا سیمنٹ بھارت کو فروخت کیا اور اس کی طلب بڑھ رہی ہے۔ پیاز اور ٹماٹر بھارت جارہے ہیں جس سے ہمارے کسانوں کا بھلا ہورہا ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وہ کشمیریوں کے خون پر تجارت نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل مشرف سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کو کشمیر میں ڈیڑھ لاکھ کشمیری مروا کر کیا ملا؟ حیران ہو کر جواب دیا‘ کمال کرتے ہیں‘ ان ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں کے مرنے سے تو آج بھارت سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ گویا بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کشمیریوں کی پوری نسل مروا دی گئی۔ شہید ہونے والے کشمیریوں میں کوئی ہمارا نہ تھا لہٰذا سب کو یہ جواب اچھا لگا ہوگا۔ ان کشمیری مائوں سے پوچھئے جن کی پوری جوان نسل ماری گئی اور وہ آج بھی قبرستان میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے باوجود اپنے بچوں کی قبروں سے اٹھ کر گھر جانے کو تیار نہیں ہوتیں۔ وہ لوگ جو آج ہندوستان پر چڑھائی کی کہانیاں بیچ رہے ہیں وہ ہمیں افغانستان فتح کرنے کی کہانیاں بھی بیچتے رہے اور ہم سب شیخ چلی کی طرح یہ کہانیاں خریدتے رہے۔ اب کیا نکلا ہے افغانستان سے ؟ چالیس ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہم خوش ہیں کہ امریکہ افغانستان سے جارہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا ؟ کوئی نہیں جانتا۔ ہم بھارت سے جنگ افغانستان کے راستے لڑنا چاہتے ہیں۔ براہ راست لڑائی کیوں نہیں لڑ لیتے تاکہ ایک ہی بار یہ معاملہ طے ہو۔ ایک طرف یہ تماشے جاری ہیں اور دوسری طرف نواز شریف اور صدر زرداری کی تقریریں سن کر میں بے ہوش ہونے والا تھا۔ ایسی محبت اور ایسا پیار میں نے لندن میں بھی دیکھا تھا جب دونوں پارٹیوں کے سربراہ ایک دوسرے پر قربان ہو رہے تھے۔ ہمیں کئی کہانیاں سنائی گئیں۔ اس وقت جنرل مشرف انہیں مشترکہ دشمن لگتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ کسی دن پیپلز پارٹی اور نواز لیگ مدغم ہوجائیں گی اور بینظیر بھٹو اور نواز شریف مشترکہ سربراہ بن کر نئی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ پھر آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ لاہور کے جلسوں میں شہباز شریف نے اعلان فرمایا کہ وہ اقتدار میں آکر زرداری اور ان کے چالیس چوروں کے ٹولے کو سرعام پھانسی دیں گے اور انہیں گوالمنڈی میں گھسیٹا جائے گا ۔ جواب میں زرداری صاحب نے نوڈیرو میں فرمایا اگر\" مولوی\" نواز شریف نے سیاست سیکھنی ہے تو ان سے سیکھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا اسے لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے۔ اب زرداری صاحب انتہائی مودبانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی قیادت میں پانچ سال کام کرنے کو تیار ہیں‘ سیاست پانچ سال بعد کر لیں گے۔ عرصہ ہوا میرا بھروسہ سیاستدانوں سے اٹھ چکا۔ نواز لیگ کے کچھ دوست وزیر بنے تو کسی کو بھی مبارک باد کا ٹیکسٹ پیغام بھیجنے کو جی نہ چاہا۔ کوئی نہیں جس کا دل سے احترام کرنے کو جی چاہتا ہو ۔ کبھی ان لوگوں سے ملنے کا شوق تھا لیکن اب ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔ جھوٹ سچ ختم ہوگیا‘ پیسہ ہی سیاست ہے! ان سب کی ذہانت پاکستانی عوام کو بیوقوف اور مال بنانے پر خرچ ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کو علم ہے کہ ان کے ساتھیوں نے لمبا مال بنا لیا ہے جسے بچانا ضروری ہے‘ اس لیے اب وہ نواز شریف کی قیادت میں سیاست کرنے کو تیار ہیں۔ نواز شریف اور زرداری نیب کا نیا چیئرمین کیوں لائیں گے؟ مقدمات کا انبار ان کے انتظار میں ہے۔ سب سے پہلے زرداری صاحب کے خلاف گیارہ مقدمات کھلیں گے۔ فرماتے ہیں‘ سوئس مقدمات سے پہلے ڈرے نہ اب ڈریں گے۔ درست فرماتے ہیں۔ اب کیا ڈرنا‘ ساٹھ ملین ڈالر سوئس بنکوں سے منتقل ہو چکے ہیں۔ اس کا علم صرف لندن میں ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو ہے! اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ نواز شریف کی قیادت میں سیاست کرنے کو کیوں تیار ہیں؟ زرداری صاحب نے ترپ کا نیا پتا کس خوبصورتی سے پھینکا ہے! عیاشیوں کی کہانیاں سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایوان صدر میں صحافیوں کو دی گئی ضیافت میں پیش کیے گئے چودہ کھانوں کا شور اٹھنا باقی تھا کہ نواز شریف کی زرداری کو دی گئی دعوت میں یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا! آج کل ایک کتاب پڑھ رہا ہوں‘ The Twelve Ceasars جس میں روم کے بارہ سیزرز کے بارے میں تحقیق کے بعد خوبصورت کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سب سے حیران کن سیزر جولیس نہیں بلکہ نیرو تھا ۔ نیرو نے کھل کر ریاست کا مال لٹایا اور ایک دن آیا کہ اس کے پاس اپنی فوج کو تنخواہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ اس کی عیاشی کی وجہ یہ تھی کہ اسے ایک رومن نائٹKnight) (نے بتا یا تھا کہ صدیوں پہلے ملکہ ڈیڈو قدیم شہر Tyre سے فرار ہوتے ہوئے خزانہ اپنے ساتھ لے گئی تھی اور وہ خزانہ ابھی تک افریقہ کے غاروں میں محفوظ پڑا ہے۔ وہ کسی دن جا کر نکال لائے گا ۔ جب نیرو کو پتا چلا کہ خزانہ نہیں مل رہا تو بادشاہ سلامت نے اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے نہ صرف ڈاکوئوں کی سرپرستی شروع کر دی بلکہ اپنے ہی ساتھیوں کو بلیک میل کر کے ان کی جیبوں سے پیسے نکلوانے لگ گیا۔ روم کے پاس ایک نیرو تھا‘ ہمارے پاکستان نیروز کی طویل فہرست ہے۔ پھر ہمارے نیرو‘ روم کے نیرو کی طرح بیوقوف بھی نہیں۔ روسی نیرو مدفون خزانے کے انتظار میں عیاشی کر رہا تھا لیکن ہمارے ذہین و فطین نیرو ملک سے مال نکال کر لندن، دبئی اور سپین منتقل کر چکے ہیں۔ اگر کسی دن ہمارے نیرو کا نائٹ خزانے کی تلاش میں دبئی جائے تو میں اندر کی خبر بتا دوں… پیپلز پارٹی کے وہ لیڈر جن کی بیگم کے بنک اکائونٹ میں نیشنل انشورنس کارپوریشن کے دو ارب روپے کے سکینڈل میں سے ’’غلطی‘‘ سے چار کروڑ روپے ٹرانسفر ہوگئے تھے‘ اب ان کے سندھی سٹاف افسر (جو لندن مفرور ہیں) کے دبئی کے بنک اکائونٹ سے بھی دو ملین ڈالرز نکلے ہیں اور یہ ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس موجود ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved