تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-01-2023

انگریزی لڑھک رہی

بھارت سے انگریزوں کو وداع ہوئے تو 75 سال ہوگئے لیکن بھارت کے تعلیمی نظام پر آج بھی انگریزی سوار ہے۔ بھارت کے راج کاج‘ پارلیمنٹ کے قوانین‘ عدالتوں کے فیصلوں اور اونچی نوکریوں میں انگریزی کا غلبہ ہے۔ جوں ہی انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور ویب سائٹ کا دور آیا بھارتی لوگوں کو لگا کہ اب ہندی اور دیگر بھارتی زبانوں کی قبر کھد کر ہی رہے گی۔ یہ سب جدید تکنیکیں امریکہ اور یورپ سے آئی تھی اور بھارت میں طوفان کی طرح پھیل رہی تھیں۔ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن موبائل فون‘ انٹرنیٹ یا ویب سائٹوں کا استعمال کرنا چاہتے تھے انہیں مجبوراً انگریزی سیکھنی پڑتی تھی‘ لیکن بھارت کے لوگوں کو اب پتا چلا ہے کہ الٹے بانس بریلی پہنچ گئے ہیں۔ ہندی کے ایک اخبارنے جو تازہ ترین سروے چھاپا ہے‘ وہ بھارتی بھاشا پریمیوں کو گدگدا رہا ہے۔ اس کے مطابق بھارت کے 89فیصد لوگ انٹر نیٹ پر اپنی زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ انگریزی لکھنے‘ بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بھارت میں صرف 12.85 کروڑیعنی مشکل سے 10فیصد ہے۔ صرف اڑھائی لاکھ لوگوں نے اپنی مادری زبان انگریزی بتا ئی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ بھارت میں ان اڑھا ئی لاکھ لوگوں کی مادری زبان بھارت کے 140 کروڑ لوگوں کی قومی بھاشا بنی ہوئی ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں انٹرنیٹ کا جو80 فیصد کام انگریزی میں ہوتا تھا اب وہ 50فیصد کے آس پاس لڑھک گیا ہے یعنی انٹر نیٹ پر لوگ اپنی زبانوں کا استعمال بڑی پھرتی سے بڑھانے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ترجمہ کو اتنا آسان بنادیا ہے کہ آپ دنیا کی اہم زبانوں کو کچھ پلوں میں ہی اپنی زبان میں بدل سکتے ہیں۔ ترجمے کا کاروبار آج کل اکیلے بھارت میں 4.27 لاکھ کروڑ روپے کا ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت میں صرف غیر ملکی زبانوں سے ہی ملکی زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوتا غیر ملکی زبانوں میں بھی ایک دوسرے کا ترجمہ ہوتا ہے۔ بھارت میں درجنوں زبانیں ہیں اسی لیے جلد ہی یہ دنیا کا سب سے بڑا کثیر لسانی ملک بن جائے گا۔ اس سے بھارت کی ایکتا مضبوط ہوگی اور باہمی لسانی دوری بھی کم ہوگی۔ بھارت کی فلمیں بھارت ہی میں نہیں پڑوسی ملکوں میں بھی بڑے شوق کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں۔ اگر ان فلموں کا ترجمہ بھی ان ملکوں کی زبانوں میں ہو گا تو ان سب ملکوں کی ایکتا اور ثقافتی تنوع میں اضافہ ہوگا۔ بھارتی عوام کو بھی پڑوسی ملکوں کے اخباروں اور فلموں کا فائدہ ترجمے کے عمل کے ذریعے جم کر ملتا رہے گا۔ اگر مکمل جنوب اور وسط ایشیا کے ممالک لسانی اعتبار سے روابط بڑھائیں تو کچھ وقت میں ہی ہم یورپ سے زیادہ خوشحال اور طاقتور بن سکتے ہیں۔
تعلیم میں نئی پہل : اس کے خطرے بھی ہیں
بھارت کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایک زبردست نئی پہل کی ہے۔ اس نے دنیا کی 500 ٹاپ یونیورسٹیوں کیلئے بھارت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ وہ اب بھارت میں اپنے کیمپس قائم کر سکیں گی۔یعنی اگر آپ آکسفورڈ‘ ییل اور سٹینفورڈجیسی عالمی صفِ اول کی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیںتو اب اس کیلئے ضروری نہیں کہ ملک سے باہر جایا جائے‘ بھارت میں رہ کر بھی ان یونیورسٹیوں کی ڈگری مل سکتی ہے۔بھارت کی مرکزی حکومت نے غیرملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولنے اور ڈگری فراہم کرنے کی اجازت دینے کی سمت میں پیش قدمی کی ہے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے گزشتہ روز عوامی رد عمل کے لیے ایک ڈرافٹ پیش کیا ہے۔ یہ ڈرافٹ بھارت میں پہلی بار بیرونِ ملک تعلیمی اداروں کی انٹری اور اس کے مینجمنٹ کا راستہ ہموار کرے گا۔ ڈرافٹ کے مطابق بیرون ملکی یونیورسٹیوں کے مقامی کیمپس ہی مقامی اور بیرون ملکی طلبہ کے داخلے سے متعلق اصول‘ فیس اور سکالرشپ پر فیصلہ لیں گے۔ علاوہ ازیں ان اداروں کو فیکلٹی اور سٹاف کی تقرری کے لیے پوری چھوٹ دی جائے گی۔حکومت کا زور ہے کہ بھارتی طلبہ کو کم خرچ میں عالمی سطح کی یونیورسٹیز کی اعلیٰ تعلیم دی جائے۔ مرکزی حکومت کی نئی پیش قدمی سے بھارت میں رہ کر ہی نوجوانوں کو دنیا کی سرکردہ یونیورسٹیز سے جڑنے کا موقع مل سکے گا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مسودہ کو قانون کی شکل دینے سے پہلے منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین پروفیسر ایم جگدیش کمار کے مطابق شروع میں 10 سال کیلئے کیمپس قائم کرنے کی منظوری دی جائے گی اور اس کے بعد اسے بڑھایا جائے گا۔ جب کسی بیرون ملکی ادارہ کو کیمپس شروع کرنے کی منظوری مل جائے گی تو اس منظوری ملنے کے دو سال کے اندر بھارت میں کیمپس قائم کرنا ہوگا۔یہ پیش رفت اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران بھارت کے تقریباً پانچ لاکھ سٹوڈنٹس بیرونِ ملک پڑھنے کیلئے جا چکے ہیں۔ غیر ملکی پڑھائی بھارت کے مقابلے کئی گنا زیادہ مہنگی ہے۔ بھارت کے لوگ اپنی سخت محنت کی کروڑوں ڈالروں کی کمائی اپنے بچوں کی پڑھائی پر خرچ کرنے کو مجبورہوجاتے ہیں۔ ان لاکھوں سٹوڈنٹس میں سے زیادہ تر سٹوڈنٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ بدیشوں میں ہی رہ جائیں اور وہاں رہ کر وہ موٹا پیسہ بنائیں۔ بھارت سے برین ڈرین کا یہ اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ اب جبکہ غیر ملکی یونیورسٹیاں بھارت میںکھل جائیں گی تو یقینا یہ برین ڈرین کم ہو جائے گی اور ملک کا پیسہ بھی بچے گا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا ماننا ہے کہ دنیا کا بہترین تعلیمی نظام بھارت میں شروع ہوجائے گا۔ جس کا فائدہ پڑوسی ملکوں کے سٹوڈنٹ بھی اٹھا سکیں گے۔ ان سب فوائد کی فہرست تو ٹھیک ہے لیکن کیا ہمارے ماہرین تعلیم نے اس معاملے کے دوسرے پہلو پر بھی غور کیا ہے؟ اس کے دوسرے پہلو کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ بھارت میں چل رہی یونیورسٹیوں کا کیا ہو گا؟ یہ یونیورسٹیاں پچھلے ڈیڑھ‘دو سوسال سے انگریزوں اور امریکیوں کی نقال بنی ہوئی ہیں۔ کیا وہ ٹھپ نہیں ہوجائیں گی؟ جن والدین کے پاس پیسے ہوں گے‘ وہ اپنے بچوں کو ان بھارتی یونیورسٹیوں میں کیوں پڑھائیں گے؟ وہ سب غیر ملکی یونیورسٹیوں کے پیچھے دوڑیں گے۔ دوسرا‘ ان غیر ملکی یونیورسٹیوں کو فیس‘ کورسز‘ داخلہ کے قوانین اور فیکلٹی کی تقرریوں کے تعین میں مکمل خود مختاری حاصل ہوگی۔ وہ بھارت کے مفاد کی بات پہلے سوچیں گے یا اپنے ملک کے مفاد کی بات ؟ تیسرے‘ کیا اب بھارت کے اس نئے تعلیمی نظام کی وجہ سے نوجوان نسل میں اونچ نیچ کی تفریق نہیں پیداہوجائے گی؟ چوتھا‘ بھارت کا پورا تعلیمی نظام کیا تب مکمل طور پرنقال بننے کی کوشش نہیں کرے گا؟ پانچویں‘ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھائی کا میڈیم کیا ہو گا؟ کیا وہ بھارتی زبانوں کو میڈیم بننے دیں گے؟ ہرگز نہیں۔اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ برین ڈرین نہیں رُک پائے گا۔چھٹا‘ اس بھاجپا سرکار کوبنے آٹھ سال ہوگئے لیکن نئی تعلیمی پالیسی کسی کاغذی شیر کی طرح خالی پیلی دہاڑ مارتی رہتی ہے۔ اس میں بھارتی تصور کی شمولیت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ جب تک اعلیٰ ترین مطالعہ اور جدید ریسرچ بھارتی زبانوں کے ذریعے نہیں ہو گی اور انگریزی کی اجارہ داری ختم نہیں ہوگی‘ یہ نئی پہل بھارت کیلئے کافی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved