انسان، جانور، چرند، پرند سبھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں صبح سے شام تک کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ایک دن میں‘ جسے ہم نے چوبیس گھنٹوں پہ محیط کیا ہوا ہے‘ جو کچھ کھایا پیا جائے‘ اس کو ہضم کر کے جسم سے باہر پھینکنا پڑتا ہے‘ اگر اس نظام میں تعطل آ جائے تو بیماری اور تکلیف کی شدت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پانی یا سردی و گرمی سمیت ہر موسم میں پئے جانے والے انواع و اقسام کے مشروبات کو ہی لے لیجئے‘ جیسے ہی وہ ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو چار سے چھ گھنٹوں میں انہیں بھی باہر پھینک دیا جاتا ہے‘ ورنہ بیماری اور اس کے بعد تکلیف اور درد کی شدت بے حال کر دیتی ہے۔ جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے پھیپھڑوں اور جسم میں داخل کرتے ہیں‘ اسے اگلے چند ہی سیکنڈز میں باہر نکالنا پڑتا ہے‘ ورنہ ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ بحیثیت ایک انسان نفرت، غصہ، غیبت اور حسد جیسے منفی جذبات کے متعلق کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کتنے دنوں، ہفتوں، مہینوں اور برسہا برس تک ان منفی جذبات کو اپنے جسم میں لیے پھرتے ہیں؟ اگر غصے اور نفرت پر مبنی یہ خیالات اور جذبات اگر جلدی سے باہر نہ پھینکے جائیں اور ان سے نجات حاصل نہ کی جائے تو نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال کسی بھی وقت پچھتاوے کے سمندر میں غرق کر سکتی ہے۔ انسانوں سمیت ہر ذی روح کے غصے اور جسم میں ابھرنے والے ہیجانی ابال سے صرف اس کی اپنی ذات ہی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے اُس زہریلے سانپ کی کہانی ایک کلاسیک مثال کا درجہ رکھتی ہے جس کو اس کے وقتی اشتعال اور غصے نے قیمہ بنا کر رکھ دیا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک گائوں میں شام گہری ہوتے ہی اپنی ورکشاپ بندکرنے کے بعد ترکھان نے معمول کے مطابق اپنے گھر کی راہ لی۔ اس کے جانے کے بعد ایک گھومتا، پھرتا کوبرا ناگ نجانے کہاں سے نمودار ہوا اور رینگتا رینگتا ورکشاپ کے دروازوں کے نیچے سے اندر جا گھسا۔ ادھر ادھر رینگتے ہوئے اندھیرے میں جب وہ ترکھان کے نصب کیے گئے مشینی آرے کے قریب سے گزرا تو آرے کے لمبے اور تیز دندے اس کی سخت اور موٹی کھال میں جا چبھے‘ جس سے اسے معمولی سے زخم بھی آ گئے۔ بس پھر کیا تھا‘ غصے سے کوبرا نے پلٹا کھایا اور آرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کر دیا اور اسے کاٹنے کی کوشش کی۔ اس حملے میں اس کا منہ آرے کے تیز دندوں پر پڑا اور نوکیلے دندے لگنے سے منہ بھی زخمی ہو گیا۔ اب کوبرا کو پہلے سے بھی زیادہ غصہ آیا، منہ پر لگنے والے نئے زخموں نے اسے غصے سے پاگل کر دیا۔ اس نے اپنے پورے جسم کو آرے کے گرد لپیٹتے ہوئے پوری شدت سے کسنا شروع کر دیا تاکہ اس کے دشمن کا سانس بند ہو جائے اور اس کی ہڈیاں کڑا کڑا کر کرچی کرچی ہو جائیں۔ انتقام اور غصے کی شدت کی کیفیت میں کیے جانے والے اس حملے سے جیسے جیسے ناگ آرے کو کسنے کی کوشش کرتا‘ اس کے تیز نوکیلے دندوں سے لگنے والے زخموں سے اسے مزید تکلیف پہنچتی جس سے وہ اور زیادہ غصے سے بھر جاتا اور بے قابو ہو کر آرے کو جکڑنے لگتا تاکہ اس کا یہ انجانا دشمن دم گھٹنے سے ختم ہو جائے۔ اگلی صبح ترکھان اپنے معمول کے مطابق جب ورکشاپ میں داخل ہوا تو ایک عجیب و غریب منظر اس کے سامنے تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا ناگ اس کے آرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہ چیخیں مارتا ہوا باہر کو دوڑا۔ اتنے میں ملحقہ دکانوں کے لوگ بھاگ کر اس کی طرف آئے اور ورکشاپ کے اندر جھانک کر دیکھا۔ ایک شخص نے ایک بڑی سی لکڑی سے ناگ کو ہلا کر دیکھا تو علم ہوا کہ وہ آرے کے گرد مردہ حالت میں پڑا ہے۔ آرا مشین کے نیچے اس کے گوشت کے لوتھڑے اور خون گرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر میں ساری کہانی ترکھان اور وہاں موجود لوگوں کو سمجھ آ گئی۔ ترکھان نے کوبرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس خالی ورکشاپ میں تمہارا کوئی دشمن نہیں تھا‘ تمہیں صرف تمہارے غصے اور اشتعال نے ہلاک کیا ہے۔
ملکی سیاست کا جائزہ لیں تو یہاں بھی ایسی ہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ عمران خان کو پاکستان کے اندر اور باہر جو عوامی مقبولیت مل رہی ہے‘ اس پر خان صاحب کے ناقدین کا غصہ اور اشتعال انتہائوں پر پہنچ چکا ہے۔ حریف سیاسی جماعتیں اپنے تئیں ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے خان صاحب اور پی ٹی آئی کی عوامی حمایت اور مقبولیت کم کی جا سکے مگر اس مقبولیت کا گراف کم ہونے کے بجائے ہر روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایوانِ اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں کے غصے کا پارہ عمران خان کی مزید بڑھنے والی عوامی مقبولیت کے جائزے اور سرویز دیکھنے کے بعد بڑھتا جاتا ہے اور اس غصے اور نفرت میں ان کا ہر اقدام کوبرا کے غصے والا انتقام ثابت ہوتا ہے۔ ہر روز ایک نئی آڈیو اور وڈیو سامنے لانے والوں کو نجانے کس نے خوش فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس سے عمرا ن خان کی مقبولیت کم ہو جائے گی اور اگر سیاست سے عمران خان کو مائنس کر دیا تو پھر ہر طرف پی ڈی ایم کا ڈنکا بجنے لگے گا۔ جب تک یہ جماعتیں عوامی غم و غصے کا اصل سبب دریافت نہیں کریں گی‘ یہ اپنا سارا زور عمران خان کے خلاف لگا کر اسے ضائع کرتی رہیں گی۔ اس بے نتیجہ مشق سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔ گزشتہ کالم میں بھی یہ عرض کیا تھا کہ جو لوگ بھی اس وقت عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں‘ وہ سب پی ٹی آئی کے حامی نہیں ہیں بلکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو موجودہ حکومت کی کارگزاریوں کے سبب بدظن ہو کر عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ مثلاً، کہنے کو یہ حکومتی اتحاد مہنگائی ختم کرنے آیا تھا مگر مہنگائی تو پیچھے رہ گئی‘ اب تو آٹا بھی کمیاب ہو چکا ہے۔ نہ گیس مل رہی ہے نہ بجلی آ رہی ہے۔ ملکی معیشت کی صورتحال الگ سے دل دہلائے جا رہی ہے۔ ایک طرف معاشی حالات ابتر ہو چکے ہیں‘ دوسری جانب پریس کانفرنسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں محض عمران خان کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چودھری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان اور ان کے اہلِ خانہ سے متعلق جو زبان استعمال کی‘ اس نے بتا دیا کہ سیاست میں اخلاقیات کو کون پامال کر رہا ہے۔ یہ غصے اور نفرت کا وہ اظہار ہے جو اقتدار اور طاقت چھن جانے کے خدشے کی وجہ سے غیظ و غضب بن کر ابل رہا ہے۔
ہماری روزمرہ زندگی میں نہ جانے کتنے گھرانے غصے اور نفرت کی وجہ سے اجڑ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ غصہ زیادہ تر معمولی معمولی باتوں پر ہی آتا ہے، مثلاً اس نے مجھے گھور کر کیوںدیکھا، میری گاڑی سے آگے نکلنے کی کوشش کیوں کی؟ موٹر سائیکل یا گاڑی میری گاڑی سے کیوں ٹکرائی، مجھے گالی کیوں دی۔ گالی سن کر طیش سے بے قابو ہونے والا جب سامنے والے کو زخمی یا قتل کر دیتا ہے تو اپنے اس جرم کی پاداش میں قانون کے ہتھے چڑھنے کے بعد تھانے، کچہری اور جیل میں معمولی معمولی اہلکاروں سے اسے نہ جانے کتنی مغلظات اور گالیاں سننا پڑتی ہیں۔جب وہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس کے اہلِ خانہ کو جیل یا بخشی خانے میں اس سے ملنے کے مراحل طے کرتے ہوئے جس قسم کے رویوں اور نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ مقدمے کی سنگینی جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے تو وہ شخص‘ جس نے گالی پر مشتعل ہو کر مخالف کو قتل یا زخمی کیا ہوتا ہے‘ وہ اپنے والدین اور گھر والوں کو اسی آدمی کے گھر معافی مانگنے کیلئے بھیجتا ہے‘ جو متعلقہ شخص اور اس کے گھر کے ایک ایک فرد کے سامنے ہاتھ جوڑ کراور پائوں پکڑ کر معافی مانگتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میںمعمولی معمولی باتوں پر غصے میں آکر ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑا‘ لیکن اس کوشش میں ہم نے اپنا بہت زیا دہ نقصان کر لیا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہئے کہ اچھی زندگی کیلئے کچھ چیزوں‘ کچھ لوگوں‘کچھ حوادث اور کچھ باتوں کو نظر انداز کر د یا کرے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔
میں ایک بار پھر دعوے سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ عمران خان کے پاس بھی اپنے سیاسی مخالفین کی بہت سی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جن کا جہاں سے چاہے فرانزک کر ا لیا جائے‘ ٹیریان کی طرح کے کیسز بھی بعید از حقیقت نہیں۔ اس لیے یہ کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ یہیں روک دیں‘ کہیں ایسا نہ ہوکہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق دوسری جانب سے بھی گولہ باری شروع ہو جائے۔ ایسے میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved