سابق وزیراعظم عمران خان سے جو بھی اختلاف کیا جائے‘ اور ان کے مختلف اقدامات و بیانات پر جو بھی تنقید کی جائے‘اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔اُن کی جماعت پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں برسر اقتدار ہے۔ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی قیادت اُسی کے پاس ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اُسی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر ایوانِ صدارت میں رونق افروز ہیں۔قومی اسمبلی سے اگر استعفے نہ دیئے جاتے تو اس میں بھی حزبِ اختلاف کی قیادت اُسی کے حصے میں آتی۔ عمران خان خود یا اُن کا کوئی نامزدہ کردہ شخص اس منصب پر فائز ہوتا۔ اب بھی اُن ہی کے ایک منحرف رکن راجہ ریاض یہ ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔آئندہ انتخابات میں بھی عمران خان بھرپور انداز میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔اُن کا اور ان کے حامیوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ وہ نہ صرف کامیابی حاصل کریں گے بلکہ دو تہائی اکثریت اُنہیں ملے گی‘ اور اس کے بعد وہ دستور میں ایسی تبدیلیاں کر سکیں گے جن کے بعد ان کے ایجنڈے کی تکمیل ممکن ہو جائے۔ کوئی اُن کے راستے میں روڑے نہ اٹکا سکے۔ عدالتی نظام کی اصلاح ہو‘ اور انتظامیہ بھی اُن کے سامنے کورنش بجا لانے پر مجبور ہو۔ ممکن ہے وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکیں اور نظام میں تبدیلی کا اُن کا خواب پورا نہ ہو پائے‘ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تن تنہا حکومت بنانے کے قابل نہ ہوں۔اُنہیں حسب ِ سابق اپنے اتحادی تلاش کرنا پڑیں‘اور پھر ان کے ناز‘نخرے اٹھاتے اٹھاتے ماہ و سال گزر جائیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اُنہیں حزبِ اختلاف کی نشست ہی پر تشریف رکھنا پڑے‘اور وہ اپنے جن حریفوں کو کمزور سمجھ رہے ہیں‘وہ ان کے مقابلے میں بڑی طاقت بن کر ابھریں‘اور حکومت بنانے میں اسی طرح کامیاب ہو جائیں‘ جس طرح چند ماہ پہلے ہوئے تھے۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے‘اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں نہ مقبولیت مستقل ہوتی ہے‘نہ عدم مقبولیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔محبوب کے مزاج کی طرح عوام کا موڈ بھی بدلتا رہتا ہے۔ آج وہ کسی ایک کو سر پر بٹھائے ہوتے ہیں‘ تو کل کسی دوسرے کو دل میں جگہ دے دیتے ہیں۔ایک وقت تھا عمران خان کو اپنی ایک نشست جیتنے کے لیے ایڑی اور چوٹی کا زور لگانا پڑتا تھا‘ایک وقت وہ آیا کہ ان کی حکومت قائم ہو گئی‘ پھر یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ برسر اقتدار ہوتے ہوئے ضمنی انتخابات میں شکست پر شکست کھانا پڑی‘ اقتدار ختم ہوا تو اب ان کا طوطی بول رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر اقتدار میں آنے کا عزم کیے ہوئے ہیں‘فی الفور انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک دن کی تاخیر بھی گوارا نہیں۔ان کے مخالف جو اپوزیشن میں تھے‘تو انتخاب انتخاب کی رٹ لگائے ہوئے تھے‘آج اقتدار پر براجمان ہیں تو اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر بضد ہیں۔اس سب تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کا انکار کیا جا سکتا ہے‘نہ ان کے حریفوں کا۔دونوں اپنی اپنی جگہ حقیقت ہیں۔
اگر ایسا نہ بھی ہوتا‘ عمران خان سابق وزیراعظم نہ ہوتے‘ آج کے مقبول لیڈر نہ ہوتے‘کئی صوبائی حکومتیں ان کی جیب میں نہ ہوتیں۔ وہ محض ایک عام شہری ہوتے‘ ایک کھلاڑی ہوتے یا اناڑی ہوتے‘تو بھی اُن کی جان ‘مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی۔اگر ان پر حملہ ہوتا‘ کوئی اُن کی جان لینے کی کوشش کرتا‘ تو ریاست کا فرضِ اولین ہوتا کہ اُسے گرفتار کرے‘ واردات کی تہہ تک پہنچے‘ اور جو جو بھی اس میں ملوث ہو اُسے کیفر کردار تک پہنچائے۔ ہر ریاست پر اپنے ہر شہری کی حفاظت لازم ہے‘ کوئی بھی ریاست یا اس کا کوئی منصب دار یہ نہیں کہہ سکتا کہ قانون سب کے لیے یکساں نہیں ہے۔ ہر شہری کا تحفظ ضروری نہیں ہے۔اگر کسی ریاست میں کوئی ایسی بات کہے اور اسے پذیرائی بھی بخشی جائے تو پھر وہ ریاست‘ ریاست کہلانے کی حق دار نہیں ہو گی۔ اسے جنگل سمجھا جائے گا اور اس میں بسنے والے ایک دوسرے کے ساتھ وہ کچھ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے جو جنگل میں کیا جاتا ہے۔
پاکستان الحمدللہ ایک باقاعدہ ریاست ہے‘ اسلامی جمہوری ریاست‘ اس کا ایک تحریری دستور ہے‘ اس کی انتظامیہ‘ عدلیہ سب اپنی اپنی جگہ محفوظ اور مضبوط ہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہوا ہے کہ عمران خان پر حملے کو دوماہ ہونے کو آئے ہیں‘ عمران خان کی تسلی اور تشفی کے مطابق تفتیش آگے نہیں بڑھ پائی۔عمران خان آج بھی پریس کانفرنسیں کررہے ہیں‘ بیانات دے رہے ہیں‘ مطالبات کر رہے ہیں‘ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ پوچھ رہے ہیں کہ جن لوگوں پر ان کو شک ہے‘ ان سے استفسار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ عمران خان کے الزامات غلط ہو سکتے ہیں‘ ان کے شبہات اور خدشات واہمہ ہو سکتے ہیں‘ ان پر سیاست کاری کا الزام لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کے اس مطالبے سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کوئی عدالتی کمیشن پورے معاملے کا جائزہ لے اور دیکھے کہ تفتیش کے راستے میں کون‘ کون کہاں کہاں اور کیوں رکاوٹ ڈال رہا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان بھی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ جناب چیف جسٹس کو خط لکھ چکے ہیں‘ لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی‘ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ عمران خان اور حکومت ایک نکتے پر جب متفق ہیں کہ عدالتی کمیشن بن کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرے‘ تو اس پر مل کر بیٹھ جانا چاہیے‘ اپنے اپنے قانونی ماہرین کو ساتھ بٹھائیں اور عدالتی کمیشن بنانے (یا بنوانے) کے لیے مشترکہ اقدام کریں۔سوالات عمران خان کے ہوں یا رانا ثناء اللہ کے‘ جوابات دینا ہوں گے‘ دینا پڑیں گے!!!
چودھری اشرف (ایم این اے) کی گرفتاری
پاکستان کے سینئر ترین پارلیمنٹرین چودھری اشرف(ایم این اے) کو محکمہ انسداد رشوت ستانی پنجاب نے جس بھونڈے انداز سے گرفتار کیا‘اس کی ملک بھر میں شدید مذمت کی گئی۔اب عدالت نے ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے۔چودھری صاحب کی عمر ستاسی برس ہے‘اور وہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے قومی سیاست میں سرگرم ہیں۔انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ خان اور چودھری محمد علی کی صحبت سے استفادہ کیا‘ اور پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حاکمیت کی بحالی کے لیے مصروفِ جہد رہے۔ وہ ایک قومی اثاثہ ہیں‘اور انہیں ملک بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔محکمہ انسداد رشوت ستانی کا دائرہ عمل سرکاری اہلکاروں تک محدود ہے‘عوامی نمائندوں کے خلاف کارروائی کی اسے قانون اجازت نہیں دیتا۔ چودھری صاحب کو ایک زمین کی الاٹمنٹ کے معاملے میں ملوث کرنے کے لیے جو ایف آئی آر گھڑی گئی‘ وہ چیخ چیخ کر جھوٹی ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ذاتی طور پر اس زیادتی کا ازالہ کرنا چاہیے‘ اور اظہارِ معذرت کے ساتھ ذمہ داران کو سزا بھی دینی چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved