تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     08-01-2023

بھولا کون نکلا…

اگرچہ ماضی میں پاکستان کے بعض آرمی چیفس تنازعات کا شکار ہوئے خصوصا ًان کا سیاسی رول تنقید کا سبب رہا ۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تو براہ راست اقتدار کی وجہ سے سیاست میں ملوث رہے لہٰذا ان پر تنقید سمجھ میں آتی ہے لیکن ان کے علاوہ جن جرنیلوں کے سیاسی کردار پر بہت تنقید ہوئی جنرل باجوہ ان میں ٹاپ پر نظر آتے ہیں۔ جنرل باجوہ چھ سال تک آرمی چیف رہے اور ان برسوں میں پانچ وزرائے اعظم گزرے لہٰذا ان کا سیاسی رول اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ اس بوجھ سے جان نہیں چھڑاپارہے۔
جنرل باجوہ نے شاید عمران خان کے بارے غلط اندازے لگائے تھے جیسے 1990ء میں جنرل اسلم بیگ نے نواز شریف بارے غلط اندازے لگائے تھے۔ جنرل بیگ اور غلام اسحاق خان کا خیال تھا کہ نواز شریف بھولا بھالا اور نہاری‘ پائے کھانے والا روایتی لاہوری ہے۔ کھابے کا شوقین۔ کہاں وہ گورنر پنجاب گورنر جیلانی کے دفتر کے باہر مٹھائی کے ڈبے لے کر ملاقات کا انتظار کرتے اور کہاں وہ انہیں ملک کا وزیراعظم بنا رہے تھے ‘حالانکہ غلام مصطفی جتوئی نے وزیراعظم بننا تھا۔ جنرل بیگ نے بھی یہی سوچا کہ یہ بھولا بھالا لاہوری بابو ساری عمر اِن کے احسانات تلے دبا رہے گا۔ اسی ''بھولے بھالے‘‘ نے صرف چند ماہ بعد اسلم بیگ صاحب کو دھوبی پٹرا مارا کہ پاکستانی تاریخ میں شاید پہلی دفعہ کسی نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان تین ماہ پہلے کر دیا گیا۔ سنا ہے یہ مشورہ دینے والے میجر عامر تھے‘ جب یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ جنرل بیگ مارشل لاء لگانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
میجر عامر‘ جو اُس وقت نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کے پراجیکٹ میں شامل تھے ‘کا خیال تھا کہ فوج نئے چیف کی طرف دیکھتی ہے‘جونہی نئے چیف کا اعلان ہوگا اسلم بیگ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ وہی ہوا کہ جب تین ماہ پہلے ہی جنرل آصف نواز جنجوعہ کو نیا چیف بنانے کااعلان ہوا تو اسلم بیگ صاحب کا کھیل ختم ہوگیا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ نامزد چیف جنرل جنجوعہ خود گھبرائے ہوئے تھے کہ جنرل بیگ ان تین ماہ میں انہیں کوئی پروفیشنل نقصان نہ پہنچا دیں۔ جنرل جنجوعہ کی کونسلنگ کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے کہ انہیں میجر عامرجیسے ماتحت تسلیاں دے رہے تھے کہ سر حوصلہ رکھیں۔ وہی جنرل جنجوعہ کچھ عرصہ بعد ایک فہرست تیار کرچکے تھے جنہیں مائنس کرنا اور نواز شریف کو ہٹانا تھا۔ جنرل جنجوعہ بھی نواز شریف کی طرف سے بی ایم ڈبلیو گاڑی کی چابی اور ان کے ڈی جی آئی بی کی طرف سے ان کے فون ٹیپ کئے جانے پر ناراض تھے۔
فون ٹیپنگ‘ جس پر عمران خان آج کل ناراض ہیں وہ ہر دور میں ہوتی رہی ہے لیکن آج کے ڈیجیٹل میڈیا دور میں یہ بڑا سکینڈل بن جاتا ہے۔ دوسرے‘ عمران خان نے ریکارڈنگ کے مسئلے کو اس طرح اجاگر کیا کہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا گیا تھا۔خیر ہر دور میں مقتدرہ کا یہی مانناتھا کہ سیاستدان نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ نااہل بھی ہیں اور ملک چلانے کی ان میں صلاحیت نہیں اور وہی سامنے یا پیچھے بیٹھ کر ملک چلا سکتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ پاک بھارت یا افغانستان پالیسی ہے۔ چالیس سال سے یہ معاملات براہ راست فوج دیکھتی آئی ہے‘ سیاستدانوں نے اگر ان معاملات کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو ان کا انجام برا ہوا۔ بینظیر بھٹو نے پہلے دورِ حکومت میں راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تو وہ ہمیشہ کے لیے سکیورٹی رسک قرار پائیں ۔ ان کے بعد نواز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن انجام جیل میں ہوا اور کارگل کرنے والے پرویز مشرف مارشل لاء لگا کر دس سال حکومت کرگئے۔یہی سوچ شاید باجوہ صاحب کی تھی۔ وہ نواز شریف کو گرانے کے بعد پُراعتماد تھے کہ اب وہ عمران خان کو لا کر نہ صرف ان سے توسیع لیں گے بلکہ ان کے سرپرست بن کر انہیں چلائیں گے‘ جیسے غلام اسحاق خان اور جنرل بیگ نے نواز شریف کو چلانے کی کوشش کی تھی۔جنرل باجوہ سے بھی عمران خان کو سمجھنے میں وہی غلطی ہوئی جو جنرل بیگ سے نواز شریف کو سمجھنے میں ہوئی تھی۔ شروع میں جب تک نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے تھے وہ بھی بھولے پن کی فنکاری کرتے رہے کہ وہ یس باس ٹائپ ہیں۔ عمران خان نے بھی یہی روٹ لیا تھا کہ پورے ملک کو لگتا تھا کہ ان جیسا معصوم اور بھولا کوئی نہیں‘ خصوصا ً صحافی ‘اینکرز اور دانشور تو اپنی اولاد بارے اتنے فکر مند نہیں تھے جتنی فکر انہیں عمران خان کی تھی کہ یہ سادہ لوح انسان کسی کے ہاتھوں غلط استعمال نہ ہوجائے۔ ہر کوئی عمران خان کا ایڈوائزر لگ گیا کہ میں آپ کو سمجھائوں گا کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کیسے لیڈر بننا اور حکومت بنانی اور چلانی ہے۔ عمران خان ان تمام برسوں میں اپنی فنکاری سے سب کو سنتے اور اپنا استاد مانتے رہے لیکن جونہی وہ وزیر اعظم بنے انہوں نے ان سب کو ایسے دبایا کہ چیخیں نکل گئیں۔ سب صحافی ‘ کالم نگار اور اینکرز جو اُنہیں بھولا سمجھ کر گھنٹوں لیکچر دیا کرتے تھے اب انہیں بولنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔خان صاحب ہی ان ملاقاتوں میں بولتے اور مسلسل بولتے رہتے تھے۔
جنرل باجوہ بھی عمران خان کو بھولا سمجھ کر ان کے گائیڈ بن بیٹھے اور اپنے مینڈیٹ سے بہت آگے نکل گئے۔ جب آپ پانچ وزرائے اعظم کو بھگتاتے ہیں‘ چھ سال چیف رہتے ہیں‘ اینکروں سے ہر ہفتے ملتے ہیں اور سیاسی طور پر بہت ایکٹو ہوتے ہیں تو پھر آپ تیار رہیں کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد آسان زندگی نہیں گزار پائیں گے کیونکہ آپ نے بہت دوستیاں‘ دشمنیاں بنا لی ہوتی ہیں۔
جنرل باجوہ سب کو بتاتے تھے کہ جنرل وحید کاکڑ ان کے پسندیدہ آرمی چیف تھے۔ اگر وہ بھی اپنے رول ماڈل کا راستہ فالو کرتے تو آج وہ اس صورتحال کا سامنا نہ کررہے ہوتے۔جنرل باجوہ نے جب عمران خان سے توسیع لے لی تھی تو خان صاحب ان کا وہ احسان اُتار چکے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کو جیل میں ڈلوا کر انہیں الیکشن جتوا کر وزیراعظم بنوایا ۔ اب حساب برابر ہوگیا تھا۔پچھلے دنوں عمران خان نے ایک اہم بات کی کہ توسیع ملنے کے بعد جنرل باجوہ کا رویہ بدل گیا تھا‘ وہ اب کوئی اور جنرل باجوہ تھے‘ بالکل مختلف۔ شاید عمران خان ان سے مکمل وفاداری کی توقع کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں توسیع دے چکے تھے۔
اگرچہ جنرل باجوہ خان صاحب کو بھولا سمجھتے تھے لیکن خان صاحب نے بڑا سمارٹ کارڈ کھیلا ہوا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے جہاں ایک طرف جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں تین سال توسیع کا اشارہ دے رکھا تھا تو دوسری طرف جنرل فیض سے بہترین تعلق قائم کر کے ان کی اگلی اہم تعیناتی کی امید پیدا کر دی یوں دونوں کے مفادات عمران خان سے جڑ گئے تھے۔ اس طرح تین سال میں عمران خان نے جتنی پاور اور اقتدار انجوائے کیا وہ شاید ہی پاکستانی تاریخ میں کوئی اور وزیراعظم کرسکا ۔ذاتی مفادات کا کھیل ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے‘ جہاں چڑھدے سورج کو سلام اور ڈھلتے کی طرف پیٹھ کی جاتی ہے۔یوں وہ دونوں جو کبھی پراجیکٹ عمران خان کے آرکیٹکٹ تھے اور خان کو بھولا سمجھتے تھے وہی خان ان پر گولہ بن کر گرا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved