تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     08-01-2023

ڈونر کانفرنس اوردیوالیہ پن کے معاشی اثرات

سیلاب سے ہونے والے نقصان کے سدباب کے لیے عالمی ڈونرز کانفرنس 9 جنوری کو جنیوا میں ہوگی۔ یہ کانفرنس اقوام متحدہ اور پاکستان کے تعاون سے ہو رہی ہے اور یو این کے سیکرٹری جنرل اور وزیراعظم پاکستان اس کی صدارت کریں گے۔حکومت کی جانب سے سیلاب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 30 ارب 10 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے اور فوری طور پر بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے 16ار ب ڈالر کی ضرورت ہے اور حکومت عالمی برادری سے 8 ارب ڈالرزکی فراہمی کے لیے درخواست کر ے گی جبکہ 8ارب ڈالرز ملکی وسائل سے خرچ کیے جائیں گے۔ عالمی ڈونر کانفرنس میں 50 سے زیادہ ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے بشمول اقوام متحدہ کے ادارے شریک ہوں گے۔ حکومت کو امید ہے کہ عالمی برادری خاطر خواہ فنڈز فراہم کرے گی۔حکومت کے مطابق اب تک پاکستان سیلاب متاثرین اور سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے ایک ارب 50کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے اور رواں مالی سال میں اپنے وسائل سے مزید 400ارب روپے خرچ کرے گا۔ اب تک عالمی برادری سے ملنے والی امداد ابتدائی ریلیف کی صورت میں ہے جو این ڈی ایم اے کے ذریعے استعمال میں لائی جارہی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کریں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز پہلے ہی جنیوا میں موجود ہیں۔ حکومت نے چین سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اداروں سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ عالمی برادری خاطر خواہ فنڈز فراہم کرے گی۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں عالمی برادری پاکستان کو 8 ارب ڈالرز کی امداد دے سکے گی؟ اس وقت پوری دنیا میں معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کی امداد کا رخ یوکرین کی طرف ہے۔ یوکرینی شہری امریکہ، یورپ اور برطانیہ میں پناہ حاصل کر رہے ہیں اور ان کی معیشت پر بڑا بوجھ ہیں۔اس سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی دنیا بھر سے پاکستان کی مدد کی اپیل بھی زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں نومبر میں اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام مصر میں ہونے والی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کوپ 27) سے بھی پاکستان کو بہت امیدیں تھیں لیکن عملی طور پر مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔
امریکہ نے 2010ء کے سیلاب کے بعد پاکستان کو تقریباً چھ سو ملین ڈالرز کی امداد دی تھی جبکہ 2022ء کے سیلاب میں صرف 53 ملین ڈالرز کے وعدے کیے گئے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد‘ دو ہفتوں میں ہی تقریباً 60 ممالک نے امداد کا اعلان کر دیا تھا لیکن 2022ء کے سیلاب کے بعد اب تک محض 12 ممالک نے امداد کے وعدے ہی کیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا اب ہماری مدد نہیں کرنا چاہتی۔دنیا امداد کے حوالے سے روڈ میپ مانگ رہی ہے کہ اسے بتایا جائے کہ یہ پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہو گا لیکن حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے بلکہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح ماضی میں امداد دی جاتی رہی ہے‘ اس مرتبہ بھی اسی طرزپر مدد کی جائے اور زیادہ حساب کتاب نہ مانگا جائے۔ ہمارے حکمران شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ اب پاکستان کی اہمیت دنیا میں پہلے جیسی نہیں رہی۔ آئی ایم ایف کا معاملہ ہو یا سیلاب زدگان کی امداد‘ دنیا کے معیار اور اس کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔وزیر خزانہ صاحب جانتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کا جو پروگرام اپنے پچھلے دورِ حکومت میں مکمل کیا تھا‘ اس پر آئی ایم ایف نے سولہ سے زیادہ شرائط پر چھوٹ دی تھی کیونکہ اس وقت امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا تھا اور اسے پاکستان کی سپورٹ درکار تھی۔ حکمران طبقہ اب سنجیدگی سے سوچنے لگا ہے کہ کسی طرح امریکہ کو دوبارہ انگیج کیا جائے۔ یہ شاید حکومت کا آخری حربہ ہو۔ اگر ڈونر کانفرنس میں کامیابی نہ مل سکی اور دوست ممالک سے بھی فوری قرض نہ مل سکا تو آئی ایم ایف کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ اگر آئی ایم ایف کے مطالبات بھی نہیں مانے جاتے تو ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
اکثر لوگ آج کل سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ یہ جاننے کے لیے سری لنکا کے حالات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا میں ''صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا‘‘ والا معاملہ ہے۔یعنی صبح سے شام تک کی زندگی کسی جنگ سے کم نہیں۔ پورے ملک میں زندگی بچانے والی ادویات ناپید ہو چکی ہیں اور اگر کہیں مل بھی رہی ہیں تو ان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر طبقہ بھی انہیں خریدنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ ادویات نہ ملنے کی وجہ سے متعدد لوگو ں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت نہایت ابتر ہے۔ ایک نوجوان کو سانپ نے ڈس لیا‘ اس کا باپ اسے کئی سرکاری ہسپتالوں میں لے کر گیا لیکن سانپ کے کاٹے کی دوائی نہیں مل سکی اور جوان بیٹا مر گیا۔ پٹرول ڈلوانے کے لیے دو دنوں یعنی 48 گھنٹوں تک لائن میں کھڑے ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ لوگ اپنا بستر وغیرہ گاڑی‘ رکشے میں رکھ کر لاتے ہیں اور لائن میں کھڑے رہ کر اپنی نیند پوری کرتے ہیں۔بچوں کی پوری نسل پروٹین سے بھرپور کھانا کھانے سے محروم ہو رہی ہے۔ دال بھی لگژری آئٹم بن چکی ہے۔ سری لنکن عوام کی اکثریت مخصوص سبزیاں کھانے پر مجبور ہے۔ وہ چکن، فش اور گوشت خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ بچوں کے دل، دماغ، پٹھوں اور ہڈیوں کو وہ منرلز اور وٹامنز نہیں مل رہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔دودھ کا پاؤڈر چونکہ درآمد ہوتا ہے‘ اس لیے بازاروں سے وہ بھی غائب ہو چکا ہے۔ سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے فرٹیلائزر درآمد کرنا پڑتا تھا‘ وہ بھی ناپید ہے۔ ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے درآمدات بہت مشکل ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے عمومی استعمال ہونے والی سبزیوں اور پھلوں کی بھی قلت پیدا ہوا چکی ہے۔ پاکستانی عوام یہ صورتحال افورڈ نہیں کر سکتے۔اس کے علاوہ دیوالیہ پن کے نتائج اور اثرات کے حوالے سے کچھ دیگر پہلوئوں پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ دیوالیہ ہونے والے ملک کی املاک (ہوٹل وغیرہ)جو کسی دوسرے ملک میں ہوں‘ وہ قبضے میں لی جا سکتی ہیں؛ البتہ سفارت خانوں پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے پر اس کے سٹرٹیجک اور دفاعی اثاثوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ اس حوالے سے اکثر یوکرین کی مثال دی جاتی ہے‘ اس ضمن میں واضح رہے کہ نہ تو یوکرین نے ڈیفالٹ کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ ہوا تھا‘ اس کی روداد کچھ اور ہے۔
اگر کوئی کمپنی بینک کا قرض واپس نہ کر سکے یا ادائیگی سے انکار کر دے تو بینک اسے عدالت میں گھسیٹ کر اپنا قرض نکلوا سکتا ہے، لیکن کسی ملک کی جانب سے قرضوں کی عدم ادائیگی یا انکار پر اسے عالمی عدالت میں نہیں لے جایا جا سکتا اور ایسی کوئی مثال بھی موجود نہیں۔ البتہ اُس ملک پر عالمی اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے اور مستقبل کا مالی بندوبست مشکل ہو جاتا ہے۔میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دیوالیہ ہونے کے بعد واپسی کا سفر بہت لمبا اور کافی کٹھن ہوتا ہے۔ یونان آج سے لگ بھگ دس سال قبل دیوالیہ ہوا تھا۔ یورپی یونین کی مکمل سپورٹ کے باوجود وہ آج تک پرانی حالت میں بحال نہیں ہو سکا۔ ارجنٹائن گزشتہ دس سال میں دو مرتبہ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ عالمی طاقتیں مل کر بھی اسے بحران سے نہیں نکال پائی ہیں۔ بینک آف انگلینڈ اور بینک آف کینیڈا کے مشترکہ ساورن ڈیٹ ڈیٹا بیس کے مطابق 1960ء کے بعد سے 147 ممالک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان 1998ء میں اُس وقت جزوی ڈیفالٹ کر گیا تھا جب ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی پابندیوں کے بعد فارن ایکسچینج بانڈز پر ادائیگیں نہیں کر سکا تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر محض چند ملین ڈالرز تک سکڑ گئے تھے۔ لیکن ماضی اور دیگر ملکوں کی مثال کی بنیاد پر پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈونر کانفرنس اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کو کامیابی ملتی ہے یا نہیں‘ اس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہی ہو سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved