کسی بھی معاشرے میں جب معاملات انتہائی خرابی کی طرف جاتے ہیں تب کسی نہ کسی بہتری کی راہ ضرور ہموار ہوتی ہے۔ جب کوئی راستہ نہیں بچتا تب نئی راہ نکالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور لوگ نئی راہ نکالنے پر مائل ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی زندہ معاشرے پر کوئی کڑا وقت آیا ہے‘ تب کسی نہ کسی بہتری کی ابتدا ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم طرح طرح کی خرابیوں سے دوچار ہونے کے بعد ہی اصلاح اور ترقی کی طرف گئی ہیں۔ یہ فطری عمل ہے۔ کوئی بھی قوم دھیرے دھیرے اچھے وقت کی طرف بڑھتی ہے۔ پھر دورِ عروج آتا ہے۔ اِس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے اور جب زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہوتا ہے تب سبھی کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ ایسے میں سبھی کو یہ لگتا ہے کہ اب وجود برقرار رکھنا بھی ممکن نہ رہے گا مگر ایسا ہوتا نہیں۔ انتہائی نوعیت کی خرابیوں ہی کے بطن سے اچھائی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور بقا کے بحران سے دوچار معاشرہ یا قوم دھیرے دھیرے سنبھلنے لگتی ہے اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب اُس کا استحکام اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی قوم ہے جو کبھی اپنی بقا کے بحران سے دوچار تھی۔
آج کا پاکستان انتہائی نوعیت کے معاملات سے دوچار ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جس کے درست ہونے کا شائبہ محسوس ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کچھ بچا ہی نہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے اور دوسری طرف مایوسی کا شکار ہے۔ مایوسی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ معاشی مشکلات سے سبھی معاشروں اور اقوام کو نمٹنا پڑتا ہے۔ کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جسے زندگی نے تمام نعمتیں پلیٹ میں سجاکر پیش کردی ہوں۔ ہر قوم کو اپنے حصے کے مسائل ملتے ہیں اور وہ مسائل حل بھی کرنا ہوتے ہیں۔ بحرانی کیفیت صرف ہمارے لیے نہیں۔ دنیا کی ہر قوم کسی نہ کسی حوالے سے بحران سے دوچار رہتی ہے۔ ہم اپنے ہی خطے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو ہر اعتبار سے پُرسکون حالت میں ہو۔ بھارت ہی کی مثال لیجیے۔ وہاں ملک سے الگ ہونے کے خواہش مند کم نہیں اور اس حوالے سے کم از کم بارہ علیحدگی پسند تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تو بات ہی چھوڑ دیں‘ شمال مشرقی بھارت کے بعض علاقے سکیورٹی فورسز کے لیے نو گو ایریاز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ریاستوں کو اب تک کوئی بھی مرکزی حکومت مکمل طور پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ افغانستان کی صورتِ حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ سری لنکا میں جو کچھ ہوا‘ وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔ بنگلہ دیش کے بارے میں آج کل یہ بات بہت زور و شور سے کہی جارہی ہے کہ وہ ہر اعتبار سے اپنوں اور پرایوں کے لیے جنت بن چکا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے قدم قدم پر سنہرے مواقع موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شیخ حسینہ واجد کی حکومت یہ دعوے بھی کرتی پھر رہی ہے کہ عام آدمی کی زندگی بہت مزے کی ہوچکی ہے اور محض چند برس میں معاملات اتنے موافق ہوگئے ہیں کہ اب بنگلہ دیش کو بہت حد تک فلاحی ریاست قرار دیا جاسکتا ہے۔ کوئی ملک اگر اپنے معاملات کو اس حد تک درست کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بہت اچھی بات ہے مگر محض دعووں کی بنیاد پر کسی حقیقت کا یقین نہیں کیا جاسکتا۔ کل تک بھارت کے شکنجے میں کَسی ہوئی شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ملک کو اتنی ترقی کیسے دے ڈالی؟ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ شیخ حسینہ واجد کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کوپوری طرح دبوچ رکھا ہے۔ ایسے میں کیونکر یقین کیا جاسکتا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے معاملے میں اپنی پالیسیاں درست کرلی ہوں گی؟ ایک طرف معاشی ترقی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے قرض لے رہا ہے۔ بہر کیف‘ آج کا پاکستان اُس مقام پر کھڑا ہے جو معاملات کو انتہائی پریشان کن حالت میں پیش کرتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں مسائل کی بھرمار ہے۔ بحران پر بحران آرہے ہیں اور معاملات کو انتہائی درجے کی خرابیوں کی طرف لے جارہے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور ہیں بھی۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو‘ ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاملات کو اس حد تک خرابی سے دوچار کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہماری اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ہے۔ کسی بھی قوم کو اصلاحِ احوال کے لیے اول و آخر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑتا ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔ اپنے زوال کے لیے کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کہیں بڑھ کر ہمیں اپنا احتساب کرنا ہے۔ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے ہی کی صورت میں ہم اپنے لیے کوئی راہ نکال پائیں گے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم حقیقتاً کہاں کھڑے ہیں اور یہاں سے کس طرف جاسکتے ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اِس کا درست جواب ہی ہمیں راہ دکھائے گا۔ آج بہت کچھ بہت تیزی سے بدل گیا ہے۔ دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہی ہے۔ تمام ہی معاملات دھیرے دھیرے ایسے ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں انسانوں کے لیے گنجائش کم سے کم اور مشینوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ہوگی۔ اس چیلنج کا ہمیں بھی سامنا ہے۔ یہ تو ہوا تکنیکی معاملہ! سیاسی معاملات کی خرابی بھی نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں سیاست محض تمسخر اور المیہ ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاست کو محض اقتدار بٹورنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسی سوچ جو گُل کِھلا سکتی ہے وہی گُل کِھل رہے ہیں۔ اپنی بد اعمالیوں کا جائزہ لینے سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ غلطی کہاں کہاں ہوئی اور اب اصلاحِ احوال کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔ یہ عمل پوری دیانت اور غیر جانبداری کے ساتھ ہونا چاہیے۔ غیر جانبداری ازحد لازم ہے کیونکہ کسی کو رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ مثبت سوچ برقرار رہے تو زندگی پنپتی ہے، بہت کچھ کرنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے۔ اگر ہم ایک قوم کی حیثیت سے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو بہت کچھ ترک کرنا ہے۔ ایسی ہر بُری عادت چھوڑنا ہوگی جس کے نتیجے میں زندگی عدم توازن کا شکار ہوتی ہے۔ زندگی میں نظم و ضبط درکار ہے۔ جو لوگ بے ڈھنگے پن سے جیتے ہیں وہ بالآخر پریشان رہتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ نظم و ضبط اپنائے بغیر زندگی کا کوئی بھی شعبہ درست نہیں کیا جاسکتا۔ ایک قوم کی حیثیت سے اہلِ پاکستان کو ہر معاملے میں منظم سوچ اپنانا ہوگی۔ بے یقینی ہی یقین بخشتی ہے۔ ہمیں معاملات کو پہچاننا ہوتا ہے۔ جب ہم معاملات کی اصلیت اور ماہیت پر غور کرتے ہیں تب کچھ نیا سوچنے کی راہ نکلتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کی صورت میں متبادل سُوجھتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تو فکری ساخت پر مایوسی سوار رہتی ہے۔ دھیرے دھیرے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے معاملات کی درستی کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جب ہم اصلاحِ احوال کے لیے نکلتے ہیں تو سفر کی ابتدا بے یقینی سے ہوتی ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ انتہائی پریشان کن ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے ہی میں مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنے سے بات بن نہیں سکتی۔ مایوس ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کا وصف اپنانا چاہیے تاکہ مثبت سوچنے اور کچھ تعمیری کرنے کی راہ ہموار ہو۔ حقیقت پسندی انسان کو معاملات کے سلجھانے کی طرف لے جاتی ہے۔ آج کا پاکستان اِتنا الجھا ہوا ہے کہ پہلی نظر میں تو کچھ بھی سیدھا دکھائی نہیں دیتا۔ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بگاڑ بہت زیادہ ہے مگر سب کچھ بگڑ نہیں گیا۔ بہت کچھ اب بھی باقی ہے اور ہمیں دعوتِ عمل دے رہا ہے۔ بعض شعبوں کی خرابی اِتنی زیادہ ہے کہ پورا ملک خرابیوں کی آماجگاہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں عمومی سطح پر تو صرف مایوس ہونے کا جواز رہ جاتا ہے۔ مایوس ہو رہنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ مایوسی کی پرت ہٹاکر دیکھنے سے معاملات کی اصلیت دکھائی دیتی ہے اور ہمیں مثبت سوچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس وقت ہمیں حقیقت پسندی اور مثبت سوچ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ذرائع ابلاغ کو اس حوالے سے قوم کی سوچ بدلنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ کام محنت طلب بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ رویہ مثبت رہنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved