کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اُن کے خلاف کارروائی کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی طرف سے یہ الزام نیشنل سکیورٹی کونسل کے حالیہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان کے بعد عائد کیا گیا ہے جس میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ملک میں دوبارہ سر اٹھانے والی دہشت گردی کی لہر کو پوری قوت سے کچل دیا جائے گا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے شہریوں اور سکیورٹی اداروں کے خلاف اپنے قیام (2007ء) سے آج تک دہشت گردی کی کارروائیوں کو کبھی بھی بند نہیں کیا لیکن 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد جب اس کے خلاف یکے بعد دیگرے آپریشنز کیے گئے تو اس کے جنگجوؤں نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی اور افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر افغانستان میں لڑنے والی امریکی افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لینے لگے۔ افغان طالبان کے خود اپنے بیان کے مطابق 2015ء سے 2021ء تک ٹی ٹی پی کے جنگجو ان کے کامریڈ ان آرمز رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس دوران افغانستان میں شہری آبادیوں اور غیر ملکی افواج پر خود کش حملوں کے لیے رضا کار مہیا کرنے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی تھی۔ اس دوران ان کی سرگرمیاں پاکستان کے شمالی علاقوں میں ماند پڑ گئی تھیں اور پاکستانی حکام اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ دہشت گردوں نے محض اپنے ٹھکانے تبدیل کیے تھے۔ افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے وہ سرحد پار پاکستانی چوکیوں پر راکٹ اور مارٹر گولے برسا دیتے تھے اور ہم اسے افغانستان کی سابقہ حکومتوں کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجے میں کی جانے والی کارروائی سمجھ کر کابل سے احتجاج کرتے تھے‘ مگر اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے اور افغانستان سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد پہلی دفعہ یہ حقیقت سامنے آئی کہ ٹی ٹی پی افغان جنگ میں افغان طالبان کے حلیف کی حیثیت سے حصہ لیتی رہی ہے۔ یہ انکشاف خود افغان طالبان نے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سرکاری بیان میں کیا تھا جس میں انہوں نے اپنی صفوں میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی موجودگی کے ساتھ ان کی ''شاندار خدمات‘‘ کا بھی اعتراف کیا تھا۔ اس بیان میں افغان طالبان نے اپنی صفوں میں شامل امریکی اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف لڑنے والی دیگر ملکوں مثلاً چین اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں کے رضاکاروں کی موجودگی اور ان کی خدمات کی بھی تعریف کی‘ لیکن ساتھ ہی پوری دنیا کے سامنے یہ وعدہ بھی کیا کہ دوحہ معاہدے کے تحت ان جنگجوؤں کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن کابل کے نئے حکمران اس وعدے پر قائم نہیں رہے اور گزشتہ ایک برس کے دوران ان غیرملکی دہشت گرد تنظیموں نے افغانستان کے اندر اور افغانستان سے باہر‘ جن مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ان میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور شہر میں ایک ایسے ہوٹل‘ جہاں چینی ماہرین اور انجینئرز کا اکثر آنا جانا رہتا تھا‘ پر حملے بھی شامل ہیں۔
کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر جب حملہ ہوا تو امریکہ کی طرف سے نہ صرف اس کی مذمت کی گئی بلکہ پاکستان کو امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے امداد فراہم کرنے کی پیشکش دو وجوہات پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ ایسے واقعات دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں‘ جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے دوست اور اتحادی ممالک کے خلاف کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف سخت اقدام کرنے کے عزم کے اعلان کے بعد امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے ترجمان نیڈ پرائس کی طرف سے نہ صرف پاکستان کے اس عزم کی حمایت کی گئی بلکہ پاکستان کو امریکی تعاون کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف سٹرٹیجک پارٹنر ہے اور امریکہ کی طرح دہشت گردی کو پورے خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ چونکہ صدر جوبائیڈن کی حکومت اور امریکہ کی یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ امریکہ یا اس کے دوست اور اتحادی ممالک کے خلاف دہشت گردی کے ہر خطرے کو کچل دے گا‘ اس لیے وہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر اقدام کرے گا‘ اس میں پاکستان کے ساتھ تعاون اور امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بین الاقوامی برادری کے تعاون اور حمایت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ممالک کے اتحاد میں پاکستان ایک اہم رکن کی حیثیت سے شامل رہا ہے اور اس مقصد کیلئے 40سے زیادہ ممالک کے ساتھ پاکستان نے دو طرفہ بنیادوں پر انسدادِ دہشت گردی میں اپنے تجربات‘ اطلاعات اور معلومات کے تبادلے کیلئے انتظامات طے کر رکھے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان میں فکری ہم آہنگی اپنی جگہ‘ اول الذکر کے جنگجو پاکستان کے باشندے ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے اور عوام پر اپنے یکطرفہ نظریے کے نفاذ کے لیے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ ان کی سرکوبی ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کے قانون اور ڈھانچے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ان عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ سوات‘ باجوڑ‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عوام کے بڑے بڑے مظاہروں سے عیاں ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف عوام ریاستی اقدام کی بھرپور حمایت پر تیار ہیں‘ اس لیے بنیادی طور پر ہمیں چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے وسائل‘ خصوصاً عوام کے تعاون پر بھروسا کرنا چاہیے‘ لیکن جہاں تک بین الاقوامی سطح پر تعاون خصوصاً امریکہ کی طرف سے امداد کی پیشکش کا تعلق ہے‘ اس میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ پہلے ہی یہ الزامات شروع ہو گئے ہیں کہ امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی سیاست کی موجودہ پولرائزڈ صورت حال میں بہت سے عناصر موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور اس طرح قومی بقا‘ آئین اور قانون کے تحفظ اور علاقائی سالمیت کو بچانے کے لیے جاری اس جنگ کے گروہی سیاست کی نذر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ دشمن اپنے خلاف کارروائی کو ایک دفعہ پھر امریکہ کی جنگ کا تاثر دے کر ایک قومی جدوجہد کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ پاکستانی قیادت پر واضح ہونا چاہیے کہ یہ 1980ء کی دہائی اور پرویز مشرف کا زمانہ نہیں جب افغان جہاد اورقومی مفاد کے نام پر ملکی مفاد کے بجائے غیر ملکی مفاد کی خاطر ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو پروان چڑھایا گیا اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گردوں کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔
پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصل طاقت ہتھیار اٹھا کر معصوم شہریوں کی جان لینے اور ہماری فورسز اور شہریوں پر حملہ آور ہونے والوں کی عددی تعداد میں نہیں بلکہ انسانیت کے ان دشمنوں کی تخریبی سوچ اور پروپیگنڈے میں مضمر ہے جو بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور بعض اوقات کوتاہ اندیشانہ فیصلوں کی وجہ سے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved