گزشتہ دنوں انہی سطور میں برازیل میں لولا ڈی سلوا کا ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کا احوال بیان کیا تھا۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ کرپشن کے الزامات کے سلسلے میں مارچ 2016ء کو لولا کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور سابق صدر سے تقریباً تین گھنٹے پوچھ گچھ کی گئی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد لولا پر باضابطہ طور پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ مبینہ طور پر سمندر کے کنارے واقع ایک لگژری اپارٹمنٹ کی ملکیت کو چھپا رہے ہیں جو ایک تعمیراتی کمپنی سے ان کے تعلقات کے نتیجے میں ان کو دیا گیا تھا مگر لولا نے اپارٹمنٹ کی ملکیت سے صاف انکار کر دیا تھا۔
20ستمبر 2016ء کو پیٹرو براس سکینڈل کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے جج نے لولا کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کو باضابطہ طور پر قابلِ سماعت قرار دیا اور اس نے سابق صدر‘ ان کی اہلیہ ماریسا لیٹیشیا لولا ڈی سلوا اور دیگر چھ افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ لولا نے ایک بار پھر اپنی بیگناہی پر احتجاج کیا۔ انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ تمام الزامات سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے تھے اور ان الزامات کا واحد مقصد انہیں 2018ء میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے سے روکنا تھا۔ 2017ء تک لولا کو پیٹرو براس سکینڈل سے متعلق پانچ الگ الگ مقدمات میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مقدمہ برازیل کا 'صدی کا مقدمہ‘ (Case of the century) کے طور پر مشہور ہوا۔
جولائی میں لولا کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کا مجرم قرار دے دیا گیا۔ اور ان کو ان جرائم کی پاداش میں تقریباً 10سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن وہ اپیل کے زیر التوا ہونے کی وجہ سے نہ صرف آزاد رہے بلکہ برازیل کی سیاست کا مرکز بنے رہے۔ اس دوران علاقائی فیڈرل اپیل کورٹ نے ان کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ عدالت کے سامنے دو سوال تھے۔ ایک یہ کہ عدالت نے اس بات کا تعین کرنا تھا کہ لولا کی طرف سے دائر کردہ اپیل کے دوران آیا اپیل کنندہ یعنی لولا کو جیل بھیجا جائے یا نہیں؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ لولا کے خلاف قائم مقدمات اور ان کو ہونے والی سزاؤں کی موجودگی میں انہیں اکتوبر 2018ء میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟ یہ تھا عدالت کا معاملہ مگر جب عدالت اس مقدمے کی سماعت کر رہی تھی تو رائے عامہ کے تمام جائزوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ لولا کو صدارت کے عہدے کے لیے اپنے قریب ترین ممکنہ حریف پر سبقت حاصل ہے۔ 24جنوری 2018ء کو تین ججوں کے پینل نے متفقہ طور پر لولا کی سزا کو برقرار رکھا اور اس کی سزا کو بڑھا کر 12 سال کر دیا چونکہ عدالت نے لولا کی سزا کو برقرار رکھا تھا‘ اس لیے کلین ریکارڈ قانون کے تحت‘ جو خود لولا کی صدارت کے دوران نافذ کیا گیا تھا‘ لولا کو عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے منع کر دیا گیا۔ تاہم ان کے پاس اب بھی اپیل کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اختیار تھا۔
پانچ اپریل کو سپریم کورٹ نے عدالت میں اپیل کے دوران لولا کی آزاد رہنے کی درخواست کو مسترد کردیا مگر ان کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت جاری رکھی۔ اس فیصلے کی رو سے لولا کو اپنی سزا کاٹنے کے لیے جیل جانا تھا مگر انہوں نے مقررہ وقت پر اپنی قید کی مدت شروع کرنے کے لیے خود کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جج مورو نے لولا کو حکم دیا کہ وہ چھ اپریل کو شام پانچ بجے تک Curitiba میں حکام کے سامنے پیش ہوں تاکہ وہ اپنی جیل کی سزا کاٹنا شروع کر دیں۔ خود کو پیش کرنے کے بجائے لولا نے ساؤ پالو کے باہر یونین ہیڈ کوارٹرز میں پناہ لے لی جہاں سے انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ لولا کے حامیوں نے عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور تشدد بھڑکنے کے خوف سے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے لولا کو گرفتار کرنے کے لیے ہجوم میں گھسنے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح گرفتاری کی مقررہ تاریخ گزر گئی۔ سات اپریل کو لولا خود ہجوم کے سامنے نمودار ہوئے اور ایک پُرجوش تقریر کی جس میں انہوں نے اپنی بیگناہی پر اصرار جاری رکھا اور کہا کہ اس استغاثہ اور سزا کا مقصد ان کو برازیل میں خوفناک عدم مساوات کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھانے سے روکنے کی کوشش تھی؛ تاہم یہ بتاتے ہوئے کہ وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں‘ انہوں نے گرفتاری دینے کا اعلان کر دیا اور اسی شام ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے لیے پیش ہونے کے بعد لولا کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے Curitiba لے جایا گیا تاکہ وہ اپنی سزا کاٹنا شروع کر سکیں۔ ان واقعات کے بعد لولا کے لیے ورکرز پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کے امکانات بظاہر معدوم ہو گئے تھے مگر پارٹی کے پاس ان کی جگہ لینے کے قابل کوئی امیدوار نہیں تھا‘ جو لولا کی طرح انتخابات سے پہلے کی پولنگ میں تمام مخالفین سے آگے چل رہا ہو۔
آخر کار چار اگست کو ساؤ پالو میں اپنے قومی کنونشن میں ورکرز پارٹی نے لولا کو ہی اپنا امیدوار نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کا ارادہ لولا کے لیے اتنی مقبول حمایت حاصل کرنا تھا کہ عدالتیں انہیں مہم چلانے کے لیے رہا کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ فروری 2019ء کے اوائل میں لولا کو بدعنوانی کے ایک اور کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس بار انہیں تعمیراتی کمپنیوں سے 2لاکھ 35 ہزار ڈالر کی اپنے گھر کی تزئین و آرائش کے لیے بطور رشوت لینے کے جرم میں 12 سال اور 11 ماہ کی اضافی قید کی سزا سنائی گئی مگر عوام کا ردِ عمل شدید تھا۔ لولا کی قید نے جیل کے باہر ایک مسلسل احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا جو نہ صرف 'فری لولا‘ کی کوششوں بلکہ عام طور پر بائیں بازو کی سرگرمیوں کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ نومبر 2019ء میں لولا کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا تھا جس نے عدالت کے پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا‘ جس کے تحت وہ سزا یافتہ افراد جن کی پہلی اپیل مسترد کر دی گئی‘ ان کو قید میں رکھنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ تھا کہ لولا اور دیگر لوگ آزاد افراد کے طور پر اپیل کی پیروی کر سکیں گے مگر لولا کا برازیل کا صدر بننے کا امکان مارچ 2021ء میں اس وقت پیدا ہوا جب سپریم کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ دیا کہ سابق صدر پر Curitiba میں بدعنوانی کا مقدمہ ہی نہیں چلنا چاہیے تھا اور جس عدالت نے ان کو سزا دی یہ مقدمہ اس کی جیورس ڈکشن یعنی دائرۂ اختیار سے ہی با ہر تھا۔ اگرچہ یہ فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر تھا اور لولا کے خلاف تین دیگر مقدمات اب بھی چل رہے تھے لیکن جسٹس ایڈسن فاچن کے مارچ کے فیصلے کا مطلب یہ تھا کہ لولا ایک بار پھر عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کے اہل ہیں۔ 2022ء کے موسم گرما میں وہ 2022ء کے صدارتی انتخابات میں ورکرز پارٹی کے باضابطہ امیدوار بن گئے جس کے نتیجے میں وہ منتخب ہو کر آج ایک بار پھر برازیل کے صدر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved