تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-09-2013

ایک دن تری شنگ میں

رائیکوٹ سے استور تک کا سفر اصل پہاڑی سفر تھا۔ خراب و خستہ تنگ سڑک، ایک طرف پتھروں سے سر ٹکراتا ہوا تند و تیز دریائے استور‘ دوسری طرف پہاڑ اور مسلسل چڑھائی۔ رائیکوٹ سے پانچ چھ کلو میٹر بعد ہی مکمل اندھیرا ہوگیا۔ ابھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ سڑک پر صرف ہماری کوسٹر تھی۔ برکت اللہ میں بجلی سی آئی ہوئی تھی اور وہ اس تنگ و تاریک سڑک پر کوسٹر بگٹٹ بھگائے چلا جارہا تھا۔ بچوں کی ساری شوخی ہوا چکی تھی اور وہ دم سادھے بیٹھے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی تنگ سڑک پر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا اور جلیبی سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی اس سڑک پر ہر دو اڑھائی منٹ کے بعد کوئی نہایت خطرناک سا موڑ آجاتا تھا مگر برکت اللہ نے پائوں ایکسلریٹر پر رکھا ہوا تھا مگر بریک والا پائوں مکمل آرام طلبی پر اترا ہوا تھا۔ اس خاموشی میں اچانک پیچھے سے میری منجھلی بیٹی نے اونچی آواز سے پوچھا: ’’آخر اسے جلدی کس بات کی ہے؟‘‘ میری اور کامران کی ہنسی نکل گئی۔ اس جملے نے کوسٹر کا ماحول نئے سرے سے بدل دیا۔ بچوں کی خاموشی ختم ہوگئی اور اس راستے پر تبصرے شروع ہوگئے۔ برکت اللہ کی اس جلد بازی اور پھرتی پر مجھے عشروں پرانا واقعہ یاد آگیا۔ میں کالج میں پڑھتا تھا اور واحد موج میلہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی چھٹی ہو اور ہم لاہور کا چکر لگا لیں۔ بسوں میں طالب علموں کو رعایتی کرائے کی سہولت میسر تھی اور طلبا سے نصف کرایہ لیا جاتا تھا۔ ٹرین پر بھی کرایہ آدھا تھا لیکن اس رعایتی سہولت کا حصول تھوڑا مشکل اور لمبا تھا۔ پہلے ریلوے کے سفر کا رعایتی فارم لیا جائے‘ اسے پر کیا جائے‘ پھر پرنسپل سے دستخط کروائے جائیں اور ریلوے اسٹیشن پر جمع کروایا جائے۔ لہٰذا ہم اپنی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے بس پر سفر کرنا زیادہ پسند کرتے تھے کہ بسوں پر سفر کرنے کے لیے علیحدہ بنا ہوا گلابی رنگ کا شناختی کارڈ بس کنڈیکٹر کو دکھائیں اور رعایتی کرائے کے مزے اڑائیں۔ اس سلسلے میں ملتان سے لاہور جانے کے لیے جی ٹی ایس ہماری پسندیدہ بس سروس تھی۔ دوسری پرائیویٹ بسوں کے برعکس جی ٹی ایس والے وقت کے نسبتاً زیادہ پابند تھے۔ رعایتی کرایہ دیتے ہوئے کنڈیکٹر نسبتاً کم برا منہ بناتا تھا اور بس میں اوورلوڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ ملتان سے ہم ڈیرہ اڈہ سے سوار ہوتے۔ لاہور میں جی ٹی ایس کا اڈہ ریلوے سٹیشن کے بالکل ساتھ تھا۔ ملتان لاہور روڈ تب سنگل سڑک تھی اور اس کی حالت بھی کوئی بہت اچھی نہیں تھی۔ اس زمانے میں سفر کلومیٹروں کے بجائے میلوں میں شمار ہوتا تھا اور ملتان سے لاہور کا فاصلہ دو سو دس میل ہوتا تھا۔ یہ سفر باقی بسیں سات گھنٹے میں جبکہ جی ٹی ایس والے چھ ساڑھے چھ گھنٹوں میں کرلیتے تھے۔ اے سی والی بسوں کا ابھی زمانہ نہیں آیا تھا۔ ہم لاہور سے دوپہر کو جی ٹی ایس پر سوار ہوئے۔ اب مجھے زیادہ اچھی طرح یاد نہیں شاید ہم دوپہر بارہ بجے بس پر سوار ہوئے اور ملتان متوقع آمد تقریباً ساڑھے چھ بجے تھی۔ سردیاں تھیں اور دن جلدی ڈھل جاتا تھا۔ غروب آفتاب تقریباً پونے چھ بجے کے قریب تھا۔ بس بڑی مناسب رفتار سے چل رہی تھی اور سفر معمول کے مطابق تھا۔ ہم ساہیوال وقت مقررہ پر پہنچے اور وہاں سے بروقت روانہ ہوئے۔ چیچہ وطنی تک سفر ٹھیک رہا لیکن چیچہ وطنی کے سٹاپ سے چلتے ہی ڈرائیور میں بجلی بھر گئی۔ اڈے سے نکلتے ہی اس نے بس کو راکٹ بنا دیا اور ایکسلریٹر پر پائوں دبا دیا۔ بس ہوا میں اڑنے لگی۔ پہلا واقعہ یہ ہوا کہ ڈرائیور نے سائیڈ مار کر ایک خالی ریڑھی الٹا دی مگر شاباش ہے کہ اس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ کسو وال کے نزدیک اس نے ایک گدھا ریڑھی کو سائیڈ ماری مگر بریک مارنا تو ایک طرف اس نے بس کی رفتار میں رتی برابر کمی نہ کی۔ میاں چنوں کے نزدیک بھی اس نے ایک لوکل ویگن کو ٹکر مارنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ مسافر جو پچھلے آدھ گھنٹے سے دم سادھے بیٹھے تھے اب تھوڑا مزید گھبرا گئے۔ ایک مسافر نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: استاد جی! آپ کو جلدی کس بات کی ہے؟ استاد جی نے ایکسلریٹر پر پائوں کا دبائو بڑھاتے ہوئے کہا: بھا جی! مینوں ہن یاد آیا کہ بس دیاں بتیاں خراب نیں۔ اسیں ہنیرہ ہون تو پہلاں ملتان پہنچنا اے (بھائی صاحب! مجھے اب یاد آیا کہ بس کی لائٹیں خراب ہیں۔ ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے ملتان پہنچنا ہے۔) میں نے باہر دیکھا‘ ہماری کوسٹر کی لائٹیں ٹھیک تھیں۔ برکت اللہ کو کسی اور وجہ سے جلدی تھی۔ رات پی ڈبلیو ڈی گلگت بلتستان کے ریسٹ ہاوس میں گزاری۔ تین کمروں پر مشتمل یہ مختصر سا ریسٹ ہائوس استور شہر کے آخری سرے پر تھا اور بڑا خوبصورت تھا۔ اگلے دن پھر سفر کا آغاز صبح آٹھ بجے کیا۔ ہماری منزل تری شنگ گائوں تھا۔ وادی استور کا آخری سرا۔ یہاں سے دریائے استور شروع ہوتا ہے۔ اس گائوں سے آگے سارا سفر پیدل ہے۔ یہاں سے اگلا پڑائو روپل گائوں ہے اور پھر وہاں سے آگے نانگا پربت کا تیسرا بیس کیمپ ہے یعنی روپل فیس کا بیس کیمپ۔ استور سے تری شنگ کا سارا سفر دریائے استور کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ گدلے رنگ کا یہ پہاڑی دریا تری شنگ کے عقب میں پہاڑ کے پیچھے مٹی اور پتھروں سے ڈھکے ہوئے ایک بہت بڑے گلیشئر سے نکلتا ہے۔ ایک سائیڈ سے روپل کی طرف سے آنے والا پہاڑی نالہ اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ راستے میں رٹو اور چلم نالے بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں نالے شفاف نیلے پانی پر مشتمل ہیں اور جب دریائے استور میں شامل ہوتے ہیں تو کئی گز تک دو علیحدہ علیحدہ رنگوں کا پانی بڑا خوبصورت لگتا ہے۔ استور سے نکلنے کے بعد پہلا گائوں گوری کوٹ تھا۔ گوری کوٹ کی بیکری سے دیگر سامان کے علاوہ کوکونٹ بسکٹ خریدے تو اتنے مزیدار تھے کہ واپسی پر دوبارہ خریدے گئے۔ استور کی آبادی شیعہ اور سنی ملی جلی ہے اور لوگ آپس میں بڑی محبت اور یگانگت سے رہتے ہیں۔ بہت سے گائوں ایسے ہیں جہاں دونوں مسلک کے لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں تاہم کئی گائوں ایسے ہیں جہاں ایک مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ آخری سے پہلا گائوں چورت سنی العقیدہ مسلمانوں کا گائوں ہے اور تری شنگ کی ساری آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ تری شنگ میں دو ہوٹل ہیں۔ ہم نے گاڑی ’’نانگا پربت ٹورسٹ ان‘‘ کے پچھلے صحن میں کھڑی کی۔ ہوٹل کے مالک اشرف کو دوپہر کے کھانے کا بتایا اور بچوں کے ساتھ ہائیکنگ شروع کی۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو سات سالہ فاطمہ سب سے آگے تھی اور میں سب سے پیچھے۔ چوٹی پر پہنچ کر میں نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بچوں کو کہا کہ وہ واپس آ کر مجھے بتا دیں کہ آگے کیا ہے۔ تاہم مجھے پتا ہے آئے ایک گندے مارے گلیشیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک گھنٹے بعد تھکے ہارے بچوں نے آ کر بتایا کہ میرا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ دوپہر کا کھانا نانگا پربت ٹورسٹ ان میں کھایا۔ ہوٹل کا مالک اشرف بتانے لگا کہ اس کے ہوٹل میں مستنصر حسین تارڑ بھی قیام پذیر رہے ہیں اور عمران خان بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک بار یہاں آئے تھے۔ اس نے سڑک کی جانب اوپر والے کمرے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ عمران خان اس کمرے میں ٹھہرے تھے۔ کامران نے پوچھا ان کے ساتھ اور کون تھا۔ اشرف نے اوپر آسمان کی طرف دیکھ کر بتایا کہ ان کے امریکی دوست تھے۔ میں نے پوچھا کہ دوست تھے یا دوست تھی؟ اشرف نے آہستگی سے کہا کہ ایک دوست بھی تھی۔ پھر اشرف نے بات بدلتے ہوئے بتایا کہ اس سال چھ فروری کو لاپتہ ہوجانے والا فرانسیسی کوہ پیما Joel Wischnewski بھی میرے ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ سردیوں میں نانگا پربت سر کرنے کے دوران ہلاک ہونے والا یہ نوجوان کوہ پیما تنہا نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے آیا تھا اور موت سے ہمکنار ہوگیا۔ نانگا پربت کو سردیوں میں سرنے کی مہم بھی حسب معمول ناکام ہوگئی۔ روانگی سے قبل ہم نے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں لگی جوئل کی آخری تصویر دیکھی۔ مسکراتے ہوئے کوہ پیما کو شاید اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ اس کی آخری تصویر ہے۔ جوئل نانگا پربت کا سڑسٹھواں شکار تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved