ہرچند میں اس بات کا قائل ہوں کہ سائنس کی ہر تازہ دریافت اور ایجاد انسان کی موجودہ آگاہی سے زیادہ‘ اب تک کی عدم واقفیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سائنس انسان کی لاعلمی کا علم ہے۔ ہر نئی دریافت یہ بتاتی ہے کہ انسان اس بے کراں کائنات میں کتنے بڑے ہجوم میں گھرا ہوا تنہا آدمی ہے۔ لیکن جو ذہن روز جدید ترین سائنسی انکشافات کرتا اور کائنات کی طاقتوں کو مسخر کرتا ہے، اس ذہن کی اپنی طاقت کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟ جن و ملائکہ پر فضیلت اور اشرف المخلوقات ہونے کا شرف ویسے ہی نہیں ملا۔ یہ مٹی کے پتلے کو بخشی ہوئی شعور، علم، فہم اور ادراک کی طاقت ہے جس کے سامنے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا۔ روز یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ذی روح کتنا عجیب ہے۔ کتنا طاقتور مگر کتنا مجبور! اس کے علم اور لاعلمی کے محور پر اس کی عمر کا چاک گھومتا ہے اور کوزے بناتا ہے۔ انسانی ذہن کی طاقت اور کمزوری کبھی تو اقبالؔ کے ان اشعار کی یاد دلاتی ہے کہ
تو شب آفریدی‘ چراغ آفریدم
سفال آفریدی‘ ایاغ آفریدم
اور کبھی احسان دانش کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے:
لا شے سے ایک شے کا شگوفہ نکال کر
آزاد کر دیا ہمیں زنجیر ڈال کر
یہ بحث تو الگ ہے لیکن سائنس کے مسلسل پھیلتے آفاق کو دیکھنا اور سمجھنا، تازہ ترین انکشافات کو جاننا اور اس دریافت سے سرشار ہونا خود ایسا عمل ہے جو انسانی ذہن کو تر و تازہ رکھتا ہے۔ میری ہمیشہ نظری اور عملی سائنسی میں دلچسپی رہی ہے اور اس کے مختلف گوشوں میں جھانکنے کا موقع نکالتا رہتا ہوں۔ گزر جانے والا سال (2022ء) بھی کئی دلچسپ دریافتوں اور کائنات کے اٹھتے پردوں کا امین تھا۔ خواہش ہے کہ تمام نہ سہی‘ چند ہی سہی‘ کچھ ایسی چیزوں میں آپ کو بھی شریک کرتا رہوں جو مستقبل میں انسانی زندگی پر گہرے اثر ات چھوڑیں گی۔ تو چلئے‘ اس حیرت کدے میں ایک شو کیس میرے ساتھ دیکھنے کے لیے۔
جب سے انسان نے زمین سے باہر جھانکا ہے اورخلا میں گھومتی، چکراتی، آوارہ پھرتی مہیب چٹانوں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ ان سے خوف زدہ ہے۔ یہ چٹانیں یا پہاڑ جو آزادانہ پھرتے ہیں اور جنہیں پہاڑ اور چٹان کہنا بھی دراصل ان کی ہیبت کم کرنے والے لفظ ہیں، دراصل سیارچے ہیں جنہیں ایسٹرائیڈز (Asteroids) کہا جاتا ہے۔ یہ کئی کلومیٹر لمبے چوڑے سیارچے‘ جو بپھرے ہوئے طاقتور بیلوں کی طرح کسی بھی راہ گیر کو کسی بھی وقت فضا میں اچھالنے پر قادر ہیں‘ کسی بھی وقت کسی بھی سیارے کا رخ کرکے اس طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں کہ اس کا حلیہ اور شکل تبدیل کرکے رکھ دیں۔ اگر ان اربوں‘ کھربوں سیارچوں میں سے کسی کو کسی بڑے سیارے کی کشش اپنی طرف کھینچ لے تو یہ 'آ بیل مجھے مار‘ والی بات ہو گی۔ چاند پر موجود اَن گنت میلوں لمبے چوڑے گڑھے ایسے ہی ٹکراؤ کا آخری نتیجہ ہیں۔ اور یہ محض چھوٹے سیارچوں کی بات ہو رہی ہے۔ یہی کام دمدار ستارے اور بڑے سیارے کر گزریں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زمین کا کیا بنے گا۔ انسان کا ان سے خوف زدہ ہونا محض تصوراتی وہم نہیں ہے، زمین اپنی تاریخ میں ایسے کئی بھیانک واقعات رکھتی ہے۔ 65 ملین برس پہلے 10 سے 15کلومیٹر نصف قطر کا ایک سیارچہ زمین کے اس علاقے سے ٹکرایا تھا جو اب نیو میکسیکو کہلاتا ہے۔ اس بھیانک تصادم سے زمین کی لگ بھگ 70 فیصد ذی روح مخلوقات فنا ہو گئی تھیں۔ ڈائنو سارز بھی زمین سے اسی سیارچے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں یکلخت نابود ہو گئے تھے۔ ارضیاتی ریکارڈ سے ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کیا ہوا ہو گا۔ اس شہاب ثاقب نے‘ جو سمندر میں گرا تھا‘ انتہائی ہولناک سونامی لہریں پیدا کی ہوں گی۔ شہاب ثاقب کے لاکھوں ٹکڑوں نے ٹوٹتے ستاروں کی طرح زمین کی فضا میں داخل ہو کر اسے نہایت گرم کر دیا ہو گا‘ جس کے نتیجے میں جنگلات میں آگ لگ گئی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اس وقت زمین کے تمام جنگل جل گئے ہوں۔ اس دھچکے نے آتش فشانوں اور زلزلوں کا بٹن دبا دیا ہو گا۔ اس تصادم سے اٹھنے والی راکھ نے پوری زمین کو ڈھانپ لیا ہو گا اور زمین پر سورج کی روشنی ختم کر کے نباتات اور حیاتیات کو ختم کر دیا ہو گا اور زمین کا درجۂ حرارت کئی دہائیوں تک معمول پر نہیں آ سکا ہو گا۔
اور یہ تو پرانی بات ہے۔ قریب ترین مثالیں لے لیجیے۔ 2013ء میں ایک شہاب ثاقب‘ جو محض 20 میٹر نصف قطر کا تھا‘ روسی شہر چیلابنسک کے اوپر زمین کی فضا میں داخل ہوا۔ خوش قسمتی سے یہ زمین کی سطح سے 30 کلومیٹر اوپر پھٹ گیا۔ اس سے جو توانائی خارج ہوئی اس کی مقدار 500 کلو ٹن ٹی این ٹی بارود کے برابر تھی۔ یہ سطح تک نہیں پہنچا لیکن دھماکے کی لہروں سے 1500 لوگ زخمی ہو گئے اور 7200 مکانوں کو نقصان پہنچا۔ 1908ء میں لگ بھگ 30 میٹر نصف قطر کا شہابیہ زمینی فضا میں داخل ہوا اور سائبیریا‘ روس کے ٹنگوسکا علاقے پر زمین سے اوپر پھٹا۔ یہ دھماکا ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ہزار گنا زیادہ طاقتور تھا اور اگر یہ کسی بڑے شہر پر ہوا ہوتا تو پورا شہر ختم ہو گیا ہوتا۔ خوش قسمتی سے یہ سائبیریا کے ایک دور دراز علاقے میں ہوا؛ تاہم اس کی وجہ سے 2150 مربع کلومیٹر پر 8 کروڑ درخت ختم ہو گئے۔
اس لیے حضور! یہ تصادم ہوچکے ہیں۔ محض فرضی اور خیالی باتیں نہیں، اس لیے کسی وقت بھی یہ ڈر ہے کہ کوئی مست بجار ادھر کا رخ کرلے اور ہمیں اپنے سینگوں پر رکھ لے۔ ان لٹکتی تلواروں کے خطرے کا ادراک سائنس دانوں میں زیادہ ہے۔ اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں جن میں دسمبر 2021ء میں آنے والی لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ''اوپر نہ دیکھئے‘‘ (Don't look up) بھی شامل ہے۔ تو کیا انسان اس ممکنہ خطرے کا کچھ تدارک کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں 2022ء میں خلاپیمائی کے مشہور اداروں نے ناسا-اِیسا مشترکہ مشن ڈارٹ (Joint Nasa-Esa mission Dart) کا نہایت کامیاب تجربہ کیا۔ ڈارٹ بذاتِ خود Double Aestroid redirection test کا مخفف ہے۔ یہ تجربہ ایک سیارچہ ڈیمورفوس (Dimorphos) پر کیا گیا جو خود ایک بڑے ایسٹرائیڈ ڈیڈیموس (Didymos) کے گرد گھومتا ہے۔ ڈیمورفوس کا یونانی میں مطلب ہے جڑواں۔ یہ چٹانوں کے دونوں جوڑے زمین کے لیے بے ضرر تھے۔ 11 ملین میل کے فاصلے پر ڈیمور فوس 525 فٹ لمبا سیارچہ ہے۔ 24 نومبر 2020ء کوایک خلائی جہاز‘ جو ایک ریفریجریٹر کے سائز کا تھا‘ خلا میں بھیجا گیا۔ یہ جہازڈیمورفوس کے قریب ستمبر 2022ء میں پہنچا اور اسے 26 ستمبر 2022ء کو 14 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ڈیمورفوس سے ٹکرایا گیا۔ طاقتور دوربینیں اس کا مشاہدہ کرتی رہیں۔ اکتوبر 22ء میں معلوم ہوا کہ یہ تجربہ توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوا ہے اور ڈیمورفوس کا مدار تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین کو کسی چٹان سے خطرہ ہوا اور اس سے نمٹنے کے لیے ضروری وقت مل گیا تو اس کا رخ اور مدار تبدیل کیا جانا ممکن ہے۔ یہ سائنس دانوں کے حوصلے بڑھا دینے کے لیے بہت کافی نتائج ہیں۔
بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے جدید علم اور تحقیق کا ہر گوشہ یہ سمجھ کر چھوڑ دیا ہے کہ یہ ہمارے حصے کا کام ہی نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ جب کبھی موجودہ مسلم دنیا کے سائنسدانوں کی بات کی جائے تو یہ مذہب اور مذہبی طبقات پر تبرا کرنے کا ایک موقع بنا لیا جاتا ہے۔ پلٹ کر کچھ سوالات کر لیے جائیں تو اس ذہن سے ان کا کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔ دراصل اپنی نااہلی کا اعتراف مشکل کام ہے اور اپنے لوگوں پر انگلیاں اٹھانا آسان کام۔ ہر شعبے، ہر طبقے کا اپنا اپنا دائرہ ہے۔ اپنے دائرے میں اپنے کام کا ثبوت نہ دیا جائے اور دوسرے دائرے کے لوگوں پر طعنہ زنی کی جائے تو اسے دوسری نااہلی ہی کہا جا سکتا ہے۔ کام کرنے والے کام کیے جاتے ہیں اور ان کا کام سامنے آ جاتا ہے۔ خیر‘ اس وقت تو یہ شعر سن لیجئے:
خلا میں پھینکا ہوا اولین تیر سعودؔ
ہزار شکر کہ انسان کے لیے نہیں ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved