مقبوضہ کشمیر پر غاصب بھارتی فوج کے محاصرے کو1250 سے زائد روز گزر چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ تو بھارت ٹس سے مس ہوا اور نہ ہی عالمی برادری اظہارِ مذمت کے بیانات سے آگے بڑھ سکی ہے۔ یواین کی کمزوریوں اور اقوامِ عالم کے دہرے معیار اوربے حسی کی وجہ سے تنازعِ کشمیر 76ویں برس میں داخل ہو گیا ہے۔ ہر سال5 جنوری کو کشمیری یومِ حقِ خود ارادیت اس تجدیدِ عہد کے ساتھ مناتے ہیں کہ بھارت کے تسلط سے نجات اور اپنے حق کے حصول کیلئے تحریکِ آزادی جاری رہے گی۔ بلاشبہ اس جدوجہد کے طویل سفر میں لاکھوں کشمیری اپنے لہو سے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر چکے ہیں اور اب بھی مسلسل کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949ء کو ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا لیکن بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی اس قراردادپر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ یہ کھلی بھارتی بد نیتی تھی کیونکہ وہ خود ہی مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا تھا اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے رائے شماری کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اس مسئلے کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی20 جنوری 1948ء اور 21 اپریل 1948ء کی منظور کردہ قراردادوں پر گزشتہ 75 سال سے بھارت عمل کرنے سے گریزاں ہے۔
5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ''سٹیٹ یونین‘‘ میں ضم کرنے کے بھارتی اقدام پر یکے بعد دیگرے ہونے والے درجنوں ہنگامی اجلاسوں کا نتیجہ بھی ''نشستند، گفتند، برخا ستند‘‘ کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ سچ تو یہ ہے کہ محض مذاکرات اور قرار دادوں سے نہیں‘ یہ مسئلہ بزورِ شمشیر حل ہو گا۔ ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ کشمیر کی آزادی کا یہی ایک راستہ ہے۔ اگر ہم کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے توسامراجی چالوں کا شکار ہوجائیں گے۔ اقوامِ عالم اور عالمی اداروں کے نرم رویے سے حوصلہ پا کر بھارت نے مقبو ضہ کشمیر میں اُدھم مچا تے ہوئے کشمیری عوام پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر دیا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی علمبردارتنظیمیں بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں تو کسی بھی قرار داد پر عملدرآمد کرانا ممکن نہیں۔ افسوس !اقوام عالم نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ثالثی کی پیشکش کی مگر پھر بھارت نے 5 اگست کا غیر قانونی کام کرکے کشمیریوں کا ناطقہ بند کر دیا جس پر سابق حکومت آدھے گھنٹے کی خاموشی اور احتجاج تک ہی محدود رہی۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کشمیر کی آزادی سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہے۔ 1971ء میں صدر نکسن نے خود کو پاکستان کا دوست قرار دیتے ہوئے بہت سی یقین دہانیاں کرائی تھیں؛ تاہم اسی دوران امریکی کانگریس نے پاکستان کی دفاعی امداد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ چونکہ امریکہ میں بھارتی لابی کا اثر ورسوخ خاصا گہرا ہے لہٰذا پاکستانی حکام کو مغربی ممالک‘ خاص طور پر امریکہ کی کسی بھی پیشکش کو جذبۂ خیر سگالی کے ایک بیان کے طور پر ہی دیکھناچاہئے۔ 1948ء میں بر طانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اقوامِ متحدہ مقبوضہ کشمیر میں فوج تعینات کرے جو چھ ماہ یا ایک سال میں رائے شماری کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اس حوالے سے خود امریکی مصنفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب یہ تجویز امریکہ کے سامنے رکھی گئی تھی تو امریکی وزیر خارجہ نے کہا ''ہم بھارت سے پوچھ کر بتائیں گے‘‘، بعدازاں بھارت نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور پھر امریکہ بھی مذکورہ بر طانوی تجویز کا ضامن نہ بن سکا۔
نریندر مودی کے 2014ء میں برسرِ اقتدار آنے اور 2019ء میں بھاری اکثریت سے دوبارہ کامیابی کے بعد کشمیر ایشو پر شدید کشیدگی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کرنے کے ساتھ پاکستانی سرحدوں اور مقبوضہ وادی میں آگ اور خون کا کھیل شروع کر کے جنوبی ایشیا کا امن تہ و بالا کر رکھا ہے۔ بھارت نے وطنِ عزیز کی سلامتی کو کمزور کرنے کیلئے چاروں جانب سے محاذ کھول رکھے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت خطے میں بدا منی کوہوا دے کر کابل انتظامیہ کو پاکستان کے خلاف کیا گیا۔ آج بھی ملک دشمن عناصر افغانستان کے راستے خطے میں خودکش حملے اور دہشت گردی کی گھنائونی وارداتیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے خوف کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کے گھر وں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی صحافی رعنا ایوب نے امریکہ میں پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے کی تقریب میں فاشسٹ مودی حکومت کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی جیسے درندے نے جی ٹونٹی کی سربراہی سنبھال لی ہے جس کے ہاتھ دو ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور جسے 'گجرات کا قصاب‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جاری مظالم کے باوجود مودی کو عالمی فورمز کا سربراہ بنانا اس فاشسٹ مودی کو سپورٹ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ امریکی اخباروں اور جریدوں میں ایسے فاشسٹ کی تصویریں چھپنا بھی سوالیہ نشان ہے۔ ہندوتوا اور آر ایس ایس کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور آبادیاتی تناسب تبدیل کر نے کے درپے ہے جس کیلئے ہزاروں ہندوئوں کو مقبوضہ وادی کے ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اراضی خریدنے، کاروبارا ور ملازمتیں کرنے کے اہل ہو جائیں۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل میں 'نیشنل ازم‘ کی سوچ پروان چڑھانے کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کر رہا ہے جبکہ میڈیا و سوشل میڈیا کو پوری طرح سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں آزادیٔ اظہار پر شب خون مارتے ہوئے سوشل میڈیا پر ساڑھے تین سال سے پابندی عائد ہے۔ بھارتی حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی مزاحمتی تحریکوں سے توجہ ہٹانے کیلئے دہشت گردی کے ہر واقعے کو پاکستان سے جوڑ دیتے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ہاٹ ایشو بن چکا ہے۔ عالمی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 1989ء سے لے کر اب تک‘ بھارتی افواج نے تحریک آزادی کو دبانے کیلئے 12 ہزار سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی، ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید اور ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بچوں اور نو جوانوں کو گرفتار کر کے مختلف عقوبت خانوں میں قید کر رکھا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران نجانے کتنے برہان وانی مقبوضہ وادی کی سڑکوں پر شہید ہو چکے ہیں۔ ہر قانون سے ماورا بھارتی درندے دن دہاڑے 'سرچ آپریشن‘ کے بہانے بے گناہ کشمیریوں کے گھروں میں داخل ہوکر ان کے مال و اسباب کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ہزاروں کشمیری نوجوان اور بوڑھے بھارتی فوج کے ٹارچر سیلوں میں حقِ خودارادیت مانگنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے اجتماعی سزائیں دے کر دیہات اور مضافاتی علاقے تباہ کیے جا رہے ہیں۔ پیلٹ گنوں سے سینکڑوں افراد کی بینائی ختم کر دی گئی ہے، گولا باری سے سکولوں کی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں بیٹیوں کی پرورش کیلئے مہم چلانے والے نریندر مودی کی درندہ صفت افواج مقبوضہ کشمیر کی بیٹیوں کی عفت کے درپے ہے۔ دوسری جانب بھارت سرکار نے 120 بیلسٹک میزائل 'پرالے‘ کی سرحدوں پر تنصیب کی منظوری بھی دے دی ہے۔ دریں حالات ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر کاز کے لیے متحد ہونا ہو گا اور کشمیر کا مسئلہ ہر عالمی فورم پر پوری قوت سے اٹھانا ہو گا تاکہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved