آج کل ہر فورم‘ ہر بیٹھک میں سب سے زیادہ جو معاملہ زیرِ بحث ہے وہ ملکی معیشت اور حکومت کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت‘ جس کی ترجمانی میں اس وقت مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کے چند رہنما ہی پیش پیش ہیں‘ اس بات پر بضد ہے کہ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش ہیں اور حالات کسی بھی قسم کی پریشانی کا شکار نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے مخالفین‘ بالخصوص تحریک انصاف کے لوگ خواہ مخواہ دیوالیہ پن کا ڈھول پیٹے جا رہے ہیں‘ معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ حکومت کے موقف کی بات بعد میں کرتے ہیں‘ اتوار‘ 8 جنوری 2023ء کے اخبارات میرے سامنے پڑے ہیں۔ ''روزنامہ دنیا‘‘ کی سپر لیڈ ہے: ''زرِمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر رہ گئے۔ امارات کے بینکوں کو قرضوں کی واپسی سے صورتحال ابتر‘‘۔ تفصیلات کے مطابق زرِمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے، ذخائر 25 روز کی درآمدات کی ضرورت پوری کرنے کی سطح پر آگئے۔ متحدہ عرب امارات کے دو بینکوں کے ایک ارب ڈالر کی قرض ادائیگیوں کے بعد زرِمبادلہ کے سرکاری ذخائر 4.5 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے جو گزشتہ 8 سال 9 ماہ کی کم ترین سطح ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ زرِمبادلہ کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان جنیوا کانفرنس میں آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ غیر ملکی امداد کے حصول کی کوشش کرے گا‘ اس کے علاوہ حکومت سعودی عرب اور چین سے فنانسنگ حاصل کرنے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی اگلے اقتصادی جائزے کی تکمیل کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ حکومتی ذرائع توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ اگلے ہفتے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اقتصادی جائزے پر بات چیت ہو گی اور اگر جائزہ مکمل ہو گیا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ مالیت کی قسط موصول ہو جائے گی۔ ایک طرف معاشی منصوبہ بندی اور ڈالر حاصل کرنے کے طریقے بتائے جا رہے ہیں‘ دوست ممالک اور مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول کی کوششیں جاری ہیں‘ دوسری جانب وزیرِ خزانہ صاحب کسی معاشی بحران کی موجودگی سے یکسر انکاری ہیں۔ ان کے تازہ ترین ارشاداتِ عالیہ ہیں کہ زرِمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر نہیں 10ارب ڈالر ہیں۔ اس بیان کی صراحت انہوں نے یہ فرمائی ہے کہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود چھ ارب ڈالر بھی پاکستان کے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب ایک طویل معاشی پس منظر رکھتے ہیں‘ وہ چوتھی بار ملک کی وزارتِ خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں‘ کوئی اور شخص اس ریکارڈ میں ان کی برابری نہیں کر سکتا‘ اس کے باوجود وہ فرما رہے ہیں کہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرِمبادلہ بھی حکومت کا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد کافی ہلچل دیکھنے میں آئی کیونکہ کمرشل بینکوں میں غیر ملکی کرنسی اکائونٹ رکھنے والے صارفین پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں اور بینکوں سے اپنا پیسہ نکلوانا چاہتے ہیں۔ اس بیان کے مزید مضمرات آج سامنے آ جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ ڈار صاحب ہی تھے جنہوں نے 2014ء میں‘ بطور وفاقی وزیر خزانہ قومی اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دیا تھا کہ پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ اگر کمرشل بینکوں کے ذخائر سے متعلق ان کی منطق مان لی جائے تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیرونی قرض کے حوالے سے بھی کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہے‘ کیونکہ ہمارا دو سو ارب ڈالر تو سوئس بینکوں میں پڑا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق یکم اپریل 2022ء کو زرِمبادلہ کے ذخائر 16.4 ارب ڈالر کی سطح پر تھے جو رجیم چینج کے بعد اب ساڑھے چار ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر چکے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر خزانہ صاحب فرما رہے ہیں کہ ''جو لوگ ایڈونچر کے طور پر کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا‘‘۔ ملک کی خراب معاشی صورت حال کا الزام انہوں نے پی ٹی آئی حکومت پر لگاتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے وعدے پورے نہیں کیے اور جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا گئے۔ حالانکہ یہی ڈار صاحب تھے جو عمران خان کی حکومت میں ہر روز ٹی وی چینلز پر نت نئی معاشی پالیسی پیش کر رہے ہوتے تھے اور دعوے کر رہے تھے کہ معیشت کو بہتر بنانا تو محض چھ ماہ کا کام ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب اپنے مخصوص انداز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر دعوے سے کہتے تھے کہ ہمارا سارا ہوم ورک مکمل ہے‘ صرف چھ ماہ کا وقت دے دیں‘ آپ کو فرق نظر آ جائے گا۔ مفتاح اسماعیل صاحب کے بیانات اور اُن وڈیوز کا کیا کِیا جائے جن میں وہ فرما رہے ہیں کہ ہم حکومت میں آ کر نہ صرف بجلی کو سستا کریں گے بلکہ پٹرول کو بھی سو روپے سے نیچے لائیں گے، ہمیں آ کر ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ہم نے ساری پلاننگ کر لی ہوئی ہے‘ جیسے ہی اقتدار ہمارے پاس آئے گا‘ ہم اپنی پالیسیوں کو لاگو کرنا شروع کر دیں گے۔ پی ڈی ایم کی چھ ماہ کی حکومت کے بعد گزشتہ سال جب ڈار صاحب نے وزیرِ خزانہ کا عہدہ سنبھالا تھا تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے بھی کم ہے اورچند ہی ماہ میں وہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت کو اس کی اصل سطح یعنی 200 روپے پر واپس لا کر رہیں گے۔ یاد رہے جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو اس وقت ڈالر کا ریٹ 179 روپے تھا۔ 2013ء سے 2017ء تک کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ تب بھی روپے کی قدر کو 'اوور ویلیو‘ رکھا گیا تھا اور اس سے برآمدات گر گئی تھیں اور ترسیلاتِ زر حوالہ؍ ہنڈی کے ذریعے آنا شروع ہو گئی تھیں جس سے ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر نیچے چلے گئے تھے۔ عمران خان حکومت نے آتے ہی روپے کی قدر کو مارکیٹ ریٹ پر بحال کیا تھا جس سے وقتی طور پر ایک جھٹکا ضرور لگا مگر پھر استحکام آنا شروع ہو گیا۔ کم از کم اس وقت جو ڈالر بحران ہے ا ور دیوالیہ پن کی جو چاپ سنائی دے رہی ہے‘ عمران حکومت کے دوران حالات ایسے ہرگز نہیں تھے۔ اُس وقت بعض افراد ہر روز ڈالر کا ریٹ ٹویٹ کر کے پی ٹی آئی حکومت پر طنز کیا کرتے تھے‘ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ عمران خان کی ''ناتجربہ کار‘‘ حکومت معاشی ماہرین کی اس حکومت سے کئی گنا بہتر تھی۔
اس وقت زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے ہیں۔ نہ صرف جان بچانے والی ادویات بلکہ ایکسرے‘ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی فلمز کا بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔ ہر قسم کی درآمدات عملاً بند ہو چکی ہیں جبکہ اب تو بینکوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ غیر ملکی ادائیگیاں انٹربینک نہیں اوپن مارکیٹ ریٹ پر کریں گے۔ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ میں اس وقت 35 سے 40 روپے کا فرق پڑ چکا ہے، یعنی کسی شخص کو بیرونِ ملک سفر پر جانے یا باہر سے کوئی بھی چیز خریدنے کے لیے سرکاری ریٹ کے بجائے فی ڈالر لگ بھگ 260 روپے ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ سبھی معاشی ماہرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کو سرکاری ریٹ پر روک کر رکھنے کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا ہے اور یہ حکومت کا مقرر کردہ سرکاری ریٹ ہی ہے جس کی وجہ سے ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) نہیں کھولی جا رہیں۔ ان حالات میں اوپن مارکیٹ میں افواہیں پھیلانے والے بھی پوری طرح سرگرم ہیں لہٰذا ڈالر کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے جبکہ عوام اس بحران کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ اب اپنی حکومت کے خاتمے کے قریب ایک ماہ بعد کی گئی خان صاحب کی وہ تقریر یاد کریں جس میں انہوں نے اس وقت ہی معاشی بحران کے خدشے کا اظہار کر دیا تھا۔ خان صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے شوکت ترین کے ذریعے طاقتور حلقوں کو پیغام بھجوایا تھا کہ اگر اس نازک مرحلے پر حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا گیا تو پھر معاشی بحران کو کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔ شاید اس وقت پی ڈی ایم کو معیشت سے زیادہ اپنے مقدمات کی فکر ستا رہی تھی، ان کا بھروسہ غالباً ترسیلاتِ زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر تھا کہ اس کے ساتھ وہ معیشت کو سنبھال لیں گے مگر انہیں کیا خبر تھی کہ یہ عمران خان کی حکومت پر اوورسیز پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کا اعتماد تھا‘ جو حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved