''یہ کچھ بھی کر لیں۔جو وڈیو‘آڈیو چاہیں لے آئیں‘جو خان کے ساتھ ہے‘وہ خان کے ساتھ ہے۔اسے چھوڑنے والا نہیں‘‘۔ ''آپ سروے نہیں دیکھ رہے؟ لوگ خان کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔
یہ تبصرے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔مجالس اور تقریبات میں ۔کالموں پر بھی لوگ تبصرہ کرتے ہیں۔بہت سے'ماہرین‘ کا نتیجۂ فکر یہی ہے۔میں سوچتا ہوں :کیا سیاست کا عقل سے کوئی تعلق نہیں؟کیا یہ سرتاپارومان ہے؟عمران خان صاحب کی حمایت اور مخالف میں‘ عقل اور منطق کی بات بھی ہو سکتی ہے لیکن بالعموم یہ نہیں ہو تا۔بر ہان ِقاطع وہی ہے جو میں نے بیان کر دی۔
یہ بات بالعموم وہ لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں جو خاندانی سیاست کے ناقد ہیں اور یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا لوگوں میں عقل نہیں؟آزمائے ہوئے کو آزمانا کون سی دانش ہے؟اب اس تبصرے میں آزمائش سے کیا مراد ہے؟دورِاقتدار؟تو اس اصول کا اطلاق خان صاحب پر کیوں نہیں ہوتا؟ایک مبالغہ آمیز تبصرہ یہ ہو تا ہے کہ فلاں خاندان پینتیس سال سے حکمران ہے۔حقیقت میں یہ چند سال سے زیادہ نہیں ہے‘وہ بھی کبھی ڈیڑھ سال اور کبھی دو سال۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ تحریکِ انصاف‘ بلاشرکتِ غیرے‘ کے پی میں دس سال سے حکمران ہے۔اب اس میں کیا نیا پن باقی ہے؟کیا اب لازم نہیں کہ سب کو ایک ہی پیمانے پر پرکھاجائے ؟
یہ بحث مگر اُس وقت ہو سکتی ہے جب مکالمہ کسی منطق اور عقل کے تابع ہو۔حمایت اور مخالفت کسی دلیل کی بنیاد پر ہو۔عقل کو حاکم اور ثالث مان لیاجا ئے۔ہیجان اور نفرت کی بنیاد پر قائم بیانیے میں عقل کا گزر نہیں ہو تا۔فرد اگر چاہے تو خود کو کسی فریب میں مبتلا رکھ سکتا ہے۔یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بھی ہو تی ہے اور مجھے اس پر کوئی 'عقلی‘ اعتراض نہیں۔سوال اجتماعی معاملات کا ہے۔جن امور کا تعلق اجتماعی سود وز یاں سے ہو ‘کیا ان میں بھی دانستہ فریب کھاناچاہیے؟
جو اقتدار کی سیاست کا عملی حصہ ہیں ‘وہ سر تا پا عقل کے تابع ہیں۔یہ عمران خان ہوں یا شہباز شریف‘ان کے ہاں رومان کا کہیں گزر نہیں۔ رومان تو دُور کی بات‘وہ جذبات کی گٹھری باندھ کر‘ اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔باجوہ صاحب نے شریف خاندان سے کیا سلوک کیا؟لیکن یہی خاندان ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے والوں میں شامل تھا اوراسی خاندان کے افراد ان کے لیے رطب ا للسان بھی ہیں۔یہی خان صاحب تھے کہ باجوہ صاحب کواپنے خلاف سازش کا سرغنہ سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی دوسری بار بھی توسیع دینا چاہتے تھے۔یہ کیا ہے؟یہ عقل پسندی ہے کہ اقتدار کی سیاست کا مطالبہ یہی ہے۔
عوام مگر سادہ لوح ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سیاست رومان ہے۔ان کے لیڈر مسیحا ہیں۔سچ اورحق کی علامت۔خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی۔انہیں اگر کچھ دکھایا یا سنا یا جائے جس سے معلوم ہو کہ وہ بھی عام انسان ہیں بلکہ بعض اخلاقی معاملات میں عام آدمی سے بھی پست تو وہ یقین کر نے پر آمادہ نہیں ہوتے۔وہ اگر دکھائے اور سنائے جانے والے شواہد کی اصلیت پر سوال اٹھا دیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ ایک عقلی دلیل ہے۔آپ کسی شہادت کو رد کر دیں تو یہ عقلی رویہ ہوگا۔پھراس پر گفتگو ہو سکتی ہے کہ ردو قبول کی دلیل کیا ہے؟یہاں مگر اسے تکلف سمجھا جا رہا ہے۔ایک دوسری بات کہی جا رہی ہے:آپ کچھ بھی کہہ لیں‘ جوکسی کے ساتھ ہے‘وہ بس اسی کے ساتھ ہے‘‘۔
موجودہ حکومت پر اعتراضات ہو رہے ہیں۔ اس کی معاشی پالیسی زیرِ بحث ہے۔گورننس کے بارے میں سوالات اُٹھ رہے ہیں۔یہ سب سوالات جائز ہیں اور جواب طلب بھی۔ حکومت ان کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کرے گی۔اب عوام عقل کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ یہ مؤقف کس حد تک قابلِ قبول ہے؟یہ رویہ سیاسی ہے اور عقلی بھی۔ سیاسی جماعتوں کو اسی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔
اسی طرح اگر کسی سیاستدان یا حکمران کی اخلاقی یا مالی کرپشن کے بارے میں کوئی شہادت سامنے آتی ہے تو اس کاجائزہ بھی لینا چاہیے۔ سیاسی فیصلے جذبات کے ساتھ نہیں کر نے چاہئیں۔اگر سیاستدان عقلی بنیادوں پر سوچتے ہیں تو عوام کیوں نہیں سوچ سکتے؟عقلی اور جذباتی فرق کے ساتھ ایک فرق اصولی اور غیراصولی کا بھی ہے۔تجزیہ موجود حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔تبصرہ مگر یہ چاہتا ہے کہ حقیقت کے ساتھ عقل واخلاق کے مطالبات کو بھی سامنے رکھا جائے۔
آج عوام میں کون مقبول ہے؟اس سوال کا جواب جذبات سے نہیں مل سکتا ۔مستعمل پیمانے‘ جس فرد کو مقبول ترین قرار دے رہے ہوں‘ممکن ہے وہ آپ کی پسندیدہ شخصیت نہ ہولیکن آپ کی رائے زمینی حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔اگر آپ کے خیال میں یہ مقبولیت کسی سیاسی یا ابلاغی جادوگری کا نتیجہ ہے اور عوام کسی دھوکے کا شکار ہیں تو عوام کی رائے کو بدلنے کے لیے آپ کو ان کی عقل کو مخاطب بنانا پڑے گا۔ آپ عوام کو بتائیں گے کہ ان کی رائے اگر غلط ہے تو اس کی دلیل کیا ہے۔یاآپ کی نظر میں کوئی قیادت کا اہل نہیں ہے تو کیوں؟یہ مگراسی وقت ممکن ہو گا جب سیاست عقل کے دائرے میں ہوگی۔
سیاست میں اس بات کی تذکیر لازم ہے۔ایک سیاسی مبصر کا کام یہی ہے کہ وہ سیاست کو صحیح ڈگر پر چلانے میں معاون بنے۔لوگوں کو ان عقلی مقدمات کی طرف متوجہ کرتا رہے جوصحیح تجزیے کے لیے ضروری ہیں۔اسی سے کسی قوم کو بہتر قیادت مل سکتی ہے۔ بصورتِ دیگرہم غلط نتائج تک پہنچتے اور اپنی منزل کھوٹی کرتے ہیں۔ہم سراب کودریا سمجھتے اور ہمیشہ پیاسے رہتے ہیں۔ایسے سفر کا حاصل آبلہ پائی کے سوا کچھ نہیں ہو تا۔
اس بات کو جنرل باجوہ صاحب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے جو آج سب سے زیادہ زیرِ بحث ہیں۔جنرل صاحب کا کردار چیف کے منصب پر فائز ہونے سے تا دمِ آخر یکساں رہا ہے۔یہ ایک سیاسی کردار تھا۔پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک‘اس سیاست کا ہدف نواز شریف صاحب تھے۔پچھلے چند ماہ سے عمران خان۔اگر اس کا عقلی تجزیہ کیا جائے تو اس کردار کو دو ادوار میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ غیر عقلی اور متعصبانہ تجزیے کے مطابق یہ اپریل2022 ء سے پہلے کچھ اور تھا اور بعد میں کچھ اور۔ اس تجزیے کی بنیاد پر ہم قومی سیاست اور تاریخ میں جنرل باجوہ صاحب کے کردار کی درست تفہیم نہیں کر سکیں گے۔
اگر کسی شخصیت کے بارے میں سامنے آنے والے حقائق‘ کسی کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتے تو پھر اسے سوچنا چاہیے کہ کیا اسے ایک عقلی وجود مانا جا سکتا ہے؟یہ ممکن ہے کہ حقیقت کے نام پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہو ‘وہ محض جعل سازی اور پروپیگنڈا ہو۔اس فرق کا تعین بھی مگر کسی عقلی دلیل سے ہو گا۔مثال کے طور پر ایک آڈیو سامنے آنے پر متاثرہ فریق اس کی تحقیق کا مطالبہ نہیں کر تا یا اس میں کہی بات کا انکار نہیں کر تا تواس رویے کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا ضروری ہے۔
سیاستدان اگر یہ چاہیں کہ لوگ ہیجان اورنفرت میں مبتلا رہیں تو یہ قابلِ فہم ہے کہ ان کے مفاد کا تقاضا ہے۔مگر عوام؟ جان لینا چاہیے کہ کچھ بھی سامنے آنے پر ‘اگر رائے تبدیل نہیں ہو تی تو پھر معاشرہ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved