وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت اور تحریک انصاف کے دورِ حکومت کا موازنہ پیش کیا ہے‘ اعداد وشمار پر مبنی اس موازنے میں حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت معاشی لحاظ سے تحریک انصاف کے دور سے بہتر تھا۔ وزیر خزانہ کو حقیقت بیان کرنے میں گزشتہ ادوار کا سہارا کیوں لینا پڑا‘ تحریک انصاف کے دور کے بجائے اتحادی حکومت کے موجودہ دس ماہ کی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کرنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کی؟ دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ ڈار صاحب دس ماہ کے اعداد و شمار بھی پیش کرتے‘ مگر انہوں نے تصویر کا ایک رُخ دکھانے پر اکتفا کیا ہے۔کیا الفاظ کے ہیر پھیر سے معیشت کو بہتر ثابت کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی بہتری کا اندازہ وہاں کے عوام کے معیارِ زندگی اور دستیاب سہولیات سے لگایا جاتا ہے‘ اس ضمن میں جب ہم پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں عوام کی محرومی اور پست معیارِ زندگی کی عکاسی کرتی لاکھوں تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں آٹا بحران شدید ہو گیا ہے۔ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان میں تو مختلف اوقات میں آٹا بحران جنم لیتا رہا ہے لیکن پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا ہے کہ گندم کی پیداوار کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی آٹے کے بحران کی زد میں ہے۔ سستاآٹا حاصل کرنے کیلئے عوام ہر مشکل کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تین روز قبل سندھ میں پیش آنے والے واقعات نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خیبرپختونخوا میں روٹی 30سے 40روپے میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ سندھ میں فی کلوآٹا 150روپے میں فروخت ہو رہا ہے‘ جہاں سرکاری نرخ پر آٹے کے ٹرک دکھائی دیتے ہیں عوام کا جم غفیر ٹوٹ پڑتا ہے‘ کیونکہ عام مارکیٹ اور سرکاری نرخ پر ملنے والے آٹے کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہے۔ سستے آٹے کے حصول کیلئے عوام کی لمبی لائنیں انسانیت کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے۔
میر پور سندھ میں ٹرک پر سستاآٹا فروخت کیا جا رہا تھا جسے حاصل کرنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی‘ ہر کوئی اس فکر میں تھا کہ کہیں وہ آٹے سے محروم نہ رہ جائے‘ کچھ خواتین اور نوجوانوں نے ٹرک پر چڑھ کرآٹا حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسی دوران ڈرائیور نے ٹرک چلا دیا‘ متعدد لوگ زمین پرآن گرے‘ بدنظمی ہوئی اور سات بچوں کا باپ لوگوں کے ہجوم میں دب کر جاں بحق ہو گیا‘آٹے کے تھیلے کے ساتھ میت کی تصویر اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گئی ۔ ایسے ہی نواب شاہ میں فلور مل کے باہر عوام سرکاری نرخ پرآٹے کیلئے قطار بنائے کھڑے تھے کہ بھگدڑ مچ گئی جس سے تین خواتین ہجوم کے پاؤں تلے دب گئیں‘ سندھ کے علاقے ٹنڈو باگو میں جب ایک ماہ کے بعد سستے آٹے کا ٹرک آیا تو عوام ٹرک کے گرد جمع ہو گئے‘ لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر پولیس طلب کرنی پڑی جس نے ہجوم پر لاٹھی چارج کیا‘ لاٹھی لگنے سے ایک نوجوان کا سر پھٹ گیا جس سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ یہ واقعات عوام کی حقیقی تصویر ہیں مگر اربابِ حل و عقد ایسی تصاویر کو بیان کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں۔ ہماری صورتحال کچھ یوں ہے کہ
ہر کام چل رہا ہے یہاں پر بیان سے
سرکار کے ستون تو رہتے ہیں شان سے
قرضہ تو مل رہا ہے ہمیں ہر دکان سے
خیرات آ رہی ہے بڑی آن بان سے
سب کچھ ہے اپنے دیس میں‘ روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو‘ لنگوٹی نہیں تو کیا
گزشتہ سات برس میں پاکستان کا بیرونی قرض 65 ارب ڈالر سے بڑھ کر 130ارب ڈالر ہو گیا ہے‘ پاکستان نے آئندہ تین برسوں کے دوران یعنی مالی سال 2023ء تا مالی سال 2025ء کے دوران 73ارب ڈالر قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں جبکہ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر چارارب ڈالر کی کم ترین سطح پرآ گئے ہیں۔ 130ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا حجم ہمارے جی ڈی پی کا چالیس فیصد بنتا ہے‘ جسے آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہماری آمدن کا چالیس فیصد بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوتا ہے‘ ان بیرونی قرضوں میں اگر اندرونی قرضے بھی شامل کر لیے جائیں تو پاکستان کے مجموعی قرضے 60ہزار ارب سے تجاوز کر جاتے ہیں جو جی ڈی پی کا 90فیصد بنتا ہے‘ ہر حکومت قرضوں کے بوجھ میں کمی کا دعویٰ کرتی ہے مگر حکومت کے رخصت ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جانے والی حکومت قرضوں میں اضافہ کر گئی ہے۔ ملکی پیداوار کا نوے فیصد جب قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے تو باقی دس فیصد سے ملک کیسے چلائیں گے؟ مطلب یہ کہ ہمارا اصل مسئلہ قرضے ہیں جن سے چھٹکارا ہی مسائل کا حل ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار اور بیرونی قرضوں کے حجم کو دیکھا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ بے توقیر رہے گا۔ اس لیے موجودہ حالات میں جو بھی حکومت ہو گی اسے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوری الیکشن معاشی مسائل کا حل نہیں ہے‘ قرضوں سے نجات کیلئے جامع معاشی پروگرام اور مقامی مصنوعات کا فروغ ہی واحد حل ہے۔گردشی قرضوں کا تعلق چونکہ اندرونی معاملات سے ہے اس لیے ان میں کمی لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں‘کیونکہ توانائی پر سالانہ 27ارب ڈالر تک خرچ آ رہا ہے‘ اس لیے شمسی توانائی منصوبوں کو فروغ دے کو اربوں ڈالر کی بچت کی جا سکے گی۔
ایسے حالات میں جب پاکستان شدید مالی مسائل کا سامنا کر رہا ہے تین خبریں حوصلہ افزا بھی ہیں۔آرمی چیف نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جس سے مالی تعاون کی راہ ہموار ہو نے کی توقع ہے۔ پاکستان کے واجب الادا قرضوں میں اگرچہ 30فیصد قرضے چین کے ہیں تاہم اس کے باوجود ہر مشکل میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔مالی بحران کے پیش نظر چینی سفیر کا حالیہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ نے کہا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے پاکستان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ انہوں نے آئی ایم ایف پر زور دیا کہ الزام تراشی کی بجائے پاکستان کی ٹھوس مدد کریں۔ چین نے سیلاب زدگان کیلئے 160 ملین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے جس میں سے زیادہ حصہ پاکستان کو دیا جا چکا ہے یہ رقم کسی بھی ملک کی طرف سے کئے جانے والے مالی تعاون سے زیادہ ہے۔ تیسری حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی کیلئے جنیوا میں ڈونرز کانفرنس جاری ہے‘ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے متاثرین کی بحالی کیلئے 16.3ارب ڈالر کا فریم ورک پیش کیا ہے۔ اگر اس رقم میں سے آدھی بھی پاکستان کو مل گئی تو موجودہ حالات میں کئی حوالوں سے اس کی بہت اہمیت ہو گی۔ متاثرین کی بحالی کے علاوہ پاکستان کو مالی بحران سے نجات میں اس رقم کا اہم کردار ہو گا‘ تاہم پاکستان کے موجودہ معاشی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو ‘کیونکہ جب تک اہلِ سیاست باہم دست و گریبان رہیں گے دنیا ہمارے مؤقف پر اعتبار نہیں کرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved