تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     10-01-2023

نیلسن منڈیلا کے دیس میں… (3)

نیلسن منڈیلا ماڈرن جنوبی افریقہ کا بابائے قوم ہے۔ اس نے اپنی زندگی نسلی امتیاز کے خلاف مزاحمت میں گزار دی۔ اسے کامیابی ہوئی۔ دنیا جہاں کے ایوارڈ ملے جن میں نوبل امن انعام اور بھارت رتنا بھی شامل تھے۔ نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور 1994ء میں منڈیلا الیکشن کے ذریعے جنوبی افریقہ کا صدر بنا۔ ایسی نیک نامی اور شہرت دنیا کے بہت کم لیڈروں نے دیکھی ہے۔
جس طرح پاکستان میں لوگوں کو کرکٹ کا جنون ہے اسی طرح جنوبی افریقہ میں ہر کوئی رگبی کا دیوانہ ہے۔ 1994ء میں جب نسلی امتیاز ختم ہوا اور نیلسن منڈیلا پہلا سیاہ فام صدر بنا تو رگبی ٹیم کا کپتان فرنسوا ہینار تھا جو کہ سفید فام تھا۔ کئی سیاہ فام کھلاڑی بہت اچھے لیول کے تھے۔ سیاہ فام لوگ طویل جدوجہد کے بعد اقتدار کے حقدار ٹھہرے تھے ملک میں جمہوریت آ چکی تھی اور گورے رنگ کے لوگ اب اقلیت میں تھے۔ سیاہ فام لوگ اور کھلاڑی مطالبہ کر رہے تھے کہ گورے رنگ کے رگبی ٹیم کے کپتان کو نکال کر کسی اور کو یہ منصب دیا جائے لیکن منڈیلا نے یہ مطالبہ ردکر دیا۔ اس لیڈر نے نسلی منافرت کو ختم کر دیا۔ بدلہ لینے والی پالیسی کو قطعاً فروغ نہیں دیا ورنہ جنوبی افریقہ کا بھی آج وہی حال ہوتا جو زمبابوے کا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلی اوپن ہارٹ سرجری کیپ ٹاؤن میں ہوئی تھی اس سے پہلے اوپن ہارٹ سرجری کے تجربے جانوروں پر ہو چکے تھے لیکن ایک دل کے مریض انسان کو انسان ہی کا دل ڈاکٹر کرسچین برنارڈ نے 1967ء میں لگایا۔ اس پیوند شدہ دل کے ساتھ وہ اٹھارہ دن تک زندہ رہا لیکن اس کی موت کا سبب دل کا فیل ہونا نہیں تھا آج بھی کرسچین برنارڈ کے نام پر کیپ ٹاؤن میں ایک بڑی سڑک موجود ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے جنوبی افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے یہاں جمہوریت قائم ہے۔ نسلی امتیاز ختم ہو چکا۔ تعلیم عام ہے۔ ایک زمانے میں ہیرے جواہرات کی کان کنی پر جنوبی افریقہ کی اجارہ داری تھی۔ کوئلہ بڑی مقدار میں ہے۔ تانبے اور پلاٹینم کے ذخائر ہیں لیکن پھر بھی مجھے لگا کہ یہ ملک فرسٹ ورلڈ اور تیسری دنیا کے درمیان میں کہیں اٹکا ہوا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بہت فرق ہے اور میری سمجھ میں یہ آیا کہ بڑی وجہ کرپشن ہے میں جب وہاں تھا صدر رانا پوسا ایک کرپشن سکینڈل کی زد میں تھے۔ اس سکینڈل کا تفصیل سے ذکر اگلے کالم میں آئے گا۔ آج ہم نے کیپ ٹاؤن کے ڈاؤن ٹاؤن یا سٹی سنٹر جانا ہے جہاں کئی تاریخی مقامات اور مجسمے ہیں اور وہ چوک بھی ہے جہاں غلاموں کو نیلام کیا جاتا تھا۔جنوبی افریقہ میں غلاموں کی تجارت سترہویں صدی میں ولندیزی (Dutch)لے کر آئے اور اسے انگریزوں نے انیسویں صدی میں ختم کیا۔ کیپ ٹاؤن میں وہ عمارت آج بھی موجود ہے جہاں سرکاری غلاموں کو رکھا جاتا تھا۔ اس بلڈنگ کی گراؤنڈ فلور کی کھڑکیاں ایسے بنائی گئی ہیں کہ اندر رہنے والے غلام سڑک پر آنے جانے والے لوگوں سے بات نہ کر سکیں یہاں ہماری گائیڈ ایک سیاہ فام خاتون تھی جو اپنے ملک کی تاریخ اور کیپ ٹاؤن کے تاریخی مقامات سے خوب واقف تھی۔ خاتون سیاحوں کے چھوٹے سے گروپ کو ساتھ لے کر ڈیڑھ گھنٹہ تاریخی مقامات کی مفصل تشریح کرتی رہی۔ ہم کمپنی باغ گئے جہاں سیسل روڈز (Cecil Rhodes)کا مجسمہ آج بھی موجود ہے ۔ہم نے وہ چرچ بھی دیکھا جہاں آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو ہر اتوار کے روز عبادت کو لیڈ کرتا تھا۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو منڈیلا کے ساتھ نسلی امتیاز کے خلاف لڑا اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد درگزر اور رواداری کی پالیسی اختیار کی۔ منڈیلا کی طرح وہ بھی نوبل امن انعام کا حقدار ٹھہرا۔میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ عام سیاہ فام مزدور اور غلام میں کیا فرق تھا؟ جواب ملا کہ مزدور کو تنخواہ ملتی تھی اور اسے احتجاج کا حق بھی حاصل تھا جبکہ غلام ان دونوں حقوق سے محروم تھے۔ احتجاج کے حق سے یاد آیا کہ کوئلے کی کانوں کے مزدوروں کی یونین خاصی فعال تھی اور مساوات کی تحریک میں یہ لوگ نیلسن منڈیلا کی فوج کا ہر اول دستہ تھے۔
ہم لوگ سیسل روڈز کے قد آدم سے بھی بڑے مجسمے کے سامنے کھڑے ہیں۔ روڈز برطانوی سامراج کے زمانے میں بڑا نام تھا۔ وہ جواہرات کی مشہور کمپنی ڈی بیرز کا مالک تھا لیکن اس صاحبِ ثروت شخص نے کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی بھی بڑی مدد کی مگر آج اسی یونیورسٹی کے طلبا اس مجسمہ کو گرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی مرتبہ مجسمہ گرانے کی کوشش بھی ہو چکی ہے لیکن یہ اس قدر مضبوط دھات سے بنا ہوا ہے کہ اب تک گرایا نہیں جا سکا۔
کمپنی باغ میں مجھے آف وائٹ رنگ کی گلہریاں نظر آئیں یہ میرے لئے حیران کن بات تھی شاید وہ روڈز کے مضبوط مجسمے کے نیچے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ نسلی امتیاز کے دنوں میں جنوبی افریقہ کی اسی فیصد زمین سفید فام لوگوں کے قبضے میں تھی اور آج بھی یہاں آپ کو کوئی غریب گورا شاید ہی ملے۔ زمین زرخیز ہے اکثر علاقہ بارانی ہے یہاں انگور خوب ہوتا ہے۔ فرانسیسی نژاد گوروں کے بڑے بڑے انگور کے فارم ہیں۔ کئی فارموں کے اندر ہی نبیذ (wine)کشید کرنے کی مشینری لگی ہوئی ہے۔ سیاحوں کیلئے وائن کا ذائقہ چکھنے کے ٹورز ترتیب دیئے گئے ہیں۔ ہر ٹور آپریٹر سیاحوں کو انگور کے کم از کم تین فارمز پر اپنی کوسٹر میں لے کر جاتا ہے جہاں اُن کی تواضع انواع و اقسام کی نبیذ اور ماکولات سے کرتا ہے۔ یہ ٹور خاصے مہنگے ہیں اس لئے ہماری پہنچ سے باہر تھے۔
کمپنی باغ کے پاس ہی وہ عمارت ہے جہاں کابینہ کے اجلاس ہوتے تھے۔ آج بھی غیر ملکی وی آئی پی مہمانوں کا گارڈ آف آنر سے استقبال یہیں ہوتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ بڑا ملک ہے اس کا مجموعی رقبہ پاکستان سے قریباً25 فیصد زائد ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں تین کیپٹل ہیں۔ حکومت جوہانسبرگ میں ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ پریٹوریا (Pretoria)میں ہے۔ پارلیمنٹ کیپ ٹاؤن میں ہے۔
اور اب ہم چلتے ہیں ٹیبل ماؤنٹین کی طرف جو کیپ ٹاؤن کی خاص پہچان ہے۔ یہ پہاڑ اب شہر کا حصّہ ہے۔ ایک جانب سمندر ہے اور تین طرف آبادی۔ اسے ٹیبل ماؤنٹین اس لئے کہا جاتا ہے کہ اوپر سے بالکل ہموار ہے۔ پہاڑ ایک ہزار میٹر سے ذرا زیادہ اونچا ہے۔ اوپر جانے کیلئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے اور کیبل کار میں سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں۔ ویسے کچھ لوگ پیدل بھی اوپر جاتے ہیں لیکن یہ خاصا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہاں بڑے کمرے کے سائز کی کیبل کار نصب کی گئی ہے جس میں بیک وقت ساٹھ اشخاص آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ پہاڑ کے اوپر وسیع سپاٹ ایریا ہے‘ یہاں انواع و اقسام کی پہاڑی جھاڑیاں اور نباتات ہیں‘ طرح طرح کے پرندے نظر آتے ہیں جو کہ سیاحوں کی بچی ہوئی خوراک سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ پہاڑ کے اوپر پورا چکر کاٹنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے‘ میں نے دو تین چکر لگائے۔ اوپر دو شاندار ریسٹورنٹ ہیں اور سیاحوں کیلئے سوونیئر شاپ ہے ۔یہاں ایک یونیورسٹی پروفیسر سے دلچسپ ملاقات ہوئی جو پریٹوریا میں موسیقی کا مضمون پڑھاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے تمام ہمسایوں سے تعلقات دوستانہ ہیں ‘کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں لہٰذا دفاعی بجٹ برائے نام ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved