تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-01-2023

آٹے کا بحران اورقیمتی گاڑیوں کی درآمد

وزیراعظم شہباز شریف نے جنیوا میں منعقدہ کانفرنس میں کہا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی کے لیے پاکستان 8 ارب ڈالر مقامی سطح پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن دنیا بھی اسی کے برابر حصہ ڈالے۔جنیوا میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور بچوں سمیت 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق سیلاب متاثرین کی بحالی و تعمیر نو سے متعلق جنیوا کانفرنس کے پہلے مرحلے میں عالمی برادری نے پاکستان کے لیے 8 ارب 57 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے۔پہلے مرحلے میں یورپی یونین نے 9 کروڑ 30 لاکھ ڈالر‘ جرمنی نے 8 کروڑ 8 لاکھ ڈالر‘ چین نے 10 کروڑ ڈالر‘ اسلامی ترقیاتی بینک نے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر اور عالمی بینک نے 2 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے لیکن عملاً کیا ملتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
خیال تھا کہ جنیوا میں ہونے والی عالمی ڈونرز کانفرنس سے پاکستان کے حالات سدھر جائیں گے اور سب دکھ اور خدشات ہوا میں اُڑ جائیں گے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اس کانفرنس کا نام ہی کچھ اور رکھ دیا گیا اور اس کانفرنس میں جن کی شرکت کی باتیں کی جا رہی تھیں‘ ان کے بجائے بعض خبروں کے مطابق جنیوا کے اعلیٰ اور سات ستارہ ہوٹلوں میں بھارتی مندوبین ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک آتے جاتے دکھائی دینے لگے۔ چلیں ہمیں تو معیشت سے غرض ہے‘ وہ امریکہ درست کرے یا کوئی اور۔ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے‘ پیسے کے سوا ور کچھ نہیں۔ پاکستان میں تو کہیں اس کا ذکر ہی نہیں مل رہا لیکن بھارت اور دنیا بھر کا میڈیا یہ خبریں دے چکا ہے کہ بھارتی مندوبین بھی خیر سے جنیوا میں موجود تھے۔ ملکِ عزیز میں جب میرپور خاص میں مٹھی بھر آٹا لینے والے ہجوم میں ایک کچلی ہوئی لاش کھلی آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی اور جنیوا میں اقوامِ عالم سے امداد مانگی جا رہی تھی تو ذرائع ابلاغ پر خبریں دی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں165 نئی قیمتی گاڑیاں منگوانے کی اجا زت دے دی ہے۔یہ کیسی بے حسی ہے‘ یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے کہ ایک طرف تو عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بلک رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جو ابھی تک تعیشات میں پڑے ہوئے ہیں۔
لندن سے ہمارے ایک دوست کا فون آیا کہ کبھی بھارتی میڈیا بھی دیکھ لیا کرو‘ جب ہم نے بھارتی میڈیا سے اپنی لاعلمی کا ذکر کیا تو کہنے لگے بھائی وہاں تو بتایا جا رہا ہے کہ جنیوا میں جہاں پاکستان کے ایک دو سیاستدانوں کی بھارتی مندوبین سے ملاقاتیں ہوئی ہیں تو یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایک بھارتی مندوب نے پاکستانی سیاستدانوں کی کچھ اہم امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں کرا دی ہیں۔ بھارتی مندوب کا اچانک جنیوا جانا اس کے پروگرام میں شامل نہیں تھا لیکن پھر نہ جانے اچھے بھلے بیٹھے بٹھائے اسے کیا سوجھی کہ وہ دہلی سے اچانک اٹھ کر اپنے خصوصی طیارے پر جنیوا جا پہنچا۔ ہمارے جیسے کروڑوں عام لوگ شاید مذکورہ بھارتی مندوب کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ نہیں کر سکتے لیکن بھارت اور دنیا بھر میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے بعد بھارت کی سب سے اہم ترین سیاسی شخصیت ہیں‘ اس لیے جنیوا کانفرنس میں جہاں خیر سے ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف ایک خبر کے مطابق بہت سے صحافیوں کے علا وہ چھیالیس یا اس سے بھی زائد کا کوئی اہم ترین وفد لے کر شریک ہوئے ہیں تو ظاہر ہے کہ ایسے ہائی پروفائل وفد اور صحافیوں کا ایک جگہ اکٹھے ہونا بے مقصد تو نہیں‘ اس سے تو لگتا ہے کہ اس میں بھی ملکِ عزیز کے لیے کچھ نہ کچھ بہتری تو ضرور ہو گی۔ اور نہیں تو وفد میں شامل حضرات کو سوئس بینکوں کو باہر سے ہی دیکھنے کے بعد اس میں کام کرنے والوں کی مہارت اور طریقہ کار کا کچھ تجربہ ہو جائے گا۔
عمران خان کی ناکامی کی وجوہات میں ایک یہ بھی تھی کہ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران اُن کا وفد اس قدر مختصر اور غیر اہم افراد پر مشتمل ہوتا تھا کہ ان میں کسی قابلِ ذکر شخصیت کو نہ دیکھتے ہوئے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا تھا بلکہ آج بھی پی ٹی آئی اور عمران کو پتا ہی نہیں کہ وہ کون ہے جو ان کا بے غرض دفاع کرتا چلا آ رہا ہے۔ غریب بھائی بہن اور رشتہ داروں کو دیکھ کر چہروں پر بیزاری سی آ جاتی ہے تو ایسے میں سوچئے کہ اگر آپ کسی چھوٹی سی گاڑی سے اتریں یا آپ کی رہائش کسی عام سے علا قے میں ہو تو لوگ آپ کی غربت اور ظاہری حالت دیکھتے ہوئے زیا دہ اہمیت نہیں دیتے اور اگر ایسے لوگ آپ کے دفتر یا بنگلے پر کسی دن ملاقات کے لیے آ جائیں تو بجائے خود استقبال کرنے کے اپنے ماتحت کو بھیج دیتے ہیں تاکہ معمولی لباس اور عام سی گاڑیوں میں سفرکرنے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے کا ناخوشگوار فریضہ انجام نہ دینا پڑ جائے۔ اگر کچھ کم فہم لوگ اعتراض کررہے ہیں کہ وزیراعظم کو اتنا بڑا وفد جنیوا ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی‘ جب پاکستان میں لوگ آٹے کے لیے قطاروں میں لگے کئی کئی دن دھکے کھانے کے بعد مایوس واپس لوٹ رہے ہوں‘ جب عوام کی سہولت کے لیے قائم کیے گئے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر قوم کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں سخت ترین سردی میں گود میں چند ماہ کے بچے لیے قطاروں میں کھڑی ایک مٹھی آٹے کے لیے دھکے کھا رہی ہوں‘ جہاں ایک کلو گھی کے پیکٹ کے لیے عزتیں بیچی جا رہی ہوں‘ جہاں سندھ کے دور دراز کے دیہات میں میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے آٹا آٹا پکارتے عوام ہجوم کے پائوں تلے کچلے جا رہے ہوں‘ جہاں غریب ماں باپ کئی روز سے بھوکے بچوں کو روٹی نہ دے سکنے کی وجہ سے پورے خاندان کے گلے کاٹ کر ان سب کو بھوک کی اذیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دے رہے ہوں‘ جہاں ملک قرضوں کی دلدل میں گردن تک ڈوب چکا ہو‘ وہاں اتنا بڑا شاہی وفد لے کر جانے کی کیا ضرورت تھی۔
آج سب سے زیا دہ غصہ ہمارے دانشور استاد گوگا جی کا دیکھنے کو مل رہا ہے‘ نہ جانے انہوں نے ٹی وی پر کیا دیکھ لیا کہ ہمیں فون پر ڈانٹتے ہوئے بولے کہ خبردار اگر آج کے بعد تم نے وزیراعظم یا ان کی حکومت کے بارے میں کچھ خلط ملط لکھا۔ سوشل میڈیا تمہیں جو کچھ بتاتا ہے‘ لکھ دیتے ہو۔ ٹی وی دیکھو تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ملکی خزانہ دن رات ڈالروں سے بھرا جا رہا ہے۔ استاد گوگا کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کے بعد ٹی وی دیکھا تو اپنی کم علمی اور نواز لیگ سے خدا واسطے کے بیر پر شرمندگی بھی ہوئی۔ ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا کہ اسحاق ڈار اور ایف بی آر کی بے مثال محنت سے ملکِ عزیز کی موجودہ حکومت 3490 ارب ڈالر کا ٹیکس اکٹھا کر چکی ہے۔ ہمارے بہت سے میڈیا سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو‘ رجیم چینج فیم گورنمنٹ کو طعنے دیتے ہوئے ان کے ہر اچھے کام پر اُسے ہمہ وقت کوسنے کے بجائے چاہیے کہ کسی دن تھوڑا سا وقت نکال کر چند دنوں سے ذرائع ابلاغ پر وزیر خزانہ اور ان کی کار کردگی کے بارے میں وہ پیغامات ہی سن لے تو آج کل ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں اور جن میں پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت نے اتنے کم عرصے میں 3490ارب ڈالر ٹیکس اکٹھا کیا ہے جو اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے تو شاید ہمیں کوسنے سے باز آ جائے۔ ابھی ہم سب اس کارکردگی پر جھوم ہی رہے تھے کہ شور مچ اٹھا کہ بھائی یہ 3490 ڈالر نہیں بلکہ پاکستانی روپے ہیں‘ بس یہ سننا تھا کہ تمام خوشیاں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں ۔ استاد گوگا کے پاس جا پہنچے تاکہ ان کی کم علمی اور غلط فہمی کو دور کر دیں‘ دیکھا تو وہ کسی اور سے مصروفِ گفتگو تھے اور ان کے لہجے میں بہت سختی تھی‘ ان کے الفاظ کو قریب سے سنا تو وہ کھولتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کے بے لگام اور بہتان طرازی کرنے والے لوگ کبھی سرکاری ٹی وی پر اسحاق ڈار کی ساڑھے چار ارب کے بجائے دس ارب ڈالر کے ملکی خزانے کی وضاحت ہی دیکھ لیتے؟ کمرشل بینکوں میں عوام کے جمع شدہ چھ ارب ڈالر بارے فتویٰ جاری کر دیا گیا ہے کہ یہ بھی پاکستانی خزانے کے ہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے 1998ء میں جب ایٹمی دھماکوں کے بعد راتوں رات عوام اور اوورسیز پاکستانیوں کے جمع شدہ ڈالرز کو ملکی خزانہ قرار دے کر منجمد کر دیا تھا۔ وزیر خزانہ کے اس بیان کے بعد رہا سہا اعتماد جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے‘ اس کے بعد پی ڈی ایم پھر کہنے لگے گی ''اوور سیز پاکستانیوں نے عمران کے کہنے پر سرمایہ کاری روک دی ہے‘‘!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved