جنرل حمیدگل سے منسوب ایک بیان کے مطابق پاکستان کے پاس بیرونی غلامی سے نجات اور ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا واحد راستہ ڈیفالٹ ہے‘ امریکہ سمیت سب کے مفادات پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں اور اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا تو نہ صرف وہ پاکستان کے قرضے معاف کریں گے بلکہ مزید امداد بھی دیں گے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ تو ابھی پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی گمبھیر تھی اور نہ ہی امریکی ڈالر اس قدر مہنگا اور نایاب تھا۔ مجھے اُس وقت جنرل حمیدگل سے منسوب اس بیان کی سمجھ نہیں آتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم عالمی سطح پر تنہا رہ جائیں گے‘ ہمیں قرض دینا تو دور کی بات کوئی ہمارے ساتھ تجارت بھی نہیں کرے گا‘ ہم پر عالمی پابندیاں لگ جائیں گی‘ ہماری درآمدات و برآمدات رک جائیں گی اور خدانخواستہ ہم بھوکے مر جائیں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ہم بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں تو مجھے حمید گل صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں کہ کاش ہمارے حکمران بھی امریکہ اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر اپنے ملک کا سوچیں۔ سری لنکا کی مثالیں دینے والے سیاستدانوں سے میرا سوال ہے کہ کیا سری لنکن قوم ڈیفالٹ کے بعد بھوک سے مرگئی؟ کیا سری لنکا عالمی سطح پر تنہا ہو گیا؟ کیا سری لنکا زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہوا یا ان کی معیشت سنبھلنے لگی؟ حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستان میں سری لنکا کی مثالوں پر سیاست چمکائی جارہی تھی تو سری لنکا میں شدید ترین معاشی بحران جاری تھا اور ملک بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کر چکا تھا۔ آئی ایم ایف عہدیداران پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیرممالک کو دھمکیاں دے رہے تھے اور ہمارے اپنے‘ ملک کو بحران سے نکالنے کے بجائے اس پر سیاست چمکا رہے تھے۔ سری لنکا نے ڈیفالٹ کیا اورکچھ عرصہ کے لیے اپنے وسائل پر اتفاق کیا‘ بیرونی قرضوں سے وقتی طور پر جان چھڑائی اور قومی وسائل اپنے عوام پر خرچ کیے جس کے بعد صرف چند ماہ میں ہی وہاں معاشی بحران کی شدت ختم ہو گئی اور حالات بہتر ہونے لگے۔ نہ تو سری لنکا عالمی سطح پر تنہا ہوا اور نہ ہی ڈیفالٹ کے بعد ان کے عوام بھوک سے مرے بلکہ وہاں روز بروز صورتحال بہتری کی طرف جا رہی ہے اور بہت جلد ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوگی۔
پاکستان میں آج بھی سیاست ڈیفالٹ پر ہی چل رہی ہے‘ اپوزیشن ہر روز یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ حکومت کے پاس صرف چند روز کے ذخائر رہ گئے ہیں اور اس کے بعد خدانخواستہ یہ ہو جائے گا‘ وہ ہو جائے گا۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ اپوزیشن سیاسی مخالفین کو ناکام دکھانے کے لیے پاکستان کو مزید معاشی بدحالی سے دوچار دیکھنا چاہتی ہے‘ حزبِ اختلاف کی یہی کوشش ہے کہ ملک میں مزید مہنگائی و بے روزگاری بڑھے تاکہ وہ عوام میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوکر اپنے آئندہ انتخابات کے لیے ماحول بنا سکیں جبکہ حکمران صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ دونوں اطراف سے مسائل و بحران کا کوئی حقیقی حل سامنے نہیں آتا اور نہ ہی کوئی اس معاملے میں سنجیدہ نظر آتا ہے بلکہ صرف اس ایشو پر سیاست چمکا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور آئی ایم ایف کبھی بھی پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے‘ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں کے بیانات امریکی خوشنودی کے لیے ہوتے ہیں اور وہ وہی بات کرتے ہیں جو امریکہ کوپسند ہوتی ہے۔ کاش آج بھی کوئی بیرونی آقاؤں کے بجائے اپنے عوام کے مستقبل بارے سوچے‘ کاش کوئی عوام کو ڈیفالٹ سے ڈرانے کے بجائے لوگوں کو یہ بتائے کہ ہمارے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے اور ہمیں باہر سے کچھ منگوانے کی ضرورت نہیں۔ کاش کوئی نئی نسل کو بتائے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس اپنے میدان‘ صحرا‘ دریا‘ سمندر‘ قیمتی معدنیات سے بھرے پہاڑ‘ تیل وگیس کے ذخائر‘ جنگلات اور چار موسم ہیں۔ ہم اپنی خوراک خود پیدا کر سکتے ہیں‘ ہماری ٹیکسٹائل کسی سے پیچھے نہیں‘ ہم اگر ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو سستی بجلی کیوں پیدا نہیں کر سکتے‘ سستی گاڑیاں کیوں نہیں بنا سکتے؟ ہم مزدوری کے لیے غیرممالک میں دھکے کھا سکتے ہیں تو اپنے ملک میں کیوں محنت نہیں کر سکتے۔ قائداعظم محمد علی جناح جیسے عظیم سیاستدان‘ علامہ محمد اقبال جیسے عظیم دانشور‘ حکیم سعید جیسے محب وطن صنعت کار‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عظیم سائنسدان اور عبدالستار ایدھی جیسی انسانیت دوست شخصیت شاید دنیا میں کسی دوسری قوم کو کم ہی ملی ہو گی۔ ہماری بہادر عسکری قیادت میں ایک نہیں بلکہ درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جو دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں لیکن ہم نے انہیں اپنا آئیڈیل بنایا ہی نہیں اور نہ ہی ان جیسا بننے کی کوشش کی‘ ہم تو ان کے فرمودات بھی فراموش کر چکے ہیں۔
ایک اور تلخ حقیقت جو ہمارے دشمن بھی جانتے ہیں کہ ہمارے چند عناصر جو دشمن کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں‘ وہ آج تک کالا باغ ڈیم جیسے اہم ترین اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ضامن منصوبے کے لیے قومی اتفاقِ رائے ہی پیدا نہیں ہونے دے رہے‘ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ کالا باغ ڈیم بن گیا تو پاکستان کی زراعت ترقی کرے گی‘ ملک میں سستی بجلی وافر مقدار میں بن سکے گی‘ خیبرپختونخوا سمیت ملک کے متعدد علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے‘ ہمارا پانی ضائع نہیں ہوگا اور یہی سب کچھ تو ہمارے دشمنوں کو اچھا نہیں لگتا۔ بیرونی دشمنوں سے توکوئی شکوہ نہیں‘ وہ تو اپناکام کررہے ہیں‘ ان کاکام ہی وطن عزیز کو نقصان پہنچانا ہے جو ہمیں بھی معلوم ہے اور ہم انہیں پہچانتے ہیں‘ اصل مسئلہ تو ان چند مٹھی بھر اندرونی دشمنوں کا ہے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ بالکل ایسی ہی صورتحال ہمیں سی پیک جیسے اہم ترین منصوبے کی راہ میں بھی درپیش ہے‘ خوش قسمتی سے اس منصوبے پر کام کا آغاز تو ہو چکاہے اور قومی اتفاقِ رائے بھی ہے لیکن اب بھی بہت سی قوتیں بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس اہم ترین میگا پراجیکٹ کی راہ میں روڑے اٹکانے اور مختلف حیلے بہانوں سے تاخیر کا شکار کرکے اس کی لاگت اور مدت میں اضافہ کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ جس رفتار سے یہ منصوبہ شروع ہوا تھا‘ اگر بروقت مکمل ہو جاتا تو آج پاکستان کوکسی بیرونی قرضے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ہم اس روٹ سے فائدہ اٹھانے والی دیگر ریاستوں سے راہداری ٹیکس ڈالروں میں وصول کرکے اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کر سکتے تھے‘ اس طرح ڈالروں کی کمی بھی نہ ہوتی اور پاکستان آئی ایم ایف کا اتنا محتاج بھی نہ ہوتا۔
بات ڈیفالٹ سے شروع ہوئی تھی‘ اگر قوم تہیہ کرلے کہ ہم نے اپنی خود داری پر سمجھوتہ نہیں کرنا‘ ہم اپنی عزت اور قومی غیرت کو دولت سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں تو پھر ڈیفالٹ کا خوف خود بخود ختم ہو جائے گا‘ جب عوام بیدار ہو جائیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ امریکہ اور آئی ایم ایف کے سامنے ڈیفالٹ کرنے سے ان کے مفادات کوکوئی نقصان نہیں ہے اور اللہ پاک نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے کہ ہمیں باہر سے کچھ منگوانے کی ضرورت ہی نہیں‘ بلکہ یہ صرف ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں کا مسئلہ ہے جن کی اولادیں‘ جائیدادیں اور مفادات امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپ اور بیرونی دنیا کے ساتھ وابستہ ہیں تو پھر ہم اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کے قابل بھی ہو جائیں گے‘ پھر ہمیں شاید دنیا کی اتنی ضرورت نہ رہے جتنی امریکہ اور دیگر عالمی برادری کو ہماری پیش آئے گی۔ بات صرف ذہنی غلامی سے نکلنے اور اللہ کی عطاکردہ نعمتوں کا شکر بجا لانے کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved