لوگ خرابیوں اور خامیوں کا رونا رو رہے ہیں اور اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ محض رونا روتے رہنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ نکتہ یکسر فراموش کر دیا گیا ہے کہ معاملات کی درستی کے لیے ایک بنیادی شرط ہے حقیقت پسندی۔ حقیقت پسندی کی راہ پر چل کر ہی انسان اپنے وجود کے غیر جانب دار تجزیے تک پہنچتا ہے۔ یہ بنیادی وصف ہی انسان کو اپنے وجود کی گہرائی میں اترنے اور پوری دیانت سے اپنا جائزہ لے کر معیشت و معاشرت میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے کے لیے معاملات کے تجزیے کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ معاملات کا غیر جانب دار اور جامع تجزیہ ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کس معاملے میں کیا کر سکتے ہیں‘ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ حقیقت کو زندگی کے ہر معاملے میں اپنانا ہے۔ یہ انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح کا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی کسی ایک معاملے میں ایمان دار اور غیر جانب دار جبکہ دیگر معاملات میں بے ایمانی کا مظاہرہ کرتا پھرے۔ یہ دُوئی یا منافقت زیادہ دیر چل نہیں سکتی اور بالآخر زندگی کا توازن بگاڑ کر دم لیتی ہے۔
آج پاکستانی معاشرہ نازک موڑ پر ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم کب نازک موڑ پر نہیں تھے! حالات و واقعات کی نوعیت ایسی ہے کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ الجھنیں ہمارے تعاقب میں رہتی ہیں اور ہمیں الجھاکر دم لیتی ہیں۔ معاملات کو بگڑتے دیر نہیں لگتی اور بگاڑ بھی محدود نہیں رہتا۔ ایسے میں عمومی سطح پر ہمارے ذہنوں کا الجھنا فطری امر ہے۔ دنیا بھر میں کئی معاشرے شدید نوعیت کی خرابیوں سے دوچار ہیں اور وہاں بھی مایوسی کا پایا جانا فطری امر ہے۔ ہاں‘ شدید مایوسی اور ناکامی کے بطن ہی سے حقیقت پسندی جنم لیتی ہے اور کچھ نیا سوچنے اور کرنے کا عزم بھی پیدا ہوتا ہے۔
حقیقت پسندی کیا ہے؟ کسی بھی بات اور کسی بھی معاملے کو اُس کی اصلیت کے ساتھ قبول کرنا۔ یہ اصلیت ہماری پسند کی بھی ہو سکتی ہے اور ہماری پسند کے بالکل برعکس بھی۔ حقیقت پسندی کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان معاملات کو جوں کا توں قبول کرے اور پھر اصلاحِ احوال کا ذہن بنائے۔ کسی بھی بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح یقینی بنانے کے حوالے سے پہلے قدم پر تو معاملات کو جوں کا توں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حقیقت پسندی ہے۔ جو کچھ بگڑ چکا ہے وہ ہمیں دیکھنا نہیں‘ قبول بھی کرنا ہے۔ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خرابی کو حرزِ جاں بنا لیا جائے۔ کسی بھی خرابی کو قبول کرنے کا مطلب ہے اُس کے تدارک کے بارے میں سوچنے کی راہ ہموار کرنا۔
حقیقت پسندی کا وصف انسان کو خواب و خیال کی دنیا سے باہر لاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں خوش فہمی یا غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم اپنی اپنی خواہشات کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ہماری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ دنیا ہماری مرضی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ ایسے کیونکر ہو سکتا ہے جب ہم زمینی حقیقتوں ہی کو نظر انداز کر رہے ہوں؟ کسی بھی زمینی حقیقت کو نظر انداز کرکے ہم اپنی کامیابی کا جامع روڈ میپ تیار نہیں کر سکتے۔ زمینی حقیقتیں ہماری معاون بھی ہوتی ہیں اور ہماری راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں۔ بعض معاملات میں کوئی ایک چیز ہمارے لیے بہت کام کی ثابت ہوتی ہے اور کبھی کبھی وہی چیز ہمارے بنے بنائے کھیل کو بگاڑ بھی دیتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھنا لازم ہے تاکہ درست فیصلے آسانی سے کیے جا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ بدلتی ہوئی حقیقتوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا بھی پڑتا ہے۔
حقیقت پسندی ہمیں زندگی کی اصلیت سے آشنا کرتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو اُس کی جڑ تک دیکھنے اور سمجھنے کے لیے حقیقت پسندی ناگزیر وصف ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں حقیقت پسندی نمایاں ترین اوصاف میں سے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بھی چاہتی ہیں کہ لوگ حقیقت پسندی کے ساتھ جئیں۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی روش کو بالکل پسند نہیں کیا جاتا۔ خیال و خواب کی دنیا میں رہنے والوں کو ایسے معاشروں میں بالکل پسند نہیں کیا جاتا۔ عمومی سطح پر لوگ حقیقتوں سے آشنا رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ خیالی باتوں اور خوش فہمیوں کی اُن کی زندگی میں برائے نام بھی گنجائش نہیں۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ ہمارے ہاں مطالعے کا غیرمعمولی ذوق و شوق رکھنے والے بھی فلسفے کی جن پیچیدہ کتابوں کے مطالعے سے گریز کرتے ہیں وہ کتابیں فرانس کے لوگ بس کے یومیہ سفر کے دوران پڑھتے آئے ہیں!
حقیقت پسندی وہ اعلیٰ وصف ہے جو انسان کو اپنی اور ماحول کی اصلیت سے آگاہ ہی نہیںکرتا‘ آگاہ رکھتا بھی ہے۔ یہ آگہی ناگزیر ہے کیونکہ اپنے آپ کو ڈھنگ سے جانے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت پسندی انسان کو کسی بھی مشکل صورتِ حال کے لیے بالکل اُسی طرح تیار کرتی ہے جس طور تیار ہونا چاہیے۔ خیالی دنیا میں رہنے والے دنیا کو اپنی خواہشوں کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ یہ عینک سب کچھ اچھا دکھاتی ہے۔ جب خواہشات کا دریا اترتا ہے تب زمینی حقیقتیں دلدل کی صورت منہ کھولے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ ایسی کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ انسان کسی بھی مرحلے میں حقیقتوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ اپنی خواہشوں کے دائرے میں گھومتے رہنے کے بجائے حقیقت پسندی کے میدان میں اپنا آپ منوانے پر کمر بستہ رہے۔
زندگی جیسی نعمت اس لیے تو عطا نہیں کی گئی کہ ہم اِسے بے لگام خواہشوں کی تکمیل کے فریضے میں کھپا دیں۔ منطقی اور ناگزیر خواہشوں سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہمارے دل میں پایا جاتا ہے وہ زندگی کا توازن بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ بنیادی معاملات میں حقیقتوں کو نظر انداز کرنا ایسا بگاڑ پیدا کرتا ہے جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ کسی بھی ماحول میں ہر سطح پر وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو اپنے بنیادی معاملات کو حقیقت پسندی کے ساتھ درست رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔ کسی جواز کے بغیر خوش فہمیوں کے دائرے میں گھومتے رہنا شدید بے عقلی کی دلیل ہے اور اس کے نتیجے میں مزید بے عقلی کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔
آج کی زندگی مختلف سطحوں پر انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ بہت کچھ ہے جو انسان کے بس میں ہے ہی نہیں۔ بعض معاملات میں تو انسان اپنے آپ کو ایسا بے بس محسوس کرتا ہے گویا اُس کے اختیار میں کچھ بھی نہ ہو۔ اور واقعی ایسا ہے بھی۔ یہ کیفیت اُس وقت وارد ہوتی ہے جب انسان سوچے سمجھے بغیر خواہشوں کا غلام ہو رہے۔ حتمی تجزیے میں تو انسان بہت کچھ کرنے کے قابل رہتا ہے مگر کبھی کبھی ایسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو یکسر بے سہارا سا محسوس کرتا ہے۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب ہم حقیقتوں سے اپنا تعلق ختم کر بیٹھتے ہیں۔
کسی بھی بنیادی یا زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنا کسی حد تک اپنے وجود کے خلاف جانا ہوتا ہے۔ جن معاملات کا ہم سے کسی نہ کسی حد تک تعلق بنتا ہو اُنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اس عیّاشی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ کسی بھی معاشرے کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ترقی اگر ممکن ہوتی ہے تو صرف اُس وقت جب ہر حقیقت کو کھلے دِل سے قبول کرنے کی ذہنیت پروان چڑھائی جائے۔ کئی معاشروں نے اپنی پس ماندگی کو پچھاڑنے میں صرف اُس وقت کامیابی حاصل کی جب اُنہوں نے حقیقت پسندی کو شعار بنایا۔ زندگی کی تلخ تر سچائیوں کو تسلیم اور قبول کرنے ہی سے ترقی کی سمت لے جانے والی اصلاحِ احوال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے معاملات کو حقیقت پسندی کی مدد سے درست کرتے چلے جاتے ہیں تب ترقی و خوش حالی کی طرف بڑھنے کی راہ ملتی ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں حقیقت پسندی کا وصف اپناکر اپنا جائزہ لینا ہے تاکہ تعقل پر مبنی فیصلوں کی راہ ہموار ہو اور ہم زیادہ پُرجوش ہوکر اپنے لیے کوئی ہدف مقرر کریں اور اُس کی طرف بڑھیں۔ خیالی دنیا سے باہر آکر حقیقت کی دنیا میں جینا شروع کرنے کا یہی وقت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved