تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     11-01-2023

جو ہم نے دیکھا

جنرل فیض حمید کی فیملی کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں۔لطیفال ان کا گاؤں ہے اور ان کے خاندان کے بڑے چودھری زمرد خان تحصیلدار ہوا کرتے تھے جو ہمارے والد صاحب کے قریبی دوست تھے۔1951ء میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو والد صاحب جناح مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے مسلم لیگی امیدوار کے خلاف کھڑے ہوئے اور بھاری اکثریت سے جیتے۔اُس الیکشن میں والد صاحب کے قریبی ساتھی چودھری زمرد خان لطیفال اور چودھری امیر خان سرال تھے۔ بتانے کا مقصد یہ کہ پرانے تعلقات ہیں‘ لہٰذا غمی خوشی میں شرکت ہوتی رہی ہے۔اورجب جنرل فیض حمید کی اکلوتی بیٹی کی شادی کا عشائیہ راولپنڈی میں منعقد ہوا تو ظاہر ہے ہم نے بھی وہاں موجود ہونا تھا۔ایسی تقاریب میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور لوگ آتے بھی ہیں لیکن جو اس تقریب کی خصوصیت تھی وہ مہمانانِ گرامی کی لسٹ تھی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کچھ دیر کیلئے تشریف لائے حالانکہ میرا ذاتی خیال تھا کہ شاید وہ نہ آئیں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اُن کے بارے میں ایک عمومی تاثر پیدا ہوچکا ہے جس کی بنا پر اُن کیلئے کسی پبلک جگہ پر آنا دل گردے کا کام ہے۔اور جنرل فیض کی تقریب کسی پبلک اجتماع سے کم نہ تھی۔مائی لارڈ ثاقب نثار صاحب بھی تشریف لائے تھے‘ اُن سے مختصر ملاقات ہوئی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی موجود تھے۔ جنرل فیض کی تقریب ہو اور صادق سنجرانی نہ ہوں یہ ناممکن ہے۔جن لوگوں پر جنرل فیض کی مہربانیاں رہیں اُن میں جناب سنجرانی کا نام سرفہرست رہے گا۔پرائم منسٹر آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے بھی اس تقریب میں ہونا تھا اور وہ بھی بڑے ریلیکس طریقے سے بیٹھے تھے۔فوجی افسران کی بھرمار تھی‘ بہتوں سے ہم آشنا نہیں تھے لیکن آتے جاتے کافی لوگوں سے ملاقات ہو گئی۔ایک بات نوٹ کرنے کی یہ تھی کہ گو شادی کی تقریب تھی لیکن لوگوں کا موڈ کچھ سنجیدہ سنجیدہ سا تھا۔ اور اس میں کوئی حیرانی کی بات بھی نہیں کیونکہ ملک کی صورتحال ہی ایسی بن چکی ہے کہ کسی پبلک جگہ پر قہقہے لگانا تھوڑا مشکل سا ہو گیا ہے۔ریٹائرڈلیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب‘ جو اب اچھی خاصی ٹی وی پرسینیلٹی بن چکے ہیں‘ ملے تو دیکھا کہ اُن کا موڈ بالکل ہی سنجیدہ تھا۔ حال چال پوچھاتو اُنہوں نے سرہلا دیایعنی کہنے کو کچھ مشکل سا ہو رہا تھا۔
نامور ٹی وی پرسینیلٹی آفتاب اقبال سے کچھ دیر گپ شپ رہی‘ اُنہوں نے ایک بڑا دلچسپ فقرہ کہا کہ میں اُس جینئس‘ اُس سقراط‘ اُس بقراط کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے یہ ساری صورتحال پیدا کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کوئی بہت بڑا جینئس ہی کرسکتا تھا۔لگتا بھی یہی ہے کہ جو ہاتھ اس ملک کے ساتھ ہو گیا ہے وہ کسی عام آدمی کا کمال نہیں۔جب واقعات ہو رہے ہوتے ہیں انسانوں کو اُن کے محرکات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ کچھ سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ہمارے حالات جو بگڑے‘ میری دانست میں اُس کی بڑی وجہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن تھی۔ تین سال پر ہی اکتفا کیا جاتا تومجھے یقین ہے کہ اُن کی عزت بچ جاتی اور یہ کچھ ملک کے ساتھ نہ ہوتا جس کا شاخسانہ ہم اب بھگت رہے ہیں۔کم ازکم میں نہیں سمجھتا تھا کہ عمران خان یہ ایکسٹینشن دیں گے اور ایکسٹینشن کی کوئی بڑی وجہ بھی نہ تھی۔لیکن کون سے وہ محرکات تھے کہ عمران خان جیسا بے باک انسان جو کچھ کرنے پہ آ جائے تو کسی چیز کی پروا نہیں کرتا ایکسٹینشن پر راضی ہو گیا۔اس موضوع پر جنرل فیض سے بات تو نہیں ہوئی لیکن میرا خیال ہے کہ اُس مخصوص ذہنی ماحول جس سے متاثر ہوکر عمران خان ایکسٹینشن کی طرف آئے‘کے پیدا کرنے میں جنرل فیض کا ہاتھ ضرور ہوگا۔
وہ جنرل باجوہ کے ہمیشہ قریب رہے تھے۔ جنرل باجوہ کمانڈر دس کور تھے تو جنرل فیض اُن کے کرنل سٹاف تھے۔جنرل باجوہ آرمی چیف بنے تو جنرل فیض جی او سی پنوں عاقل تھے جہاں سے اُنہیں ٹرانسفر کرکے آئی ایس آئی کے سی ڈائریکٹوریٹ کا انچارج بنایا گیا۔ وہاں سے وہ آئی ایس آئی کے چیف بنے اور بعد میں جو کچھ ہوتا رہا اُس سے ہم عمومی طور پر واقف ہیں۔یعنی دونوں میں قربت تھی اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بطور آئی ایس آئی چیف جوکچھ جنرل فیض کرتے رہے وہ جنرل باجوہ کی اشیرباد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
بہرحال ایکسٹینشن ہوئی توگڑبڑ شروع ہو گئی۔کچھ تو یہ وجہ بنی کہ عمران خان جنرل فیض پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے تھے۔ بہت سارے سیاسی معاملات‘ جن سے نمٹنا وزیراعظم کو چاہئے تھا‘ جنرل فیض پر چھوڑ دیے جاتے تھے۔بلوچستان کے معاملات ہوں یا سینیٹ میں کچھ ہو رہا ہو‘ ایک ہی ہاتھ پیچھے دیکھا جاتا تھا۔اِس قربت کی وجہ سے عمران خان چاہتے تھے کہ جنرل فیض آئی ایس آئی میں ہی رہیں۔ جنرل فیض خود چاہتے تھے کہ اُن کی تعیناتی پوری ہونے پر وہ کسی کور کی کمان سنبھالیں کیونکہ تبھی وہ آرمی چیف کی تعیناتی کی قطار میں آسکتے تھے۔لیکن وزیراعظم نے اُنہیں روکے رکھا جس سے کچھ مسائل پیدا ہوناشروع ہونے لگے۔ جنرل باجوہ نے جب آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کیا تو اُس کے نوٹیفکیشن پر بدمزگی پیدا ہوئی۔تقرر نامہ پی ایم آفس کو کرنا چاہئے تھا لیکن کر دیا راولپنڈی نے۔ اس پر عمران خان ڈٹ گئے اور بدمزگی تھوڑی زیادہ بڑ ھ گئی۔
تاریخ کے صفحات میں اب تک یہ سوال گردش کررہا ہے کہ نپولین نے روس پر حملہ کیوں کیا۔ پورے یورپ پر نپولین چھایا ہوا تھا لیکن ایک بڑی فوج کے ساتھ اُس نے روس پرچڑھائی کردی اور وہی اُس کی تباہی کا سبب بنا۔اسی لحاظ سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کون سی بڑی وجہ بنی جس کے سبب عمران خان کو ہٹانے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔عمران خان کی مقبولیت نیچے آچکی تھی۔ الیکشن کو سال‘ ڈیڑھ سال باقی تھا۔ جو کارکردگی عمران خان کی حکومت کی تھی اُس بنیاد پر الیکشن بڑا کانٹے دار ہونا تھا لیکن عمران خان کوہٹانے کا عمل پورا ہوا تو صورتحال یکسر بدل گئی۔ایک تو عمران خان ڈٹ گیا اور دوسرا یہ کہ رجیم چینج کو عوامی پذیرائی نہ ملی۔وہی لوگ جو عمران خان سے بیزار ہو رہے تھے‘ اُس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔عمران خان نے بھی پھر وہ کیاجو پاکستانی تاریخ میں کبھی ہوا نہ تھا۔مقتدرہ کو ایسے آڑے ہاتھوں لیا کہ رائے عامہ کا مزاج بھی بدل گیااور سوشل میڈیا پر وہ وہ باتیں سنائی گئیں جو پہلے پاکستان میں کبھی نہ سنی گئی تھیں۔نپولین جیسا زیرک جرنیل نہ سمجھ سکا کہ روس پر حملے کے نتائج کیا ہوں گے۔ہٹلر کی شکست کی وجہ بھی اُس کے غلط اندازے تھے۔رجیم چینج والوں کے پلے بھی کچھ نہ پڑا کہ وہ جو کرنے جا رہے ہیں اُس کا نتیجہ کیا ہوگا۔
ممتاز تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی عمران خان کے کزن اور بہنوئی ہیں لیکن جیسے ہم سب جانتے ہیں‘ دونوں کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔مجھ پر جب لاہور میں نامعلوموں کی بدولت مہربانی ہوئی تو حفیظ اللہ نیازی مجھے ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں اُنہوں نے کہا کہ جنرل فیض کی تعیناتی کے شروع کے دنوں میں وہ اُن سے ملنے گئے اور اُنہوں نے جنرل فیض کو کہا کہ ایک بات یاد رکھنا :عمران خان کو غلط نہ سمجھنا‘ یہ کسی سے ڈرتا نہیں ہے۔حفیظ اللہ نیازی نے کچھ اور بھی جنرل فیض کو کہا جو اس کالم میں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا لب لباب یہ ہے کہ عمران خان کو کبھی انڈر اسٹیمیٹ نہ کرنا۔لیکن اگلوں نے اُسے انڈر اسٹیمیٹ کیا اور پھر صورتِ حال ان کی گرفت میں نہ رہی۔کس کو خبر تھی کہ یہ سب کچھ ہوگا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved