ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے مجھے دیکھا اور ہنس کر کہنے لگی: اگر آپ ایک مدت کے بعد آئی ای ڈی آئے ہیں تو آپ کو یہاں بہت تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ میں نے مسکراتے ہوتے ہوئے اقرار میں سر ہلایا اور دل میں سوچا پہلی تبدیلی تو یہی ہے کہ اس ریسیپشن کیبن میں‘ جہاں آج یہ لڑکی بیٹھی ہے‘ کبھی یہاں ٹینا بیٹھا کرتی تھی جس کی ہنس مکھ شخصیت آئی ای ڈی کا پہلا خوشگوار تعارف ہوا کرتی تھی لیکن یہ تو بیس‘ پچیس برس پہلے کی بات ہے۔ اب نجانے وہ کہاں ہو گی۔ میں نے اس خیال کو جھٹک کر ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی سے پوچھا :کیا میں اندر جا سکتا ہوں ؟ وہ بولی: ضرور‘ لیکن آج چھٹی کا دن ہے‘ اکا دُکا لوگ آئے ہیں۔ میں اس کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھا تو سامنے وہی خوبصورت مانوس لان تھا جس میں لکڑی کے بینچ رکھے تھے۔ میں نے سوچا میں ان بنچوں پر کتنی بار بیٹھا تھا۔ چیزیں وہیں رہتی ہیں لیکن لوگ چلے جاتے ہیں۔ میں چلتا ہوا لان میں داخل ہوا اور ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ دسمبر کی نرم رُو پہلی دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی تھی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔ آئی ای ڈی کی عمارت اس لان کے چاروں طرف تعمیر کی گئی تھی۔ اُس وقت اس عمارت کی دو منزلیں تھیں لیکن اب عمارت میں کئی اضافے ہو چکے ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر زیادہ تر کلاس رومز اور پہلی اور دوسری منزل پر فیکلٹی اور ایڈمنسٹریشن کے دفاتر ہیں۔ لان میں پھیلی ہوئی دسمبر کی دلربا دھوپ بھلی معلوم ہو رہی تھی‘ میں نے لکڑی کے بینچ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے یوں لگا جیسے بیتے ہوے سارے دن آنکھیں جھپکتے ہوئے میرے پاس آ بیٹھے ہیں اور ماضی کے دھندلکوں میں گم منظر روشن ہونے لگے ہیں۔ تب میری نگاہ عمارت کی پہلی منزل پر چلی گئی اور میں بے اختیار بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور ریسیپشن کے ساتھ اوپر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ پہلی منزل پر جائیں تو بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا کمرہ آتا ہے جس کی ونڈو برآمدے میں کھلتی ہے۔ یہ فوٹو کاپی سنٹر ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر کام کرنے والے لڑکے کا نام رمضان تھا۔ وہ بہت محنت سے کام کرتا تھا اور اس کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ ہوتی۔ سنا ہے‘ ایک عرصہ ہوا رمضان یہاں سے چلا گیا ہے۔ اس کمرے سے ذرا آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ڈائریکٹرز کے دفاتر ہیں۔ شیشے کادروازہ کھول کر اندر جائیں تو سامنے آفس سیکرٹری کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اس کے ساتھ دائیں ہاتھ آئی ای ڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کاظم بیکس (Kazim Bacchus) بیٹھا کرتے تھے۔ مجھے کئی ملکی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے کاظم جیسا کوئی انسان کہیں نہیں ملا۔ کاظم ایک اچھا استاد‘ اچھا ریسرچر‘اچھا منتظم اور اچھا انسان تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایجوکیشنل لیڈر تھا جو اپنی گفتار اور کردارسے دوسروں کو انسپائر کرتا تھا۔ کاظم میرا مینٹور تھا جس نے مجھے تعلیم اور تعلیمی قیادت کے اَسرار و رموز غیر محسوس طریقے سے سمجھائے۔ یہ کاظم ہی تھا جس کی کشش مجھے اسلام آباد سے کراچی لے آئی تھی۔ کاظم آئی ای ڈی کا پہلا ڈائریکٹر تھا جس نے اس ادرے کی مضبوط بنیاد رکھی۔ کاظم نے مجھے اپنے فعل و عمل سے بتایا تھا کہ Tranformational Leadership کیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب کاظم اپنا Tenure مکمل کرنے کے بعد واپس کینیڈا کے شہر البرٹا جا رہا تھا تو ہم سب بہت اداس تھے۔ وہ کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹامیں پروفیسر تھا اور پاکستان سے واپس جا کر اسی یونیورسٹی سے وابستہ ہو گیا جہاں وہ آخر دم تک تدریس و تحقیق میں سرگرم رہا۔ آخری دنوں میں اسے بیماری نے آ لیالیکن اس کی تعلیمی سرگرمیوں میں فرق نہ آیا۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ ہم سب کے دلوں پر راج کرنے والا اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ کاظم اس دنیا سے تو چلا گیا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی شخصیت کی مہک ہمارے تصور میں اسی طرح مہکتی رہے گی۔
کاظم کے دفتر کے ساتھ ایلن ویلر کا دفتر تھا۔ ایلن ڈائریکٹر اکیڈمک تھا۔ اونچا لمبا قد‘ مسکراتا ہوا چہرہ۔ نہایت نفیس انسان جس کی حسِ مزاح اسے دوسروں سے ممتاز بناتی تھی۔ وہ کینیڈا کی براک (Brock) یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اور وہیںسے اس کا انتخاب آئی ای ڈی کے لیے ہوا تھا۔ ایلن بتایا کرتا تھا کہ اس کے والد ڈاکٹر تھے اور پاکستان بننے سے پہلے کوئٹہ میں تعینات تھے اور یہیں ایلن کی پیدائش ہوئی تھی۔ اپنی ہنس مکھ شخصیت کے باعث وہ اساتذہ اور طلبہ میں یکساں مقبول تھا۔ پھر ایک دن ایلن بھی اپنا Tenure مکمل ہونے پر واپس کینیڈا Brock University چلا گیا۔ آخری بار اس سے رابطہ ہوا تو وہ وہاں پروفیسر ایمریطس کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ایک طویل عرصے سے اس سے رابطہ نہیں ہوا۔ اس بار میں کینیڈا گیا تو ایلن کو بھی ای میل کی لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جو میرے لیے حیرت کی بات تھی کیونکہ وہ جواب دینے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ خدا خیر کرے!
اس سیکشن میں تیسرا آفس ڈائریکٹر آوٹ ریچ (Out Reach) صدر الدین پردھان کا تھا۔ نام تو اس کا صدرالدین تھا لیکن ہم سب اسے اس کے مختصر نام صدرُو سے پکارتے تھے۔ صدروآئی ای ڈی کی سب سے مقبول شخصیت تھا۔ فیکلٹی‘ طلبہ‘ ملازمین سب کے لیے اس کا دروازہ کھلا رہتا۔ صدرُو ایک زندگی سے بھرپور شخص تھا۔ آئی ای ڈی کی تاریخ میں اس کا قیام یہاں سب سے طویل رہا۔ وہ کرکٹ کا بہت اچھا کھلاڑی تھا اور اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ صدرو Emotional Intelligence کی چلتی پھرتی تصویر تھا۔ جو اس سے ایک بار مل لے وہ ہمیشہ کے لیے اس کا دلدادہ ہوجاتا۔ آئی ای ڈی میں ایک لمبی اننگز کھیلنے کے بعد وہ اپنے آبائی وطن کینیڈا لوٹ گیا۔ کل ہی صدرو سے بات ہوئی‘ وہ پاکستان سے بہت دور کینیڈا کے شہر اوٹاوا کے برف زار وں میں اپنے پوتوں اور نواسیوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں جب وہ برفباری کے موسم میں آتش دان کے سامنے آرام کرسی پر بیٹھتا ہو گا تو اسے کراچی اور آئی ای ڈی میں گزارے ہوئے دن رات یاد توآتے ہوں گے۔
تین ڈائریکٹرز کے دفاتر کے ساتھ ایک کانفرنس روم تھا جہاں میں نے کتنی ہی میٹنگز میں شرکت کی تھی۔ ان میٹنگز میں کاظم‘ ایلن‘ صدرو اور دوسرے فیکلٹی ممبرز شریک ہوتے۔ کانفرنس روم کے ایک کارنر میں الیکٹرک کیٹل اور اس کے ہمراہ چائے‘ کافی اور گرین ٹی کا سامان رکھا ہوتا۔ اسی کانفرنس روم میں ہر ماڈیول پڑھانے کے بعد ایک ڈی بریفنگ سیشن ہوتا جس میں تفصیل سے ہر کورس کے ایک ایک پہلو پر گفتگو ہوتی۔ مجھے یاد ہے‘ وہ میری پہلی ڈی بریفنگ میٹنگ تھی جب کاظم نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا: یہ میٹنگ صحیح اور غلط کے بارے میں نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اگلی بار اس سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی کیسے دکھا سکتے ہیں۔ ڈائریکٹرز آفس سے باہر نکل کر سیدھا چلتے جائیں تو دائیں ہاتھ شیشے کا ایک دروازہ آتا تھا۔ شیشے کے اس دروازے کے دوسری طرف سامنے ایک ہی قطار میں سینئر فیکلٹی ممبرز کے چھ کمرے تھے۔ باقی فیکلٹی ممبرز کے آفس عمارت کے دوسرے مقامات پر تھے۔ میں نے شیشے کا دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ دروازے کے اُس طرف میری زندگی کے بیتے ہوئے لمحوں کا انمول خزانہ تھا اورکتنی ہی یادیں بانہیں پھیلائے مجھے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved